تتھاگت نظم (15)…..انگلی مالا ۲

…………………. انگلی مالا کی کتھا بُدھ کی تعلیمات کا ایک خاص باب ہے۔ یورپی، جاپانی اور امریکی بودھوں نے کہا ہے کہ انسانی تہذیب میں زنداں (جیل) کو ایک اصلاح خانہ میں تبدیل کرنے کا پہلا سبق اس کتھا سے ملتا ہے۔جیل کو ایک reformatory میں تبدیل کرنے اور قیدیوں کوعملی تعلیم و تربیت دے کر انہیں پیشہ ورانہ مہارت سکھانا اس کتھا کی بنیاد ہے۔ بدھ جب وسط ہندوستان میں گاؤں گاؤں گھوم کر اپنے ویاکھیان دیتے پھر رہے تھے تو انہیں اُس رہزن کے بارے میں پتہ چلا، جو مسافروں کو لوٹ کر انہیں قتل کر دیتا تھا اور پھر ان کی انگلیاں کاٹ کر اپنی مالا میں پرو لیتا تھا۔ کسی کو بھی، یہاں تک کہ پڑوسی راجاؤں کو بھی یہ حوصلہ نہیں تھا کہ وہ فوج بھیج کر اس کی بیخ کنی کریں۔ مہاتما بُدھ اکیلے چلتے ہوئے اس ڈاکو تک پہنچے۔ انسانی برادری کے خلاف اسے کیا شکایت تھی جس کا بدلہ وہ انجان مسافروں کو قتل کر کے لے رہا تھا، اس کی زبانی یہ کہانی سنی۔ اپنی بات چیت سے اسے قائل کیا کہ اس راستے کو چھوڑ کر ان کے آشرم (سنگھ) میں شامل ہو جائے اور انسانی بہبودی کے لیے کچھ کام کرے۔ وہ اُسے بچوں کی طرح انگلی سے پکڑ کر اپنے آشرم میں لے آئے۔ جو کام اسے دیا گیا اس میں وہ ماہر تھا۔ چونکہ وہ سوئی دھاگے سے مردہ لوگوں کی انگلیاں اپنی مالاؤں میں پرویا کرتا تھا، اور سینے پرونے کا کام اسے آتا تھا تو اسے بھکشوؤں کے پھٹے ہوئے چولے (کرتے) مرمت کرنے کا کام دیا گیا۔جو وہ خوشی خوشی کرتا رہا ۔۔ جب قریبی راجہ کو اس بات کا علم ہوا تو وہ بھی آشرم تک پہنچا تا کہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے کہ قیدیوں کو سدھارنے کا کام کیسے کیا جا سکتا ہے۔۔(لیکن یہ ایک الگ کتھا ہے!)

انگلی مالا ۲
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو دنوں تک گفتگو کا یہ سفر ساکت رہا … لیکن تتھا گت
خود بھی شاید گو مگو کی کیفیت میں تھے…
یقیناً چاہتے تھے بات کو آگے بڑھانا

اس لیے آنند کو تب تیسرے دن خود تتھا گت نے بلایا

’’آج بھی تم دل میں کچھ شنکائیں ۰ رکھ کر ۰شنکائیں: شکوک
کچھ تردد سے پریشاں پھر رہے ہو، بات کیا ہے؟‘‘

’’ہاں، تتھا گت، اس تذبذب میں رہا ہوں
انگلی مالا کو اگر اس آشرم میں شرن دینے کی جگہ
سیدھا ہی بندی گھر یا ’کاراواس‘ ۰ کاراواس: زنداں
میں رکھتے تو اس میں کیا بُرائی تھی، تتھا گت؟‘‘

ؔ ’’کچھ برائی تو نہیں تھی اس میں، لیکن
کچھ اچھائی بھی نہیں تھی
بندی گھر میں قید ہو جانے کا تو بس ایک ہی مقصد ہے
قیدی اپنی آزادی سے گر ’وَنچِت‘ رہے تو وَنچِت : بغیر ، خالی
وہ کوئی بھی جرم کر سکنے کی حالت میں نہیں ہو گا، مگر
آنند بھکشو، تم نے کیا سوچا کہ وہ کوئی ایسا کام
کرپائے گا، جس میں
بہی خواہی، رحم، خدمت،
درد مندی کا بھی کچھ عنصر ہو، بھکشو؟
ترس کھانا، سیوا کرنا
اشک شوئی، آنسوؤں کا پونچھنا بھی ایک بخشش ہے
مگر یہ کام اک زنداں میں رہ کر سیکھنا، اس پر عمل کرنا
کہاں ممکن ہے اک بے رحم قاتل کے لیے …!
کیوں ہے نا سچی بات، بھکشو؟‘‘

’’ہاں، تتھا گت!‘‘

’’اورہمارے آشرم میں سیکھنے کو کیا نہیں ہے؟
خلق کی خدمت کا جذبہ
مہرباں ہونا، سبھی سے پیار رکھنا، صلح کل رہنا
سخاوت، خیر خواہی، نیک اندیشی، عنایت
آشرم میں ہر طرف ان کی حکومت ہے ۔۔۔، نہیں کیا؟
… یہ سبھی انسانیت کے ایسے جوہر ہیں
جنہیں کوئی بھی مجرم
سیکھ سکتا ہے ہمارے آشرم میں …
پر حکومت کے بنائے بندی گھر میں
تو فقط نا ترس ہونا، بربریت میں یقیں رکھنا
درندہ صفت، وحشی، سنگدل
بے رحم ہونے کا سبق سیکھے گا قیدی!
کیا تمہیں تسلیم ہے یہ بات بھکشو؟

’’ہاں، تتھا گت !‘‘

’’طے ہوا کہ کوئی قیدی
بندی گھر میں قید رہنے سے سدھر سکتا نہیں ہے ….
اور جب وہ قید سے نکلے گا تو ویسے کا ہی ویسا
لوٹ جائے گا اُسی دنیا میں، یعنی
اس پرانے جرم کی دنیا میں
جس سے وہ گیا تھا بندی گھر میں!‘‘

’’ہاں، تتھا گت!‘‘

’’طے ہوا بھکشو، کہ عادی مجرموں کو
ہم اگر اُن قید خانوں میں رکھیں ، جن میں انہیں
کچھ کام کی شِکھشا، ہنر مندی کی تربیت ملے تو
ان کے لیے بھی اور ہماری عام خلقت کے لیے
اچھا رہے گا
اورجب پھر کوئی پیشہ ، کا م کا کوئی ہنر وہ سیکھ جائیں
تو انہیں اک اور موقع دے دیا جائے کہ وہ اب
لوٹ جائیں …اور یہ ثابت کریں
وہ اچھے شہری بن چکے ہیں!‘‘

چُپ رہے کچھ دیر تک، پھر سوچ کر
بولے تتھاگت
’’عین ممکن ہے کہ اُن میں سے کئی
اک بار پھر بھٹکیں ، مگر یہ
تجربہ اچھا رہے گا ….کچھ تو سُدھریں گے، یقینا !‘‘

’’ہاں، تتھاگت!‘‘

’’انگلی مالا کے تئیں اب سوچ کیسی ہے تمہاری؟‘‘

Advertisements
julia rana solicitors

اور تب آنند نے پرنام میں جب سر جھکایا
تو اُسے ایسا لگا اک بار پھر
جیسے تتھا گت کے لبوں پر
شائبہُ مسکان کا ہلکی سی اپنی چھپ دکھا کر اُڑ گیا ہو! ۰
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
۰کہا جاتا ہے کہ مہاتما بدھ کو کسی نے بھی ہنستےیا مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply