آپ نے مکیش امبانی کے بیٹے اننت امبانی کی شادی پر بولی وڈ انڈسٹری کے تینوں خان ناچتے دیکھ لیے۔ شادی میں دنیا کے امیر ترین رہنے والے شخص بل گیٹس اور فیسبک بانی زکر برگ کے سادہ لباس پر مباحثے بھی پڑھ لیے۔ شادی پر ریحانہ جیسی سنگرز کو ملنے والے ملین ڈالرز کا تذکرہ بھی جان لیا۔ شادی پر اٹھنے والے اخراجات کا پاکستانی جی ڈی پی سے موازنہ بھی کرکے دیکھ لیا۔ اس بات پر بھی کُڑھ لیا کہ پاکستان کا کاروباری طبقہ کتنا پسا ہوا ہے جبکہ بھارت کاروبار میں کتنا آگے نکل چکا ہے۔ الغرض ریلز، ٹاک شوز، اور پوسٹس میں احساس کمتری کے سب پھپھولے پھوڑ لیے۔
لیکن ایک ویڈیو جو آپ سب کی نظروں سے تقریباً اوجھل رہی۔ وہ تھی اننت امبانی کی جانب سے اپنی بیماری کا تذکرہ۔۔ وہ تذکرہ جسے سن کر دنیا کے گیارہویں امیر ترین شخص کو بھی بھری محفل میں روتے دیکھا گیا۔ وہ شخص جس نے محض یہ جاننے پر کہ اس کے محبوب بیٹے کو ہاتھی پسند ہیں، ہاتھیوں کا سینکڑوں ایکٹر پر مشتمل فارم بنوا دیا۔ جہاں ان ہاتھیوں کو بھی ایسے ایسے لڈو کے پارچے کھلائے جاتے ہیں جو انسانوں میں بھی کسی کو ہی کھانا نصیب ہوں، وہ شخص اپنے بیٹے کی بیماری پر لاچار ہو کر آنسو بہاتا نظر آیا۔
اننت امبانی کو شدید دمے کا ایسا مرض لاحق ہے جس کا علاج سوائے اسٹیرائیڈز کے اور کچھ نہیں۔ اور ان اسٹیرائیڈز کا ردِعمل یہ کہ انسان کو اتنی شدید بھوک لگتی ہے کہ دونوں ہاتھوں سے ہاتھیوں جتنی خوراک کھانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً اس کا وزن بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اننت امبانی نے اپنی اس بیماری کا تذکرہ اتنے بوجھل دل سے کیا کہ محفل میں شریک اور پُر شکوہ شان و شوکت سے مرعوب لوگ بھی اپنے آنسوؤں کو روک نہیں پائے۔
اس واقعے سے دو سبق حاصل ہوتے ہیں۔ اوّل اس دنیا کی سب سے بڑی نعمت دولت نہیں بلکہ اچھی صحت کا ہونا ہے۔ انسان اگر صحت مند ہے تو لال مرچ سے روٹی کھا کر بھی سارا دن چاک و چوبند رہ سکتا ہے۔ لیکن خدانخواستہ بیمار ہو جائے تو پاس پڑی دنیا جہان کی نعمتیں بھی بے کار لگتی ہیں۔
دوسرا یہ کہ اس فانی دنیا میں کوئی بھی کبھی بھی مکمل نہیں ہے۔ ہم میں سے ہر انسان خواہ جس مرضی مقام تک پہنچ جائے، عزت، شہرت، دولت کے جتنے مرضی اونچے سنگھاسن پر بیٹھ جائے اس کے ساتھ بہرحال بدقسمتی یا تکلیف کا کوئی نہ کوئی ایسا پہلو ضرور جڑا رہ جائے گا جو اسے ہر آن، ہر لمحہ یہ احساس دلاتا رہے گا کہ وہ مکمل نہیں ہے، اس کے پاس “سب کچھ” نہیں ہے۔
یہ مثال صرف امبانی ہی نہیں دنیا کے کسی بھی کامیاب ترین انسان حتیٰ کہ انبیاء، اولیاء پر بھی صادق آتی ہے۔ یہی اس دنیا کی حقیقت ہے۔ ہمیں کسی نہ کسی پریشانی، خامی یا بڑے مسئلے کے ساتھ جینا ہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہمارا ردعمل یہ طے کرتا ہے کہ آیا اس پریشانی کو خود پر سوار کرکے اپنی زندگی کو ناکامیوں کا جہنم سمجھ کر جینا ہے یا پھر اسے قبول کرکے، ساتھ لے کر سعی کرکے آگے بڑھنا ہے۔ اور دنیا کو ہی اپنے لیے جنت بنا لینا ہے۔ ہمارا ردعمل ہی ہمارے مستقبل، ہماری تقدیر کو طے کرتا ہے۔
یاد رہے اس مثال کا مقصد دولت کے حصول کی خواہش کو غلط قرار دینا نہیں۔ پیسہ، عزت، طاقت بھی ہماری زندگی کے لازمی جزو ہیں۔ لیکن زندگی کی سب سے بڑی نعمت اچھی صحت ہے۔ اگر آپ اچھی صحت کے مالک ہیں تو خالقِ کائنات کا شکر ادا کریں۔ کامیاب انسان بننے کی ہر ممکن سعی کریں۔ اور اگر آپ کی زندگی کے ساتھ کوئی تکلیف دہ پہلو جڑا ہے تو اس کو اپنے لیے روگ بنانے کی بجائے اسے ایک حقیقت سمجھ کر آگے بڑھیں۔ کیونکہ آپ ہی نہیں دنیا کا کوئی بھی انسان “مکمل” نہیں۔
خوش رہیں، خوشیاں بانٹیں۔ اپنا اور اپنوں کا خیال رکھیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں