سیاسی چالیں

شطرنج میں کئی طرح کی چالیں چلی جاتی ہیں اور ہر چال میں اگلی چالوں اور مقابل کی چالوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مقابل کو پیادے کا لالچ دیا جاتا ہے تاکہ مقابل جیت و حاوی ہونے کی خوشی میں کوئی غلطی کرے اور اپنا تھوڑا نقصان کر کے مقابل کو چیک میٹ کیا جائے آج کل کی سیاست بھی شطرنج کی چالوں سے آراستہ ایک کھیل ہے جس میں عوام کو دھوکہ دیا جاتا ہے عوام کی امنگوں و حقوق کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا ہے۔

ایک کہانی سنتے آئے ہیں کہ “ایک عورت کسی بزرگ سے راستے میں ملی بزرگ کے پاس کافی کتابیں تھیں تو اس عورت کے استفسار پہ بزرگ نے بتایا کہ اس میں انسانوں کے مکرو فریب درج ہیں ، اس عورت نے کہا ایک مکر میں آپ کو دکھاتی ہوں شاید یہ آپ کی کتابوں میں نہ ہو، اس عورت نے کپڑے پھاڑے اور زور زور سے چلانے لگی میں لٹ گئی برباد ہو گئی۔۔ آس پاس لوگوں نے سنا تو دوڑے آئے ۔اس قسم کے معاملوں میں جس نے ساری زندگی جھک ماری ہو اس کی غیرت و مردانگی بھی جاگ پڑتی ہے لوگ آئے ،نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ ۔۔بزرگ کو مارنے لگے، جب بزرگ صاحب کی اچھی خاصی درگت بن گئی تو اس عورت نے لوگوں کو روکا کہ نہیں یہ تو شریف آدمی ہے اس کی وجہ سے تو میں بے آبرو ہونے سے محفوظ رہی وگرنہ وہ لٹیرا تو مجھے لوٹ لیتا خدا نے اس کو میرے لیے فرشتہ بنا کے بھیجا تھا ،ظالمو تم نے اسے ہی مارنا شروع کر دیا، سارے لوگ شرمندہ ہوئے اور انہوں نے بزرگ سے معذرت بھی کی”۔ تو ہماری عوام کے ساتھ بھی آج کل یہی چل رہا ہے۔

کسی کو پتہ ہے نون لیگ آج کل کیا کر رہی ہے، ان کے نیب ریفرنسسز کا کیا بنا، فیصلے پہ نظر ثانی کی پٹیشن کا کام کہاں تک پہنچا، نئے وزیر اعظم و نئی کابینہ میں کتنے مفت خورے عوام کا خون چوسنے پر لگائے گئے ہیں؟؟، نہیں بس ہر جگہ یہی راگ الاپا جا رہا ہے ہائے گندی بات کہہ دی گندی بات ہو گئی کتنی بے حسی ہے۔ ہماری عوام الناس میں قوم کا خون چوسنے والوں کو نظر انداز کر کے ساری توجہ ایک انتہائی غیر اہم ذاتی نوعیت کے مسئلے پہ مرکوز کر لی گئی ہے ساری قوم بری طرح سیاسی چال کا شکار ہو گئی ہے چور کو پکڑنے کی بجائے چور کے ہاتھ مضبوط کرنے میں ساری توانائیاں صرف کی جا رہی ہیں۔

سرائیکی میں ایک مثال ہے، مثال ذرا سخت ہونے کی وجہ سے اس کا مفہوم لکھ رہا ہوں کہ”کرنے والے کر گئے دیکھنے والے پھنس گئے” اور مزے کی بات دیکھنے والوں پہ کیس بھی دائر کر دیا گیا ہے کہ یہ لوٹنے والوں میں سے تھے اور کیس میں جان ڈالنے کے لئے صنف نازک کو استعمال کیا گیا ہے اور جو اسلوب اپنایا گیا ہے وہ ہمارا معاشرتی طور پر انتہائی نازک ترین پہلو ہے خاص طور پہ اس قسم کی دہائی پہ کان زیادہ دھرے جاتے ہیں اور دیکھیں کہ کتنا کامیاب حربہ ہے عوام الناس کی توجہ عوام کے ساتھ نسل در نسل گندے کام کرنے والوں سے زیادہ ایک گندی بات پہ مرکوز ہو کر رہ گئی ہے، یہ ہے سیاست، ہار کے بھی عوام کو چونا لگا رہی ہیں اب دیتے پھرو صفائیاں ،الجھتے پھرو، چال تو انتہائی خطرناک ہے مگر دیکھیں اب اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عوام الناس لٹیروں کے احتساب کے لیے مزید سخت سے سخت قوانین کا مطالبہ کرتی بلکہ اس مطالبے کو احتجاج کی شکل دے کر اداروں پہ زور دیا جاتا کہ مزید لٹیروں کو عدالت کے کٹہروں میں لایا جائے اور عوامی دولت کو ملک واپس لانے کے لئے حتمی اقدامات کیے جائیں جس نے قوم کی عزت لوٹی ہے اسے سرعام پھانسی پہ چڑھایاجائے تاکہ عدل کا بول بالا ہو مگر افسوس! ہنوز دلی دور است مزید براں ہمارے مفکرین کرام جنہوں نے معاشروں میں اعلی انسانی اقدار کا شعور بیدار کرنا ہوتا ہے اس رنگ میں اپنے ہاتھ رنگ رہے ہیں اور انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ یہ بھی قوم فروشی کے اس دھندے میں غاصبوں کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں کتنے اچھے انداز میں مفکرین کرام اور میڈیا کے ذریعے عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جا رہا ہے اور مزے کی بات ہم لگے بھی ہوئے ہیں کوئی تردید دے رہا ہے تو کوئی تنقید اصل مدعا کہیں غائب ہو گیا ہے۔

Facebook Comments

سانول عباسی
تعارف بس اتنا ہی کہ اک عام انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply