بُلنگ ‏bullying/فرحانہ مختار

بچوں کو روز مرہ زندگی میں بلنگ (مارنا یا ہراساں کرنا) جیسے ناپسندیدہ اور ناگوار رویے کا اکثر سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سکول، کھیل کے میدان، شاپنگ مال وغیرہ میں بچوں کو بلنگ یا ہراسگی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہ زبان سے بھی ہو سکتا ہے (verbal bullying)جیسے برے القابات یا ناموں سے پکارنا، یا گالی دینا، دھمکانا؛ اور جسمانی بھی جیسے مار نا یا دھکا دینا ( physical bullying) ; جذباتی ہراساں کرنا (emotional bullying); اور انٹرنیٹ پہ ہراساں کرنا (cyberbullying) وغیرہ۔
اکثر بچے حساس ہوتے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ وہ چپ چاپ ہی یہ سہتے رہیں اور والدین سے اسکا ذکر نہ کریں۔ اگر بچہ چپ یا سہما ہوا ہو تو ضرور وجہ دریافت کریں۔

اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو اس سے نبٹنے کےلئے کیسے تیار کیا جائے۔ سکول میں ہو تو بچے سے کہیں کہ ٹیچر سے مدد لے اور ٹیچر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہراساں کرنے والے بچے کو تنبیہ کرے۔ اگر پھر بھی یہ عمل جاری رہے تو پرنسپل سے رابطہ کیا جائے تا کہ وہ بچے کے والدین سے اس بارے میں بات کرے۔

اگر پارک یا مال میں بچے کو ہراساں کیا جا رہا ہے کسی دوسرے بچے کی طرف سے تو والدین کو ہراساں کرنے والے بچے کو پیار سے سمجھانا چاہیے۔ اگر وہ باز نہ آئے تو اس کے والدین سے بات کریں۔
حتی الامکان کوشش کریں  کہ بات نہ بڑھے۔
لیکن اگر یہ ہراساں کرنے والا بچہ روز ہی ایسا کرے تو اس کا تدارک ضروری ہے۔

اپنے بچوں کو ہم کیسے اس سے بچنے کیلئے تیار کریں:
1-بچے کو جذباتی طور پہ (emotionally strong) مضبوط کریں۔ اسے کسی واقعہ، کہانی یا رول پلے کے ذریعے بلنگ کا بتائیے اور سکھائیے کہ جب کوئی ایسا کرے تو ایک یا دو بار اگنور کرے اور پلٹ کر جواب نہ دے نہ ہی ری ایکٹ کرے۔ بچوں کو سمجھائیں کہ سمجھدار بچے ایسے منفی رویوں کو اگنور کرتے ہیں۔ اگنور کرنے والا بچہ winner ہے اور بلنگ کرنے والا looser۔
2-بچے سے کہیں کہ مسکرا کر آگے بڑھ جائے۔
3- ایسے حالات میں رونا یا ڈرنا نہیں ہے۔
4-مذاق سے اس سچوئیشن کو ڈیل کرے
5-اور جگہ تبدیل کرے، وہاں نہ رکے
6-اگر بلنگ کرنےوالا بچہ باز نہ آۓ تو سخت لہجے میں اس کو اس عمل سے روکے، اور کسی بڑے کو بتائے۔
7-جسمانی ہراساں (physical bullying) ہونے کی صورت میں بچوں کو self-defense سکھائیں۔ بہت سے ادارے مارشل آرٹس یا کراٹے کی تربیت دیتے ہیں۔ اس تربیت کا پہلا اصول self-control ہے، یعنی لڑائی میں پہل نہیں کرنی اور جگہ تبدیل کر لینی ہے۔

مزید برآں، اگر کو ئی  لڑائی کرے تو خود پہ قابو رکھیں۔ حتی المقدور کوشش کریں کہ لڑائی نہ کرنی پڑے لیکن اگر سامنے والا باز نہ آ ئے تو پھر خود کو بچانے کیلئے سکھائی گئی  مہارت استعمال کی جائے۔

اپنے بچوں کو اس سلسلے میں اکیلا نہ چھوڑیں، اگر وہ بلنگ کا شکار ہو رہے ہیں تو ان کا اعتماد بڑھائیں اور ان کو اس سے بہادری سے نبرد آزما ہونے کے طریقے بتائیں۔

میری بیٹی کو سکول میں بلنگ کا سامنا  ہے تو اس کو اوپر دی گئی ہدایات کے مطابق ہی سمجھایا جاتا ہے، اور اکثر تو رول پلے کیا جاتا ہے جس میں بلنگ کرنے والے بچے کا رول پلے کرتی ہوں اور اس طرح اس کو بلنگ سے نبر د آزما ہونے کی تدابیر سکھائی جاتی ہیں۔

اسی طرح ایک روز وہ معمول کے مطابق پارک میں کھیل رہی تھی کہ اچانک آ کر کہنے لگی کہ گھر چلیں۔ عام حالات میں اس کو کہنا پڑتا ہے کہ دیر ہو رہی ہے گھر چلتے ہیں۔ خیر گھر آ کے سب کاموں میں مصروف ہو گئے۔ دوسرے دن اس نے بتایا کہ پارک میں ایک بچی نے اسے کہا ہے کہ “you are too fat” ۔ اب میں جو اپنی بھولی سی بیٹی پہ واری واری جاتی ہوں، سوچ میں پڑ گئی کہ اسکو کیسے سمجھایا جائے۔

خیر میں نے سوچا کہ اسکو سمجھانے کے ساتھ جوابی کاروائی نہ کرنا بھی سکھانا چاہئیے ورنہ بلنگ کا یہ (vicious circle) منحوس چکر کبھی ختم نہ ہو گا۔ سو میں نے بیٹی سے کہا: “fat is beautiful”
اور وہ خوش ہو گئی، اب اس نے پوچھا:
‏???and thin”
میں نے کہا : “thin is also beautiful”
سو میں نے موقع کی منا سبت سے اسے کچھ اور سمجھانا چا ہا اور وہ سنتی رہی:
-white is beautiful
– black is beautiful
– tan is beautiful
– tall is beautiful
– short is beautiful
– people on wheelchair are beautiful
– اور اسے سمجھایا کہ اللہ پاک نے ہر انسان کو دوسرے سے مختلف پیدا کیا ہے اور سب ہی انسان خوبصورت ہیں۔

والدین بچوں کو بتائیں کہ اللہ سبحانہ و تعالی کی پیدا کردہ تمام مخلوق خوبصورت ہے۔ ان کے ننھے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی جائے تو معاشرے میں acceptance اور tolerance کا ماحول پیدا کیا جا سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بحیثیت والدین ہماری زمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کو سمجھائیں کہ وہ کبھی کسی دوسرے بچے کوہراساں (بلنگ) نہ کریں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply