بچپن کی کچھ ایسی یادیں جو اب نظر آنا مشکل ہیں۔۔محمد عبداللہ

“گورنمنٹ پرائمری سکول کوپرہ خورد” ہماری ابتدائی مادر علمی جہاں سے ہم نے پرائمری تک تعلیم حاصل کی، تعلیم کیا تھی لکھنا اور پڑھنا سیکھا تھا۔ صبح سویرے کپڑے کے بنے ہوئے “بستے” میں کتابیں، قلم دوات اور تختی ٹھونس کر سکول لے جاتے تھے۔ کاپیوں اور بال پوائنٹس کا تو تصور تک نہیں ہوتا تھا ،البتہ گرمیوں کی چھٹیوں میں ایک رجسٹر پر ہوم ورک کرنا ہونا تھا۔

صبح سویرے  سکول جاکر اسمبلی میں اوٹ پٹانگ قسم کی حرکتیں کی جاتیں۔ تلاوت، نعت، دعا اور قومی ترانے سے صبح کا آغاز ہوا کرتا تھا (کتنے بابرکت دن تھے اب تو عرصہ گزر جاتا  ہے تلاوت و نعت اور دعا کیے ہوئے) البتہ ایک بات جو اس وقت بھی نوٹ کی اور آج بھی اکثر ہوتا ہے کہ جیسے ہی ہم سب طلبا باآواز بلند قومی ترانہ پڑھتے تو ساتھ سڑک پر چلنے والے سبھی لوگ چاہے کوئی کتنی ہی جلدی میں کیوں نہ ہوتا وہ وہیں رک جایا کرتا تھا (اب تو قومی ترانہ چھوڑ  جنازہ بھی گزر رہا ہو تو لوگ نہیں رکتے )

سردیاں ہوتیں تو دھوپ میں ٹاٹ بچھاکر کلاس جمالی جاتی اور گرمیاں ہوتیں تو کسی پیڑ کی چھاؤں تلے ماسٹر صاحب کی کرسی کے ارد گرد حلقہ جم جایا    کرتا تھا۔ کیونکہ دو کمرے تھے  سکول میں ،ایک میں دفتری سامان تھا اور دوسرے میں ٹوٹا پھوٹا فرنیچر ہوا کرتا تھا، جس پر ہمیں کبھی بھی بیٹھنے کی سعادت نہ ملی تھی۔ قابل استعمال فرنیچر کے نام پر اساتذہ کے لیے موجود چار پانچ کرسیاں تھیں۔ اگر کبھی بارش ہوجایا کرتی تو سارے  سکول کو چھٹی ہوجایا  کرتی تھی، لہذا بارش کی دعائیں کثرت سے مانگی جاتی  تھیں۔ (لیکن طلبا  کی دعائیں قبول ہوتیں  تو قبرستان اساتذہ کی قبروں سے بھرے پڑے ہوتے)۔

سبھی اساتذہ کو “سرجی” یا “ماسٹر جی” کہا جاتا تھا۔ ماسٹر جی نام تھا رعب اور دبدبے کا۔ کسی بھی ماسٹر کے  سکول میں آنے پر چپ کی لہر سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا کرتی تھی۔ کسی کی مجال نہیں تھی کہ کوئی ماسٹر جی کے سامنے آنکھیں اٹھا سکتا۔ ویسے تو اردو لکھنا اور پڑھنا ہی سکھایا گیا تھا، البتہ دیگر کتابوں مثلاً ریاضی، سائنس وغیرہ میں بھی طاق ہوا کرتے تھے۔ دو قطاروں میں آمنے سامنے کھڑے ہوکر “اک دونی دونی تے دو دونی چار” کرتے ہوئے ریاضی کے پہاڑے یاد کیے جاتے تھے۔ انگریزی کے نام البتہ چھوٹی بڑی اے بی سی ہی آیا کرتی تھی ،اس سے زیادہ کا  تکلّف  نہیں کیا جاتا تھا۔

تختیاں  سکول میں بیٹھ کر بھی لکھی جاتی تھیں اور ان کو دھونے کے لیے نل یا کوئی ٹونٹی نہیں بلکہ  سکول میں ایک “چھپڑی” جوہڑ تھا جہاں پانی جمع رہتا تھا ،وہیں پر تختیاں دھوکر “گاچی” لگا کر سُکھائی  جاتی تھیں ،وہیں تختیوں کو ٹکرانے کا بھی مقابلہ ہوجایا کرتا تھا ،جس کے نتیجے میں تختی تو ٹوٹا ہی کرتی تھی اور پھر گھر جاکر کوئی چھڑی بھی ٹوٹا کرتی، جس کے بعد ہی نئی تحتی میسر آتی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

سکول کی تصویر سامنے آئی تو ساری یادیں ذہن میں دوڑی چلی آئیں۔ آج ان میں سے  کچھ بھی دیکھنے کو نہیں ملتا۔ سجے سجائے  سکول اور اساتذہ تو موجود مگر احترام و عقیدت کا رشتہ ندارد۔۔ پڑھائی اور  سلیبس تو شاندار مگر اخلاق اور علم سے عاری۔۔ بیگز اور الماریاں کتابوں اور کاپیوں سے بھرے ہوئے مگر قلوب و اذہان خالی (الا ماشاءاللہ)۔

Facebook Comments

Muhammad Abdullah
BS Hons Political Science from University of Gujrat Political Columnist at Monthly Akhbar e Talaba Columnist at Daily Tehreek Lahore Social Worker Rescuer

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply