سسی کا بھمبور ! محمد بن قاسم کا دیبل ۔۔ شاہد محمود

کراچی سے ٹھٹہ کی طرف جائیں تو نیشنل ہائی وے پر تقریباً ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر دھابیجی اور گھارو کے درمیان بھمبور / دیبل کی قدیم بندرگاہ کے آثار اور میوزیم ہے۔بھمبور کے آثار قدیمہ، اس کی بندرگاہ اور ساحل سمندر دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ میوزیم کے باہر ایک بورڈ پر یہ معلومات درج ہیں۔ “1958ء میں کھدائی کا سلسلہ شروع ہوا، جس سے یہاں تین ادوار کے آثار ملے ہیں۔ سیتھین پارتھی جو پہلی صدی قبل مسیح سے دوسری صدی ق م، ہندو اور بدھ دوسری سے آٹھویں صدی۔ مسلمان آٹھویں سے تیرہویں صدی۔ اس کے بعد سندھ نے اپنا رخ بدل لیا اور شہر کی اہمیت ختم ہو گئی۔ رفتہ رفتہ شہر ملبے کا ڈھیر بن گیا۔”
یہاں کے راجہ بہرمن کی بیٹی سے متعلق سندھ کی رومانوی داستان سسی پنوں کے قصے کا مرکز یہی شہر بھنبھور ہے۔ پنوں مکران کا بلوچ شہزادہ تھا اس لیے بلوچ قوم کے لوگوں نے سسی سے پنوں کی محبت کے طور پر مری پہاڑوں کی ایک چوٹی کا نام بھی بھنبھور رکھا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بھنبھور ایک قدیم شہر ہے جس کا ذکر مختلف تاریخی کتابوں میں کثرت سے ملتا ہے۔
میوزیم میں مٹی کے کچے اور پکے برتن، پتھر، سلیں، سکے، باٹ، زیور، عام استعمال کی اشیا اور اوزار شامل ہیں۔ یہ اشیا مٹی، پتھر، لوہے، تانبے، ہڈی اور ہاتھی دانت کی بنی ہوئی ہیں۔ رنگین اور منقش ظروف پر بیل بوٹے، کنول، بطخ، مچھلی، سانپ، مور، انسان، ہاتھی اور سورج وغیرہ کے نقش بنے ہوئے ہیں۔ میوزیم میں مٹی کا بنا ایک برتن بھی رکھا ہے جس کا نچلا حصہ ریت میں دھنسا رہتا تھا تاکہ پانی ٹھنڈا رہے اور اس زمانے کا فرج ایک مٹی کا برتن تھا جس میں پانی بھر کر ہنڈیا اس کے اوپر رکھ دی جاتی تاکہ اگلے دن تک دودھ یا سالن خراب نہ ہو اور چیونٹیوں، کیڑے مکوڑوں وغیرہ سے محفوظ رہے۔ اس میوزیم میں شیشے کی اشیاء بھی موجود ہیں جن میں عطر کی شیشیاں، شمعدان، آبخورے، صراحی نما بوتلیں بھی شامل ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بھمبور عالمی روٹ تھا کیونکہ آٹھ سو سال پہلے تک ہندوستان میں شیشے کا کوئی کارخانہ نہیں تھا۔ یہاں سندھی اور ہندی اشیا کے ساتھ ساتھ یونانی، چینی، ایرانی اور شامی اشیا بھی دکھائی دیتی ہیں۔ ان میں سے کچھ پر ناگری اور کوفی زبانوں میں تحریریں موجود ہیں۔
اس خطے کی پہلی مسجد سے ملنے والی سنگ مرمر کی ایک تختی بھی یہاں پڑی ہوئی ہے جس پر خطِ کوفی میں بغیر اعراب کے یہ قرانی آیت لکھی ہے: انما یعمر مساجد اللہ من امن باللہ والیوم الاخر و اقام الصلاۃ اتی الزکاۃ ولم یخش الا اللہ فعسی اولئک ان یکونو من المھتدین۔

ایک ماڈل میں دیبل فورٹ اور دریائے سندھ میں اموی منجنیق بردار بحری جہاز دکھایا گیا ہے۔ میوزیم میں محمد بن قاسم کی کوئی تصویر وغیرہ نہیں ہے۔ نہ ہی یہاں کوئی ایسی چیز ہے جس کی سسی سے نسبت ہو۔ البتہ سرمے کی سلائیاں، کنگیاں، کنگن، رنگ برنگے ہار، زیوارات اور ٹوٹی ہوئی چوڑیاں دیکھ کر دھیان سسی کی طرف ضرور جاتا ہے۔ مندر کی مورت حسن اور دلکشی کی علامت سمجھی جاتی ہے لیکن بھنبور میوزیم میں بہت کم مورتیاں قابلِ دید ہیں۔ ان کی سائز بھی چھوٹے ہیں۔ دیبل کے مندر سے ملنے والا شیو لنگھم اور یونی بھی میوزیم میں موجود ہے۔ پتھر کے مجسموں کے ٹکڑے اور پتھروں کے گولے بھی میوزیم کی زینت ہیں۔ میوزیم کے صحن میں ایک منجینق نصب ہے۔ یہ زمانہ قدیم کا سب سے اعلی حربی ہتھیار تھا جسے سنگ باری کرنے اور قلعوں کی دیواروں میں شگاف ڈالنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ محمد بن قاسم اپنے ساتھ کئی چھوٹی منجنیقیوں کے علاوہ ایک بڑی منجنیق عروسک بھی لایا تھا جو اتنی بڑی تھی کہ اس کو چلانے کے لئے پانچ سو سپاہی متعین تھے۔ دیبل کے مندر کا جھنڈا منجنیق سے گرایا گیا جو دیبل کی فتح کا سبب بنا۔
سسی پنوں کی ﺩﺍﺳﺘﺎﻥ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﭨﮭﭩﮭﮧ ﮐﮯ ﺳﯿﺪ ﻋﻠﯽ ﻧﮯ ﻣﻐﻞ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺷﺎﮨﺠﮩﺎﮞ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻓﺎﺭﺳﯽ ﻣﯿﮟ لکھی ﺍﻭﺭ ﺷﺎﮦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻄﯿﻒ ﺑﮭﭩﺎﺋﯽؒ ﻧﮯ ﺳﺘﺮﮬﻮﯾﮟ ﺻﺪﯼ ﻋﯿﺴﻮﯼ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺘﺎﺏ میں سسی پنوں کی داستان لکھی۔ یہ داستان بعد ازاں بہت سے مصنفین نے لکھی اور ہر لکھنے والے کی داستان میں فرق موجود ہے۔ البتہ داستان کا خلاصہ یہ ہے کہ ﺑﮭﻨﺒﮭﻮﺭ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ کے ہاں چندے افتاب، چندے ماہتاب بیٹی کی پیدائش ہوئی۔ بعض داستانوں میں ہے کہ بچی کی پیدائش مہا پنڈت کے گھر ہوئی۔ بچی کا نام ﺳﺴﯽ ﺭﮐﮭﺎ ﮔﯿﺎ۔
سسی ﮐﯽ ﭘﯿﺪﺍﺋﯿﺶ ﭘﺮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﻧﺠﻮﻣﯿﻮﮞ نے ﺍﺱ ﮐﺎ ﺯﺍﺋﭽﮧ بنایا اور بتایا کہ ﺳﺴﯽ ﺟﻮﺍﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺷﮩﺰﺍﺩﮮ ﺳﮯ
ﻋﺸﻖ ﮐﺮﮮ ﮔﯽ اور خاندان کی بدنامی کا باعث بنے گی۔ یہ سن کر سسی کے باپ نے لکڑی کا ایک ﺻﻨﺪﻭﻕ ﺑﻨﻮﺍﯾﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ سسی کو رکھ کر دریا میں بہا دیا۔ ﺳﺴﯽ ﮐﺎ ﻭﮦ ﺻﻨﺪﻭﻕ ﺩﺭﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺘﮯ ﺑﮩﺘﮯ دھوبیوں کے ہاتھ لگ گیا اور وہ صندوق اپنے قبیلے کے ﻧﯿﮏ ﺳﯿﺮﺕ ﺩﮬﻮﺑﯽ سردار کے پاس لے گے۔ دھوبیوں کا سردار بے اولاد تھا اس نے سسی کو اپنی بیٹی بنا لیا۔ سسی بڑی ہوئی تو اس کے حسن و سیرت و دانائی کی شہرت ﮐﯿﭻ (ﻣﮑﺮﺍﻥ) ﮐﮯ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﮏ ﺻﻔﺖ ﺷﮩﺰﺍﺩے ﭘﻨﻮﮞ تک بھی پہنچی۔ کہتے ہیں کہ پنوں عطریات و خوشبو کے سوداگر کے بھیس میں سسی کے علاقے میں پہنچا اور بالآخر سسی کے عشق میں اپنے آپ کو دھوبی ثابت کر کے سسی کے باپ سے اس کا رشتہ حاصل کرنے اور شادی میں کامیاب ہو گیا اور بھنبھور میں ہی رہنے لگا۔ شہزادے کے ساتھی اسے دلہن کے ساتھ واپس چلنے کا کہتے لیکن وہ ٹال دیتا۔

جب شہزادے کے باپ تک خبر پہنچی تو اس نے شہزادے کے بھائیوں کو شہزادے کو واپس لانے کے لئے بھیجا۔ پنوں اپنے بھائیوں کی آمد سے بہت خوش ہوا اور ان کے اعزاز میں دعوت رکھی جس میں اس کے بھائی اسے کھانے میں بیہوشی کی دوا ملا کر بیہوشی کے عالم۔میں اونٹ پر لاد کر کیچ کی طرف چل پڑے۔ سسی اور اس کی سہلیوں اور باقی لوگوں کو ہوش آیا تو سسی بے اختیار اپنے شوہر پنوں کے فراق میں اس کی تلاش میں صحرا کی طرف دوڑی جہاں ایک چرواہے سے پنوں کے قافلے کا پوچھا اور چرواہے کی نظروں میں اپنے لئے ہوس محسوس کر کے رب کو پکارا کہ زمین کو حکم دے کہ مجھے اپنے اندر پناہ دے دے تا کہ اس چرواہے کی ہوس سے میری عصمت محفوظ رہے تو زمین شو ہوئی سسی زمین میں سمو گئی اور اس کے سر کی چادر کا پلو زمین سے باہر رہ گیا ادھر شہزادے پنوں کو ہوش آیا اور جب اسے ساری بات پتا چلی تو وہ بھی اپنی سسی کے پاس جانے کے لئے پیچھے کو بھاگا تو دیکھا صحرا میں سسی کی چادر کا کچھ حصہ نظر آ رہا ہے اور پاس ایک چرواہا بیٹھا ہے۔ پنوں نے اس سے سسی کا پوچھا تو شرمسار چرواہے نے سارا حال کہہ سنایا تو پنوں کے منہ سے چیخ نکلی سسی اور سسی کی زمین کے اندر سے آواز آئی پنوں اور ساتھ ہی زمین شق ہوئی اور پنوں بھی اپنی سسی کے ساتھ زمین کی آغوش میں چلا گیا اور اوپر زمین دوبارہ برابر ہو گئی اور وہ چرواہا اس سچّے اور سُچّے عشق کو دیکھ کر تائب ہو کر سسی پنوں کی قبر پر مجاور بن گیا۔
ﺳﺴﯽ ﭘﻨﻮﮞ ﮐﯽ ﻗﺒﺮﯾﮟ ﮐﺮﺍﭼﯽ ﺳﮯ 80 ﮐﻠﻮ ﻣﯿﭩﺮ ﺩﻭﺭ ﺑﻠﻮﭼﺴﺘﺎﻥ میں ﻟﺴﺒﯿﻠﮧ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺍﺳﯽ ﻭﺍﺩﯼ میں موجود ہیں ﺟﮩﺎﮞ ﻭﮦ زمین میں دفن ہو گئے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تحقیق و تحریر شاہد محمود
تصاویر بشکریہ گوگل
Image may contain: sky, outdoor and nature

Facebook Comments

شاہد محمود
میرج اینڈ لیگل کنسلٹنٹ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply