• صفحہ اول
  • /
  • اداریہ
  • /
  • 45 روزہ وزیر اعظم کی 46 رکنی نئی وفاقی کابینہ کی حلف برداری

45 روزہ وزیر اعظم کی 46 رکنی نئی وفاقی کابینہ کی حلف برداری

45روزہ وزیر اعظم کی 46رکنی نئی وفاقی کابینہ کی حلف برداری
طاہر یاسین طاہر
اب تک کا سیاسی منظر نامہ تو یہی بتاتا ہے کہ نئے وزیر اعظم جن کی نامزدگی 45 روز کے لیے کی گئی تھی، وہ مزید عرصہ لگائینگے، بلکہ عین ممکن ہے کہ نئے انتخابات تک شاہد خاقان عباسی ہی نا اہل ہونے والے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی "مشاورت "سے حکومت چلاتے رہیں۔کیونکہ مسلم لیگ نواز کی ابتدائی پالیسی یہ تھی پہلے ایک غیر اعلانیہ نگران وزیر اعظم لایا جائے اور بعد ازاں میاں شہباز شریف پنجاب کی وزرات اعلیٰ سے مستعفیٰ ہو کر،حلقہ این اے 120 کی سیٹ سے الیکشن جیت کر مرکز میں وزیر اعظم کا منصب سنبھا ل لیں گے۔ مگر شنید ہے کہ نون لیگ اپنی یہ حکمت عملی تبدیل کر چکی ہے اور میاں شہباز شریف نون لیگ کے انتخابی مرکز و طاقت پنجاب کو ہر گز نہیں چھوڑیں گے۔ یوں شاہد خاقان عباسی صاحب کے لیے بقیہ مدت تک وزیر اعظم رہنے کا راستہ ہموار نظر آ رہا ہے۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا وہ ایک مکمل با اختیار اور آزاد وزیر اعظم کا کردار ادا کر سکیں گے؟ یا شریف خاندان کی پالیسیوں کو ہی لے کر آگے بڑھیں گے۔
نو منتخب وزیر اعظم نے جب اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر کی تھی تو ان کے ڈائس پہ نا اہل ہونے والے وزیر اعظم نواز شریف کی تصویر لگی ہوئی تھی۔وہ تصویر اور شاہد خاقان عباسی کا یہ کہنا کہ دنیا کو بتا رہےہیں، وزیر اعظم بدل سکتا ہے، مگر پالیسیاں نہیں،ان طاقتوں کو للکار ہے جن کے بارے مسلم لیگ نواز سمجھتی ہے کہ انھوں نے، وزیر اعظم کو نا اہل کر کے زیادتی کی گئی ہے۔ہمیں اس امر کی بالکل توقع تھی کہ مسلم لیگ نواز فیصلہ تسلیم کرنے کے باوجود بھی محاذ آرائی کی طرف جائے گی اور ایسا ہوتا بھی نظر آ رہا ہے۔شاہد خاقان عباسی صاحب کا بڑا امتحان یہی ہے کہ وہ حکومت اور اپنی کابینہ کے چرب زبان وزرا و وزرائے مملکت کو محاذ آرائی اور سخت بیان بازی سے روکیں۔ایسا مگر ہوگا نہیں کیونکہ ابھی جب اتوار کو نا اہل ہونے والے وزیر اعظم بذریعہ جی ٹی روڈ لاہور کی طرف نکلیں گے تو راستے میں استقبالیہ نعروں میں وزیر اعظم نواز شریف کے نعرے لگیں گے۔ یہ نعرے براہ راست سپریم کورٹ کے فیصلے پر تنقید ہی تصور کیے جائیں گے۔گذشتہ کئی دنوں سے حکومت عملاً معطل ہی ہے۔کیونکہ نئے وزیر اعظم کی نامزدگی اور بعد ازاں وفاقی کابینہ کے لیے طویل مشاورت یہ سمجھنے میں مدد گار ہے کہ کس طرح حکمران جماعت کے اندر دھڑے بندیاں ہیں، جنھیں بمشکل یکجان کیے جانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
شاہد خاقان عباسی صاحب کی کابینہ کے بارے شنید تھی کہ ان کی کابینہ کا حجم کم ہو گا، لیکن جو سامنے آیا وہ خبروں کے بالکل الٹ ہے۔اتحادیوں کو راضی رکھنا ہر اس حکومت کی مجبوری ہوتی ہے جو اتحادیوں سے مل کر حکومت کر رہی ہوتی ہے اور یقیناً اس حوالے سے حکومت کو بھاری قیمت وزارتوں کی شکل میں دینا پڑتی ہے۔ الغرض وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے طویل مشاورت اور غور کے بعد اپنی نئی وفاقی کابینہ میں وزیر خارجہ کا اہم عہدہ خواجہ آصف کو سونپا جبکہ وزارت داخلہ کی ذمہ داری احسن اقبال کو سونپی ہے۔وفاقی کابینہ کی حلف برداری کی تقریب ایوان صدر میں جمعے کی صبح ہوئی۔ صدر ممنون حسین نے وزرا سے ان کے عہدوں کاحلف لیا۔ نئی کابینہ کی حلف برداری کی تقریب اس سے قبل ملتوی کر دی گئی تھی۔
ماضی میں کل وقتی وزیر خارجہ نہ ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر کڑی تنقید کی جاتی رہی ہے۔نئی کابینہ میں اکثر پرانے اور کئی نئے چہرے شامل ہیں۔نئی وفاقی کابینہ میں 46 وزرا اور وزرائے مملکت شامل ہیں۔وزرائے مملکت میں مریم اورنگزیب، دانیال عزیز، عابد شیر علی، طلال چوہدری، انوشہ رحمان اور طارق فضل چوہدری شامل ہیں۔سپریم کورٹ کے پانامہ کیس کی روشنی میں فیصلے کی وجہ سے نواز شریف سبکدوش ہوگئے تھے۔ ان کے جانے کے ساتھ ہی وفاقی کابینہ بھی تحلیل ہوگئی تھی۔وفاقی وزیر خارجہ خواجہ آصف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اپنی چار سالہ وزارت میں ایک مرتبہ بھی راولپنڈی میں قائم اپنی وزارت نہیں گئے تھے۔
کابینہ اگرچہ بڑی اور غیر ضروری ہے۔یہ کام 20 سے 25 وزارتوں سے بھی چل سکتا تھا۔بلکہ دنیا کے کئی بڑے اور فیصلہ ساز ممالک میں تو 20 سے بھی کم وزارتوں سے کام چلایا جاتا ہے۔ہمارے ہاں روایت مگر الٹی ہے، کیونکہ نظریات کے بجائے معاملات مفادات سے جڑے ہوتے ہیں۔وزارتوں کی بندر بانٹ اور اتحادیوں کے تحفظات نہ ہوتے تو یہ کام ایک دن میں بھی ہو سکتا تھا۔اب بھی شنید ہے کہ دانیال عزیز حلف برداری کی تقریب میں شریک نہ ہوئے۔یہاں مسلم لیگ نون نے دو اہم وزارتوں پہ خاص توجہ دی ہے اور وہ ہیں داخلہ و خارجہ کی وزراتیں، چوھدری نثار علی خان کی وفاقی کابینہ میں عدم شرکت کے باعث داخلہ کی وزارت احسن اقبال صاحب کے حصے میں آئی جبکہ سابق وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کے حصے وزارت خارجہ آئی۔کیا نون لیگ کی حکومت آئندہ مدت میں کوئی جارحانہ خارجہ پالیسی ترتیب دینے کا ارادہ رکھتی ہے؟ اور دوست ممالک بالخصوص جہاں کے اقامے ہیں ان سے مدد کی طلبگار ہو گی؟نئی کابینہ ترقیاتی کاموں پر توجہ مرکوز رکھے گی تا کہ آنے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کی جائے یا آئندہ کے بننے والے بہ ظاہر خطرناک سیاسی منظر نامے کے لیے اپنی صلاحیتیں صرف کر دے گی؟کیا یہ کابینہ اس اہل ہے کہ بیک وقت کئی محاذوں پہ سیاسی مقابلہ کرے گی؟جبکہ نو منتخب وزیر اعظم سمیت پوری جماعت کو کئی سیاسی چیلنجز در پیش ہیں، جن میں سے جوڑ توڑ اور ناراض مسلم لیگیوں کو یکجا کرنا بھی ہے۔آنے والے دنوں میں عائشہ گلالئی ایشو اور کے پی کے، حکومت گرانے پر بھی کابینہ و اس کے معاونین کی توجہ مرکوز رہے گی۔46 رکنی کابینہ کے بیشتر وزرا کو سیاسی دلداریوں اور پانامہ لیکس کے دوران اداروں پر کی جانے والے زبان درازیوں کی قیمت بھی کسی حد تک ادا کر دی گئی ہے۔یہ ہے وہ سیاسی کابینہ جو ملک کے بجائے اپنی بیشتر صلاحیت شریف خاندان کی وکالت و کاسہ لیسی پہ لگائے گی ارو ترقی و جمہوریت کے دعوے بھی کیے جاتے رہیں گے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply