کردستان کا سفر اور طیب اردوان

“ترک فوج صدیوں سے ہم پر غاصبانہ قبضہ جمائے بیٹھی ہے۔ وہ ہمیں مارتے ہیں، ہماری زندگیاں ترک فوجیوں کے ہاتھ گروی ہیں لیکن ہم لڑیں گے ، آخری سانس تک لڑیں گے اور اپنےلیے آزاد کردستان حاصل کر کے رہیں گے”یہ الفاظ میں نے ایک کرد باشندے سے دورانِ گفتگو اس وقت سنے جب ہم “اربیل”کے جڑواں شہر انکاوا کی مرکزی شاہرہ پر موجود ایک ڈھابے میں بیٹھے ترکش شاورمہ تناول کر رہے تھے۔کرد کا لفظ تو بہت لوگوں نے سنا ہو گا لیکن کردستان کے بارے میں دنیا بہت کم جانتی ہے جبکہ دنیا میں کردوں کی آبادی 30 ملین کے لگ بھگ ہے۔ مشہور مسلم جانباز صلاح الدين الايوبی بھی کرد تھا۔
مجھے کردوں کو قریب سے دیکھنے اور وہاں کے حالات سمجھنے کا موقع اس وقت ملا جب آج سے تقريبًا پانچ سال قبل ایک پروجیکٹ کے سلسلے میں میرا قطر سے کردستان جانا ہوا ۔ یہ ایک دلچسپ سفر تھا جس سے میری معلومات میں بے حد اضافہ ہوا اور مجھے کردستان، دولتِ اسلامیہ، ترکی، عراق اور شام میں ہونے والی بے سرو پا جنگ اور اندرونِ خانہ شورش کو سمجھنے میں بہت مدد ملی۔ قابلِ ذکر واقعہ یہ بھی ہے کہ دوران سفر میری ملاقات پاکستان کی مشہور کتھک ڈانسر شیما کرمانی سے بھی ہوئی جو کہ اربیل میں ایک ثقافتی طائفے کے ہمراہ پروگرام کرنے آئیں تھیں، اس سفر سے بہت سی کہانیاں وابستہ ہیں جنہیں پھر کبھی تفصیل سے بیان کروں گا۔
اس موقع پر مجھے مذکورہ بالا گفتگو اس لیے یاد آ گئی کیونکہ ترک صدر طیب اردوان آجکل بھارت کے دورہ پر ہیں اور بھارت کے دورے پر روانگی سے قبل انہوں نے کہا کہ امریکہ کے جھنڈے کو “وائی پی جی” جیسی دہشت گرد تنظیم کے پرچم کے ساتھ موجود دیکھ کر مجھے بہت افسوس ہوا ہے،واضح رہے کہ “وائی پی جی” سے مراد شامی کُرد پیپلز پروٹیکشن یونٹس ہیں جو ترکی کردستان کی ورکرز پارٹی کا شامی دھڑا سمجھا جاتا ہے۔ کردستان ورکرز پارٹی ترکی کے جنوب مشرقی حصے میں گزشتہ تین عشروں سے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ترک افواج ان پر کئی بار فضائی حملے کر چکی ہے۔ اسی طرح ترک کردستان کے شہر دیاربکر میں موجود کرد جنگجو بھی ترک فوج سے صدیوں سے براہ راست نبرد آزما ہیں۔ دوسری جانب عراقی حصے میں کردستان کی آزادی کے لیے لڑنے والا کرد جنگجو ونگ”پیش مرگا فورس” کہلاتا ہے جن کو امریکہ کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔
پاکستان میں ہمارے کچھ دوست طیب اردوان کو ہمت و حوصلہ کی دعائیں دیتے نہیں تھکتے۔ میں حیران ہوں کہ وہ کیا دعائیں کرتے ہیں کہ ترکی بے گناہ کردوں کا خون یونہی بہاتا رہے؟ داعش جیسی دہشت گرد تنظیم جس کو تمام اسلامی ممالک مشترکہ طور پر علی الاعلان طلاق دے چکے ہیں سے سستے داموں پٹرول خرید کر داعش کو مالی طور پر مستحکم کرتا رہے؟ ترکی کا امریکہ اور اسرائیل جیسی ظالم ریاستوں کے ساتھ گٹھ جوڑ یونہی قائم رہے؟ یا پھر ترکی اور بھارت کے بیچ پیار کی پینگیں مزید بڑھیں؟کشمیر سے متعلق جن لوگوں کو لگتا ہے کہ شاید کشمیر کے معاملے میں ترکی کھل کر پاکستان کی حمایت کرے گا تو ان کو اپنی خوش فہمی دور کر لینی چاہیے کیونکہ جس طرح بھارت میں کشمیری ایک خود مختار ریاست کا خواب دیکھتے ہیں بالکل ویسے ہی کرد عوام ایک طویل عرصہ سے اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ کشمیر کا معاملہ تو صرف دو ممالک بھارت اور پاکستان کے بیچ ہے لیکن بد قسمت کردستان چار ممالک میں تقسیم ہے یعنی عراق، ترکی، ایران اور شام، سونے پر سہاگہ یہ کہ ان ممالک میں کردوں کو سب سے زیادہ قتل کرنے والا ملک ترکی ہے۔کرد عوام چومکھی لڑائی لڑ رہے ہیں ،ایک طرف وہ ترکی کردستان میں ترک فوج کے ساتھ براہ راست نبرد آزما ہیں جبکہ دوسری جانب وہ عراق اور شام میں دولتِ اسلامیہ سے بھی دو بدو لڑ رہے ہیں، کردوں میں لڑاکا خواتین گوریلا وار اور بہادری میں اپنی مثال آپ ہیں۔
ترکی کردستان میں معصوم اور بے گناہ کردوں کا خون بہا رہا ہے ۔ ترکی نے آن لائن انسائیکلوپیڈیا اور وکی پیڈیا پر بھی پابندی لگا رکھی ہے، یعنی جو حربے بھارت کشمیریوں کو دبانے کے لیے استعمال کرتا ہے ترکی وہی داؤ پیچ کردوں کے ساتھ آزماتا ہے ۔ پچھلے سال ترکی نے 80 سے زائد صحافیوں کو جیل بھیج دیا تھا جبکہ ترک مبلغ فتح اللہ گولن کے ساتھ رابطوں اور گزشہ سال جولائی میں ہونے والی بغاوت کے نتیجے میں 47000 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے جن میں 10700 پولیس اور 7400 فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ البتہ کردوں کے لیے مزے کی بات یہ ہے کہ عراق کے وہ علاقے جہاں سے دولتِ اسلامیہ نے راہِ فرار اختیار کی ہے وہاں اب کردوں کا قبضہ ہو چکا ہے جس پر ترکی کو سخت تکلیف ہے ان میں ایک موصل شہر بھی ہے۔ دولتِ اسلامیہ کے قبضے کے کچھ ہی روز پہلے میں اس شہر کی گلیوں میں مٹر گشت فرما رہا تھا۔ جس دن میں اربیل سے قطر واپس لوٹا اسی دن خبروں کے ذریعے معلوم ہوا کہ موصل پر دولتِ اسلامیہ نے قبضہ کر لیا ہے۔ خبر سن کر میری ریڑھ کی ہڈی میں ایک سنسنی کی لہر دوڑ گئی تھی۔اس بے سرو پا جنگ میں سب سے زیادہ نقصان شامی باشندوں کا ہوا، جو در بدر، خانماں خراب مشرق سے مغرب کا چکر لگا رہے ہیں اور اس بڑی رسہ کشی یعنی ترکی، روس، امریکا، سعودیہ اور ایران کی پراکسی وار نے شامیوں کی زندگی اجیرن کر کے رکھ دی۔
موجودہ صورتِ حال میں جس طرح امریکہ اور روس سعودی عرب اور ترکی کو استعمال کر رہے ہیں، حقیقت میں یہ ان کے ساتھ دوستی نہیں بلکہ دشمنی کے مترادف ہے۔ دونوں ممالک انتہائی پر خطر رستے پر چل نکلے ہیں۔ اب بظاہر امریکہ درمیان سے نکل رہا ہے اور چونکہ روس کا جھکاؤ ایران کی جانب ہے لہذا امریکہ کی چال یہ ہو گی کہ روس اور سعودیہ آمنے سامنے آ جائیں ۔ ایک طرف سعودی عرب کے ہمنوا ہیں اور دوسری جانب روس، حزب اﷲ، شامی فوج اور ایران ہیں۔ چناچہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ممالک پراکسی وار کی بجائے براہ راست جنگ کی طرف آتے جا رہے ہیں۔ امریکہ جس طرح ہر معاملے پر دنیا کو چکما دیا کرتا ہے، یہاں بھی وہ بڑی چال چل جاۓ گا اور اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ کہاں مشرقِ وسطیٰ اور کہاں امریکہ، اب تو داعش کے ہیروز اور ایف بی آئی کی جاسوس لڑکیوں کے معاشقے بھی منظرِ عام پر آنے لگے ہیں اور ظاہر ہے کہ ایک نہ ایک دن یہ جنگ ختم ہو جائے گی لیکن ترکی اور سعودی عرب کو سوچنا ہو گا کہ اس سارے خونی کھیل میں انہوں نے کیا کھویا اور کیا پایا ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے اور تب تک یہ ممالک اپنی غیر دانشمندانہ بلکہ وحشیانہ پالیسیوں کی وجہ سے ایک عام مسلمان کی دلی حمایت بھی کھو چکے ہوں اور پچھتانے کا وقت بھی نہ ملے۔

Facebook Comments

آصف وڑائچ
Asif Warraich is an Engineer by profession but he writes and pours his heart out. He tries to portray the truth . Fiction is his favorite but he also expresses about politics, religion and social issues

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”کردستان کا سفر اور طیب اردوان

  1. مکمل نہیں جزوی اتفاق ھے کہ کردوں کو بھی ان کے حقوق ملنے چاھئے …مگر اس خطے میں شام و عراق میں دنیا کے تمام ملک ملوث ھیں یہ صرف کردوں کا مسئلہ نہیں .. اسرائیل کی سرحد پورے خطے سے جوڑنی ھے…تیس لاکھ کرد حقوق اصل مسئلہ نہیں ..جغرافیہ اصل مسئلہ ھے
    اسرائیلی فوجی اڈے ..پورے خلیج سے روس اور وسطی ایشیا تک ..فضائی زون ایسا بنے گا کہ بس اسرائیل ھی اسرائیل ھوگا. مضمون کرد مظلومیت کے گرد گھوم رھا ھے…کردی امریکی اسرائیل عزائم کو نظر انداز کردیا..

Leave a Reply