ایک بار پھر عرض ہے کہ یہ سندھ ہے۔ باب لاسلام جسے کہتے ہیں کہ اس دروازے سے اسلام کم ازکم ٹیکسٹ بک کی تاریخ کی حد تک جس واقعے کی وجہ سے داخل ہوا تھا۔ افسوس کہ صدیوں بعد آج بھی وہ واقعات جاری ہیں تو سوال یہ ہے کہ جو یہاں داخل ہوا تھا وہ اسلام کہاں ہے۔ کیوں یہ اسلام مقابلہ ِ حسن میں عورت کی شرکت سے تو خطرے میں پڑ جاتا ہے لیکن اسی عورت پر بیتنے والے مقابلہِ بربریت ، مقابلہِ جبر اور مقابلہِ استبداد سے خطرے سے باہر رہتا ہے ؟
اگلا قصہ اس اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک کا ہے۔ وہ اسلام جو کہتا ہے حتی کہ مجھے جبر سے نافذ مت کرو۔ یہ اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کا عالم ہے جسکے لیے ناموس بچانے کے عورتوں نے اپنی جانیں اس لیے قربان کر دی تھیں کہ۔۔۔
ہمارا خون بھی شامل ہے تزئینِ گلستاں میں
ہمیں بھی یاد کر لینا چمن میں جب بہار آئے۔
مگر اس ملک کے قائم ہونے کے پچھتر سال بعد کا عالم یہ ہے کہ دو ویڈیوز ایک ہی دن وائرل ہوتی ہیں ایک میں ایک شہید فوجی کی بیٹی آرمی چیف سے وڈیرے کے اپنے واحد ذریعہ معاش زمین پر سیلابی پانی چھوڑنے کی شکایت کرتی ہے اور دوسری زیرِ نظر تصویر میں ایک ماں کچھ یوں محوِ فریاد ہے۔
میں اپنی بیٹی کو زہر دے دوں گی خود بھی زہر کھا لوں گی مگر اپنے جگر کا ٹکڑا وڈیروں سردار سلیم خان ، سردار یعقوب خان اور سردار غفور خان کی پنچایت کے فیصلے پر ایک ساٹھ سالہ شخص کو نہیں دوں گی۔ خدا کے لیے انصاف دو وزیراعلیٰ صاحب اللہ کا واسطہ۔
پاکستان کے لیے جانوں کی قربانی دینے والوں اور ان سے یہ قربانی لینے والوں کے تصورِ پاکستان کا فرق آج پچھتر سال بعد بالکل واضح ہے۔ قربانیاں دینے والوں کی آنکھوں میں وہ پاکستان تھا جس کے لیے وہ کبھی کسی ویڈیو میں محوِ فریاد ہوتے ہیں کبھی کسی میں۔ کہ وہاں نہ کوئی وڈیرا کسی کی زمین پر پانی چھوڑے گا نہ کوئی کسی کی بیٹی کو “کاری ” کر کے اسکی زندگی گہنا دی جائے گی جبکہ اس ملک کی تخلیق سے کچھ عرصہ قبل سماجی حقوق کی ایک تحریک میں شامل ہونے والی وڈیرہ شاہی کو یہ یقین تھا شاید کہ انکے ہوتے پاکستان میں ایسا کبھی نہیں ہو گا۔
سو یہ وڈیرہ شاہی کہیں شاہ زیب قتل کیس میں ، کہیں ناظم جوکھیو کیس میں ، کہیں اجمل ساوند کیس میں تو کہیں آج اس غریب بے بس ماں اور بچی کے کیس میں اپنے خواب کو تکمیل دیتی نظر آتی ہے۔
اس ریاست پر اس وڈیرہ شاہی کے تسلط اور ہوس ، جبر اور استبداد کا عالم دیکھیے کہ ایک زمین سے پانی رکوانے کے لیے آرمی چیف حکم دیتا ہے اور ایک بچی کی زندگی بچانے کے ایک ماں وزیراعلیٰ سے التجا کرتے اپنی بچی کو زہر دینے کی دھمکی دیتی ہے۔
اس سے قبل بلوچستان میں سردار عبد الرحمان کھیتران کی جانب سے ایک عورت اور اسکی جوان بچی کو اپنی نجی جیل میں رکھنے کا واقعہ قومی منظر نامے پر ابھرا تھا۔ کیا سر جھکائے بے بسی کی تصویر بنی دل میں پاکستان کا مطلب کیا ؟ کا نعرہ لگاتی اس بچی کی زندگی بچانے کی التجا کرتی اس ماں کی داد رسی ہو گی ؟ کیا اربابِ اختیار انصاف کے ذریعے اس کے ادھورے نعرے کی تکمیل کریں گے ؟۔ کیا ان وڈیروں کے آگے اپنی بچیوں کو تڑپتے ، کسمساتے دیکھ کر خون کے آنسو رو کر خاموش رہنے والوں میں تحریکِ پاکستان کی ان کہانیوں کو زندہ کرتی ماں کی فریاد سنی جائے گی جنہوں نے زندگی کو ناموس پر قربان کر دیا۔ کیا یہ بچی وڈیروں کے ہاتھوں مر مر کے جینے کی بجائے اپنی بے بس ماں کے ہاتھوں جیتے جی مر جائے گی۔
یا پھر ایک بار پھر اس وڈیرہ شاہی کو یہ ثابت کرنے کا موقع دیا جائے گا کہ اس نے اس ملک کی ان بے بس عورتوں کو اپنی حوس کا نشانہ بنانے کے لیے ان سے پہلے انکے اجداد کی اس تحریک کو “کاری ” کیا تھا جسکی عملی شکل یہ ہے کہ قرآن سر پر رکھ کر جن سے مائیں اپنی جوان بیٹیوں کو نجی جیلوں میں ہوس کا نشانہ بنانے پر ماتم کناں ہونے سے زہر کھانے تک کی دھمکی دیتی پھرتی ہیں وہی “باکردار” اپنی پنچایتوں میں کسی کو لڑکی کو “بدکردار” قرار دے کر اسکے جیتے جی مارے جانے یا مر مر کر جینے کے فیصلے دیتے پھرتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں