دامن سرمایہ چاک۔۔۔کامریڈ فاروق بلوچ

جاگیردارانہ یورپ میں صنعتی سرمایہ داری کا آغاز تجارتی سرمایہ داری (مرکنٹائل کیپٹلزم) سے ہوا تھا۔ تیرہویں صدی کے اٹلی میں سرمایہ دارانہ طرزِ پیداوار کی کچھ شہادتیں ضرور ملتی ہیں  لیکن یہ کوئی غالب نظام نہ تھا۔ سترہویں صدی کے انگلستان میں پہلی بار جاگیردارانہ نظام کو سرمایہ داری نے شکست دی۔ انگلستان میں ترقی پسند سرمایہ دار طبقے کے غلبے نے پیداواری قوتوں کو اَن دیکھی جِلا بخشی اور اِسی معاشی ترقی کی وجہ سے یہ ریاست دنیا کی سب سے بڑی پیداواری اکائی بن کر ابھری۔ جب انگلستان کی اپنی منڈی اُس بےپناہ پیداوار کے سامنے محدود ہوئی تو سرمایہ داروں نے نئی منڈیوں اور سستے خام مال کے لئے دنیا کے مختلف خطوں میں نوآباد کاری کا آغازکیا۔ انگلستان کے بعد یورپ کے دوسرے ممالک میں بھی سرمایہ دارانہ انقلابات نے جنم لیا اور مختلف ممالک کے حکمران طبقات کے درمیان نوآبادیات اور منڈیوں پر قبضے کی دوڑ سے نئے تضادات پیدا ہوئے۔ اِس دوڑ میں انگلستان کے سرمایہ دار طبقے نے اپنے معاشی غلبے کے سبب سبقت حاصل کر لی۔ منڈیوں کی اُسی تلاش میں امریکہ دریافت ہوا اور ساتھ ہی یورپی لوگ افریقہ، لاطینی امریکہ، ہندوستان اور مشرق بعید جا پہنچے۔ بیسویں صدی کے آغاز تک دنیا کا بیشتر حصہ یورپی نوآبادکاروں کے تسلط میں تھا۔ اٹھارہویں صدی کے اواخر میں امریکہ بھی ایک نئی سرمایہ دارانہ طاقت کی شکل میں اُبھر کر سامنے آیا اور بیسویں صدی کے آغاز تک امریکہ ایک طاقتور سرمایہ دارانہ ریاست میں تبدیل ہو گیا۔

بیسویں صدی کے آغاز میں تکنیکی اور سائنسی ترقی کے سبب پیداوار کے بہت بڑے انبار لگا دیے گئے- اب اِس پیداوار کی فروخت کیلئے منڈیوں تک رسائی اور منڈیوں کی بندر بانٹ پر سرمایہ دارانہ ممالک کے آپسی تضادات اِس نہج پر پہنچ گئے کہ براہ راست جنگ سے بچنا ناممکن ہو گیا۔ پہلی عالمی جنگ کی بنیاد یہی معاشی تضادات ہی تھے۔ کروڑوں انسانوں کی ہلاکت اور بہت بڑے پیمانے کے مالی نقصانات کے باوجود یہ جنگِ عظیم سرمایہ داری کے داخلی تضادات کو حل نہیں کر پائی۔ اُسکے بعد 1929ء میں امریکہ سے شروع ہونے والا ’’گریٹ ڈپریشن‘‘ عالمی سرمایہ داری کے حُسن کو نگلتا چلا گیا، منڈیاں مزید سکڑتی چلی گئیں، بیروزگاری عام ہوگئی اور شرح منافع کم ہوتی چلی گئی- دوسری جنگِ عظیم اپنے اسباب کے تحت درحقیقت پہلی جنگِ عظیم کا ہی تسلسل تھی۔ اِس جنگ نے ہتھیار سازی کی منافع بخش صنعت کو چالو کر دیا جس سے بیروزگاری میں تیزی سے کمی آئی اور سرمایہ داروں کی شرح منافع بحال ہوئی۔ جنگ کے بعد تعمیر نو سے بھی عالمی سرمایہ داری کو سہارا ملا۔ بعد از جنگ ہونے والی گلوبلائزیشن سے عالمی تجارت میں اضافے اور نئی صنعتوں میں سرمایہ کاری سے بحران کچھ عرصہ کے لئے ٹل گیا۔

1973-74ء میں ریاستی سرمایہ داری اپنے منطقی نتیجے یعنی “معاشی جمود” (افراط زر کے باوجود منجمد معاشی شرح نمو) کا شکار ہو کر بکھرنے لگی- اِس بحران سے نکلنے کا راستہ قومی اداروں کی نجکاری کے ذریعے نکالا گیا۔ یہ حکمت عملی دراصل مستقبل میں ایک بڑے اور گہرے بحران کا پیش خیمہ بنی۔ نجکاری اور لبرل ازم کے وکیلوں نے سرمایہ داروں کی سکڑتی ہوئی شرح منافع کو بچانے کے لئے توانائی، بینکاری اور ٹرانسپورٹ جیسے کلیدی شعبے بھی نجی ملکیت میں دے دیے گئے جس سے ماضی میں دی جانے والی ریاستی سبسڈی کا خاتمہ ہو گیا۔ نظام کے بحران نے سرمایہ داروں کو سونے کے انڈے دینے والی مرغیاں زبح کرنے پر مجبور کردیا۔ اِن شعبوں کی نجکاری سے ریاستیں معاشی طور پر کمزور ہو کر اپنی آمدن کے لئے نجی بینکوں کے قرضوں پر منحصر ہو گئیں۔

1978ء میں چین میں سرمایہ داری کی بحالی اور 1991ء میں سوشلسٹ روس کے انہدام نے دم توڑتی ہوئی سرمایہ داری کو کچھ سہارا فراہم کیا۔ سستی لیبر کے تعاقب میں سرمایہ کاری چین منتقل ہونے لگی- چین میں بنائی گئی سستی اشیا مغربی منڈیوں میں فروخت ہوکر ہوشربا منافع کا سبب بننے لگیں۔ لیکن سرمائے کی اِس پرواز سے مغرب میں روزگار کم ہو گیا اور نتیجتاً قوت خرید بھی کم ہو گئی جِسے بحال رکھنے کے لئے کریڈٹ فنانسنگ (قرضے) کا بے دریغ استعمال دیکھنے میں آیا۔ 2008ء میں قرضوں کا یہ پہاڑ زمین بوس ہو گیا اور عالمی معیشت ایک نئے بحران کا شکار ہو گئی۔

2008ء کے بحران میں برباد ہوتے بینکوں کو بچانے کے لئے ریاستوں نے بیل آؤٹ کا اجراء کیا۔ برطانیہ کے “بارکلے” بینک کو بچانے کے لئے 552.32 ارب پاؤنڈ امریکہ کے فیڈرل ریزرو اور 6 ارب پاؤنڈ قطری حکومت نے ادا کئی۔ مزید برآں برطانوی حکومت نے 37 ارب پاؤنڈ کے ساتھ “ایچ بی او ایس” اور رائل بینک آف سکاٹ لینڈ وغیرہ کو قومی تحویل میں لے لیا تاکہ مزید معاشی بربادی سے بچا جاسکے۔ ریاستوں نے سرمایہ داروں کو تو بیل آؤٹ پیکجز کا سہارا دیا مگر عوام کو مفت علاج، تعلیم، بیروزگاری الاؤنس اور پنشن جیسی مراعات اور سہولیات سے محروم کر دیا- اب ’’کٹوتی‘‘(آسٹیریٹی) کے نام پر ’’فلاحی ریاست‘‘ قصہ ماضی ہوچکی ہے-مثلاً آسٹریلیاکی ریاست نے 1.17 بلین ڈالر کے اضافی ٹیکس عوام پر لگائے۔ جرمنی عوامی سہولیات میں سے 30 ارب یورو کی کٹوتی کرے گا، ملازمین کی تنخواہیں 15,000 یورو سالانہ تک کم ہونگی۔ اِس بحران سے برباد منڈی کو سرگرم رکھنے کے لئے نوٹ چھاپے جارہے ہیں۔ امریکی ریاست ہر ماہ 85 ارب ڈالر چھاپ رہی ہے۔ مگر یہ سلسلہ لا امتناہی طور پر تو جاری نہیں رکھا جاسکتا کیونکہ اس سے افراط زر پیدا ہو رہی ہے اور صورتحال زیادہ بگڑی ہے۔ عالمی معیشت کی شرح نمو منجمد ہے اور مستقبل قریب میں بحالی کے کوئی آثار نہیں ہیں۔

آکسفیم کی رپورٹ چونکا دینی والی تھی جس کے مطابق دنیا کے ایک فیصد امیر ترین افراد کی مجموعی دولت باقی کی 99 فیصد آبادی کی کل جمع پونجی کے برابر ہو چکی ہے۔ صرف 62 افراد دنیا کی آدھی آبادی (تقریباً 3.5 ارب افراد) سے زیادہ امیر ہو چکے ہیں۔ 2010ء کے بعد امراء کی دولت میں 44 فیصد اور غربت میں 41 فیصد اضافہ ہوا ہے- آکسفیم کی اس رپورٹ کا اہم پہلو یہ ہے کہ مستقبل میں کہیں غربت کے خاتمے کی کوئی نوید نہیں، الٹا اضافے کی ہی پیش گوئی ہے۔ یہی اس نظام کی اصلیت اور آج کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔

جارج آرویل نے لکھا کہ ’’دھوکہ دہی اور فریب کے عہد میں صرف سچ بولنا بھی ایک انقلابی اقدام بن جاتا ہے-‘‘ اگر ہم آج کے سرمایہ داری کے وکیلوں کے کیے گئے ترقی کے دعوؤں کا موازنہ عوام کی حالتِ زار سے کریں تو یوں لگتا ہے کہ یہ “دانشور ماہرین” کسی اور ہی سیارے کی مخلوق ہیں۔ تمام جدید سہولیات، ٹیکنالوجی اور ایجاد کا سماج میں استعمال ایک ترقی پسندانہ عمل ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جِس “ترقی” کا ڈھول پیٹا جا رہا ہے اُس سے حاصل ہونے والا منافع کن کی تجوریوں میں جا رہا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ایسی ترقی کا عمل ایسے اداروں اور طریقوں سے پایہ تکمیل کو پہنچے جن میں ٹھیکیداری نظام اور منافع خوری کا عمل سرے سے موجود ہی نہ ہو؟ اگر ایسا ممکن نہیں تو یہ “انسانی ترقی” نہیں بلکہ “سرمایہ دارانہ ترقی” ہے-

Advertisements
julia rana solicitors

مشکل معاشی اصطلاحات اور اعداد و شمار کے ہیر پھیر کے زریعے غربت، بیماری، محرومی، استحصال اور جہالت میں اضافے کو چھپانے کی ناکام کوششیں ہو رہی ہیں۔ یہ “دانشور” قاتل سرمایہ دارانہ نظام کے وکیل ہیں جس کے نتیجے میں سرمایہ دار طبقے کے سیٹھوں کی تجوریاں پہلے بھرنی چاہئیں۔ اس کے بعد شاید وہ اپنی دولت کے انباروں میں سے چند سکے غریبوں کی طرف اچھال دیں۔ اس خیرات کو استحصال کا جواز بنا کر حکمران طبقے کی کاسہ لیسی کرنے والے سیاسی فنکار، تجزیہ نگار اور مُلا عوام کا شعور ماؤف کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ قانونی لوٹ مار کا یہ سلسلہ چلتا رہے۔

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply