6 جولائی ایک تاریخ ساز دن اور آمرانہ دور۔۔۔ارشاد حسین ناصر

ارض پاک جسے اس خطے کے آزادی پسند عوام نے قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت مین برطانوی سامراج سے لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل کیا، اس میں بدقسمتی سے شروع سے ہی قیادت کا ایسا خلا پیدا ہوا، جسے آج تک پر نہیں کیا جا سکا، یہ خلا پیدا ہوا یا کیا گیا، الگ الگ آراء ہیں، دونوں طرح کے موقف وزنی دلائل رکھتے ہیں، مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ خلا پیدا کیا گیا، تاکہ خطہ ارضی پر اس کے حصول کے مقاصد کی تکمیل نہ ہوسکے اور جن خوابوں کی تکمیل کیلئے یہ آزادی حاصل کی گئی، یہ چکنا چور ہی رہیں۔ ہم نے دیکھا کہ قائد اعظم کی بے وقت موت جو ایک معمہ ہی ہے، اس کے بعد قائدین بکھر گئے، جلد ہی لیاقت علیخان کا قتل اور پھر مارشل لاء کا نظام، یہ سب ملک کو اندھیروں میں دھکیلنے کی سازش تھی۔ ایوب خان کا مارشل لاء، سکندر مرزا اور یحیٰی خان کی حکمرانی، بھارت سے جنگیں اور بنگلہ دیش کی علیحدگی یہ سب ملک کو غیر مستحکم رکھنے اور کمزور بنانے کی عالمی سازشیں تھیں، جن کا خمیازہ آج تک بھگت رہے ہیں۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ جینئن لیڈرشپ پیدا نہ ہوسکی بلکہ اقتدار کے پجاری اپنی کرسی کو مضبوط کرنے کیلئے مختلف سہاروں کی تلاش میں رہے اور ملکی معاملات اور ڈگر کو ان راستوں پہ چلاتے نظر آئے، جس طرف ان کے آقا اور سرپرست چاہتے تھے۔

پہلی بار اس ملک کو ذوالفقار علی بھٹو کی شکل میں ایک مضبوط ارادوں کی مالک شخصیت نصیب ہوئی، جس نے ملک کو پہلا باقاعدہ متفقہ آئین دیا، جس پر تمام سیاسی و دینی جماعتوں نے دستخط کئے، یہ 1973ء کا آئین تھا، جو آج بھی رائج ہے مگر اس میں بہت سی ترامیم نے اس کی شکل بگاڑ دی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو ایک عالمی سازش کے تحت 5 جولائی 1977ء کو مارشل لا ء لگا کر قید کر لیا گیا اور ایک اندھے مقدمہء قتل میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا، یہ پاکستان کی تاریخ کے بدترین آمرانہ دور کی بات ہے۔ جنرل ضیاء الحق جو اس وقت آرمی چیف تھے، انہوں نے نوے روز کے وعدے پر اقتدار پر قبضہ کیا، الیکشن کروانے کا جھوٹا وعدہ کیا جبکہ سیاسی سرگرمیوں پر پابندیاں لگا دی گئیں اور کئی اہم سیاسی رہنمائوں کو پابند سلاسل اور بدترین سزائوں کا شکار کیا گیا۔مارشل لا ایڈمنسٹریٹرز کے ذریعے فوجی عدالتیں قائم کر دی گئیں اور جمہوریت پسندوں بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالوں کو کال کوٹھڑیوں، شاہی قلعہ کی اندھیری جیلوں اور پھانسی گھاٹ کے ساتھ سرعام کوڑوں کی سزائں دی جانے لگیں۔

یہ بدترین آمریت تھی، جس کا مقصد ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کو ختم کرنا اور جمہوریت کا ہمیشہ کیلئے بستر لپیٹنا تھا۔ اس وقت کئی ایک مذہبی و سیاسی جماعتوں نے مشترکہ طور پر جمہوریت کی بحالی کیلئے اتحاد ایم آر ڈی تشکیل دے رکھا تھا، اس اتحاد میں پیپلز پارٹی اور بزرگ سیاستدان نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم بھی شریک تھے، جن سے شہید قائد نے گہرے مراسم قائم کر رکھے تھے۔ 6 جولائی 87ء کو ضیاء الحق کو اقتدار پر قبضہ کئے 10 برس ہوچکے تھے، اس آمرانہ دور میں فوجی حکمران نے اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے فرقہ واریت، ہیروئن جیسے نشے، قوم پرستی، لسانیت اور علاقائیت پھیلانے جیسے منحوس اور ملک دشمن اقدامات کئے تھے، جو آج تک ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں اور اس ملک کی تقدیر کے ساتھ جونکوں کی طرح چمٹے نظر آتے ہیں، ایسی جونکیں جو اس ملک اور ملت کا خون نچوڑ رہے ہیں۔ آج بھی ملک میں ہونے والی ہر دہشت گردی اور واردات کے پس پردہ ضیاء کے پروردوں کی کارستانیاں واضح نظر آتی ہیں۔

بدقسمتی سے اسی دور کے شروع میں 1979ء میں روس نے افغانستان پر حملہ کیا اور امریکہ نے سعودیہ و عربوں کیساتھ مل کر جہاد کا بیڑا اٹھا لیا، جو جہاد آج بھی جاری ہے۔ یہ جہاد افغان مجاہدین سے ہوتا ہوا کشمیری مجاہدین تک پہنچا اور اس کے بعد نوے کی دہائی کے وسط میں طالبانائزیشن کی شکل میں رونما ہوا اور القاعدہ سے ہوتا ہوا اب داعش کی شکل میں ہمارے دروازے پہ دستک دے رہا ہے۔ اس دوران 11 ستمبر بھی ہوا، جو خود ضیاء الحق کی تیار کردہ اسی مخصوص مکتب فکر کی لابی کا کارنامہ ہے، اس حادثہ کو بنیاد بنا کر امریکہ نے پوری دنیا میں مسلمانوں کو چن چن کر مارنے کا از خود ٹھیکہ لیا اور ہم نے دیکھا کہ اس کی آڑ میں عراق، افغانستان اور پاکستان میں خون کی ندیاں بہا دی گئیں۔ ضیاء الحق کا بدترین دور حکومت اگرچہ اہل سنت بریلوی حضرات کیلئے بھی کوئی نیک شگون ثابت نہیں ہوا (اس حوالے سے کہ دیوبندیت اور وہابیت کو فروغ دیا گیا) مگر پھر بھی ان کا اتنا نقصان (جانی) نہیں ہوا جتنا اہل تشیع کیلئے مصائب اور مصیبتیں کھڑی کی گئیں۔

عالمی استعمار کیساتھ ملا ہوا ہمارا بدترین آمر حکمران چونکہ سعودی لابی کیساتھ مل کر افغانستان میں نام نہاد جہاد میں مشغول تھا، لہذا اس ضرورت کیلئے پورے ملک میں دیوبندی و وہابی مدارس کھولے گئے اور ان کی سرپرستی کی گئی، انہیں مسلح کیا گیا اور ان کو چھوٹ دے دی گئی، انہیں “لائسنس ٹو کل” شیعہ حاصل تھا۔ 10جولائی 1984ء قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی کی انقلابی اور زیرک و باتقویٰ قیادت نصیب ہوئی تو پاکستان کے باشعور اور پڑھے لکھے اہل تشیع کو بھی امید کی کرن دکھائی دی۔ علامہ عارف الحسینی جن کا تعلق پاراچنار جیسے ایک قبائلی علاقے سے تھا، امام خمینی کے خاص الخاص نمائندگان میں سے تھے، جن کا رابطہ امام خمینی سے نجف میں ہوا تھا، جب وہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے اور علامہ عارف الحسینی وہاں طالبعلم تھے۔

علامہ عارف الحسینی نے اپنی سیاسی فکر امام خمینی کے افکار پر استوار کر رکھی تھی، جس کی بنیاد اسلام ناب محمدی کا عملی نفاذ اور لاشرقیہ لاغربیہ کا الہی شعار تھا، مگر پاکستان میں چونکہ تمام سیاسی و دینی جماعتوں نے ایک مشترکہ آئین منظور کیا تھا، جسے معطل کر دیا گیا تھا اور مارشل لاء کے بدترین اور کالے قوانین نافذ کر دیئے گئے تھے، لہذا یہاں آئین کی بحالی کا مطالبہ بے حد اہمیت کا حامل تھا، اس مقصد کیلئے اور حکومت کے خلاف کھڑے ہونے کیلئے دیگر سیاسی و دینی جماعتوں سے روابط استوار کئے گئے، اس وقت ایک تحریک ایم آر ڈی کی شکل میں موجود تھی، جس کی سربراہی نوابزادہ نصراللہ جیسا بزرگ سیاستدان کر رہا تھا، اس میں مولانا فضل الرحمان بھی تھے، علامہ عارف الحسینی نے بھی است حریک میں اپنا حصہ ڈالنے کا عزم ظاہر کیا اور آمریت کے خاتمے کیلئے تعاون کی پیشکش کی، جسے بہت سراہا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors
ضیاء الحق کے اسی مارشلائی زمانے میں ویسے تو بہت سے ناخوشگوار واقعات ہوئے اور فسادات کا دائرہ وسیع ہوا، کہیں مذہبی فسادات، کہیں لسانی، کہیں قومیتی اور کہیں علاقائی تعصب اور تنگ نظری کی اندھیر نگری اور چوہٹ راج راج تھا، اسے جان بوجھ کے فروغ دیا گیا۔ مفتی جعفر حسین قبلہ کی قیادت میں 6 جولائی 1980ء کو اسلام آباد میں اہل تشیع سے ہونے والے معاہدہ کو یاد دلانے اور عمل درآمد کیلئے قائد سید عارف الحسینی نے 6 جولائی 1985ء کو ملک گیر مظاہروں اور احتجاج کی کال دی، کوئٹہ میں اس احتجاج پر گولیاں چلا دی گئیں، جس میں 17 سے اہل تشیع شہید اور بیسیوں زخمی ہوئے، پرامن احتجاج پر سنگدلانہ فائرنگ اور اس کے بعد علاقے بالخصوص علمدار روڈ جو اہل تشیع کی اکثریتی آبادی ہے، پر کرفیو کا نفاذ، پانی کی بندش جیسے یزیدی افعال، اندھا دھند شیلنگ، بلاجواز گرفتاریوں سے جنرل ضیاء الحق کی شیعہ دشمنی کھل کر سامنے آگئی، کئی بزرگ علماء کرام بھی اس معرکے میں گرفتار ہوئے، بعدازاں اس کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان بھی کیا گیا۔

اس دور میں چونکہ میڈیا صرف چند اخبارات تھے، وہ بھی مارشل لائی چھتری تلے پابند ہوتے تھے، لہذا جو بھی پروپیگنڈا اور غلط معلومات حکمران دینا چاہتے، لوگ رائے قائم کر لیتے تھے، کوئٹہ کے اس سانحہ کے حوالے سے بھی بہت سی جھوٹی کہانیاں گھڑی گئیں، جو متعصب اور تنگ نظر لوگوں کے ذہنوں میں آج بھی سمائی ہوئی ہیں۔ یہ بات ایک حقیقت ہے کہ ضیاء کے مارشل لاء میں علامہ عارف الحسینی کی متحرک، فعال، متدین، بے باک، ایثار گر، سادہ اور زیرک و جراتمند قیادت نے اہل تشیع کو نئی پہچان دی، ان کی شبانہ روز محنت رنگ لائی اور ملت کو سیاسی حلقوں میں اہم مقام حاصل ہوا۔ علامہ عارف الحسینی کی اسی قیادت میں ایک اور تاریخ ساز کام مینار پاکستان کے سائے تلے پہلےی قرآن و سنت کانفرنس کا انعقاد تھا، جو 6 جولائی 87ء منگل کے تاریخ ساز دن کو منعقد ہوئی، یہ کانفرنس ملت جعفریہ پاکستان کی تاریخ میں بے حد اہمیت کی حامل ہے، اس روز شہید قائد علامہ عارف الحسینی نے ایک منشور کے ذریعے اپنے سیا سی لائحہ عمل اور اپنی نھضت کا اعلان بھی کیا تھا۔

شہید قائد علامہ عارف الحسینی نے ملت تشیع کو ملکی سیاست اور حقوق کے حصول کا جو راستہ دیا تھا، اس میں عزت اور وقار، غیرت و حمیت اور استقامت و شہامت تھی۔ شہید قائد کا عزم بالجزم تھا کہ۔۔۔۔ ہم اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے تمام تر وسائل بروئے کار لائیں گے، حتیٰ کہ اپنے خون کا آخری قطرہ تک اس جدوجہد میں قربان کرنے سے دریغ نہیں کریں گے، لیکن اپنے مقصد سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

٭ ہم کاسہ لیسی کی سیاست کو نہ اپنائیں گے بلکہ اپنے دینی تشخص کے ساتھ حصول مقصد کیلئے سیاست میں بھی اہم کردار ادا کریں گے۔ ایسی سیاست جس میں مطالبات دین غالب ہوں۔ ہم کسی سیاسی جماعت کے تابع نہیں ہیں۔
 ٭ ہم وقار اور عزت کی زندگی کو غلامی پر ہر قیمت میں ترجیح دیں گے۔
٭ صرف وحدت اسلامی سے ہی ملک میں نفاذ اسلام کا عمل کامیابی سے ہمکنار ہوسکتا ہے۔
قائد شہید کا کہنا تھا کہ علماء سیاست میں امام خمینی کی پیروی کریں انھوں نے کہا “طاغوتی طاقتوں کی کوشش یہ رہی ہے کہ علماء کو سیاست سے دور رکھیں۔ اس سلسلے میں آپ امام خمینی کی رہبری و رہنمائی میں ان استعماری سازشوں کا مقابلہ کریں، کسی کو خیال نہیں کرنا چاہئے کہ امریکہ مردہ باد کہنا ایک خارجی مسئلہ ہے اور ہمیں صرف اپنے داخلی اور اندرونی معاملات کے بارے میں سوچنا چاہئے، بلکہ ہمیں داخلی و خارجی تمام معاملات سے نبرد آزما ہونا چاہئے۔ علمائے کرام کے بغیر اسلام اور انقلاب کا تصور سرے سے ہی ممکن نہیں۔ میں نوجوانوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ علمائے کرام سے خصوصی رابطہ رکھیں۔ میں علمائے کرام سے زور دیکر یہ کہوں گا کہ وہ نوجوانوں کی بھرپور تربیت کریں اور اس سلسلے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں، تاکہ اسلام دشمن قوتیں ان کی توانائیوں سے استفادہ نہ کرسکیں۔”
6 جولائی 1987ء کو قائد عظیم المرتبت اس ملت کے روح رواں تھے اور مینار پاکستان کے سائے تلے ملت کی سربلندی کا روڈ میپ دے رہے تھے، مگر استعمار اور اس کے آلہ کار ان کی اس جراتمندانہ قیادت پہ پریشان اور انگشت بہ دندان تھے، انہوں نے سازش کی اور ہم سے اس مرد صالح کو چھین لیا۔ ہم اس روز کو کبھی نہیں بھولتے اس لئے کہ مینار پاکستان کا وہ منظر جب شہید قائد اس ملت سے خطاب کرتے ہوئے للکار رہے تھے، آج بھی ہمارے کانوں مین وہ گونج باقی ہے، ہمیں کوئٹہ کے شہیدوں کا لہو کبھی 6 جولائی کو بھولنے نہیں دیتا۔ یہ دن ایک تاریخ ساز دن ہے، ایک یادگار دن ہے، ایک پروقار دن ہے، ہم کیسے بھول سکتے ہیں۔ جس طرح 1987ء میں شہید قائد نے مینار پاکستان کے سائے تلے قرآن و سنت کانفرنس منعقد کرکے طاغوت کے ایوانوں میں لرزہ طاری کر دیا تھا، ایسے ہی آج ہر فرد ملت کی خواہش ہے کہ ہم ایک بار پھر متحد ہوکر طاغوتی ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیں، شہید قائد کے دور کی طرح ۔۔۔اے کاش!
بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply