ٹریفک قوانین کی پاسداری عوام کی ذمہ داری۔۔عمران علی

دنیا میں ایجادات کا سلسلہ اپنے عروج پر ہے، حضرت انسان نے چاند تاروں پر ایسی کمند ڈالی کہ افلاک کے رازوں کو حاصل کر لیا، اقوام ِ عالم میں ترقی جس قدر برق رفتاری سے ہورہی ہے اس کی مثال تاریخ کے  اوراق پلٹنے سے بھی نہیں ملتی، مگر پوری دنیا میں انسانی آبادی کے بڑھنے کی رفتار بھی خوفناک تک پہنچ گئی ہے، اس بڑھتی آبادی کے اثرات ناقابل بیان حد تک خطرناک ہیں،
یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ اگر افراد  غیر منظم طرز ِ زندگی کے حامل ہوں تو وہ نُقص ِامن کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں، پاکستان بھی دنیا کے ان ممالک میں سے ہے جہاں آبادی کے بڑھنے کا تناسب وسائل کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے، بڑھتی ہوئی آبادی کے پیشِ  نظر لوگ اپنے معاشی معاملات کو بہتر کرنے کے لیے ہجرت کرتے ہیں اور اسی ہجرت کے لیے ان کا ایک جگہ  سے دوسری جگہ سفر کرنا معمول ہے، اور سب سے زیادہ سفر بذریعہ  سڑک  کیا جاتا ہے، جس سے قومی و علاقائی شاہراہوں  پر ٹریفک کی روانی بیش بہا ہوتی جارہی ہے، اس ٹریفک کے رش کی وجہ سے ان شاہرات پر بہاؤ میں روزبروز شدید ترین اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

ایسے میں ٹریفک حادثات  میں بھی روزبروز شدت دیکھنے میں آرہی  ہے، پاکستان بد ترین دہشت گردی کا شکار ہے اور اب تک لاکھوں معصوم پاکستانیوں نے دہشت گردی کا شکار ہوکر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے، مگر یہ بات نہایت تکلیف دہ ہے کہ پاکستان  میں سب  سے زیادہ جاں بحق ہونے والوں کی تعداد کا  سب سے بڑا سبب سڑک پر پیش آنے والے حادثات ہیں، ان حادثات کی بہت سی وجوہات ہیں، ناقص روڈ نیٹ ورک، شاہرات کی عدم مرمت و تعمیر ِ نو، موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سموگ جیسی موزی قدرتی آفت، لیکن سب سے بڑی وجہ عوام الناس کی جانب سے ٹریفک قوانین کی مجرمانہ خلاف ورزی ہے، ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے دیہی علاقوں میں ابھی بھی ایک بڑی تعداد بغیر لائسنس کے مرکزی شاہراہوں پر گاڑیاں لے کر ڈرائیونگ کرتے نظر آتے ہیں۔

ان لوگوں کی اکثریت غیر تربیت یافتہ ہوتی ہے جس کی بناء پر انکی ٹریفک قوانین سے آشنائی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے جس کی وجہ سے آئے روز حادثات رونماء ہوتے ہیں، چائنہ میڈ موٹر سائیکل نے لوگوں کو سائیکل کی جگہ موٹر سائیکل پر تو سوار کروا دیا مگر موت بھی سستی کردی ہے، رہی سہی تباہی کرائے اور قسطوں پر موٹر سائیکل بیچنے والوں نے  پوری کر دی، اس موٹر سائیکل کی غیر محفوظ سواری نے بہت سے نوجوانوں اور بچوں کو موت کی آغوش میں پہنچا دیا، لاہور، ملتان، کراچی، فیصل آباد سیالکوٹ اور پنڈی اور دیگر بڑے شہروں میں جشن آزادی کے موقع پر سائلنسر نکال ون ویلنگ کرنا ایک فیشن بن چکا ہے اور اسی ون ویلنگ نے بھی ہزاروں گھروں کے چراغ گل کردیے ہیں، قانون کی پاسداری نہ کرنے کا نقصان عام آدمی کو ہی اٹھانا پڑتا ہے، چھوٹے چھوٹے اور نو عمر بچے موٹر سائیکل بہت تیز چلاتے ہی ہیں مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ اپنے قیمتی سر کو بچانے کے لیے ہیلمٹ کا استعمال کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں، اور حادثے کی صورت میں سر پر لگنے والی شدید چوٹ موت کا سبب بن جاتی ہے۔

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ پورے ملک میں پولیس کی نفری پہلے ہی بہت کم ہے، اور  اگر ٹریفک پولیس کی بات کی جائے تو انکی تعداد تو ویسے بھی آٹے میں نمک کے برابر ہے، تو اس بے ہنگم ٹریفک کو سنبھالنا ان کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، اور کیا قوانین پر عملدرآمد کروانا صرف وردی والوں کی ذمہ داری ہے، ہمیں ذمہ دار شہری کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کرنا ہوگا، حکومت کو چاہیے کہ تمام پٹرول پمپوں  کو احکامات جاری کیے جائیں کہ موٹر سائیکل پر سوار لوگوں کو ہیلمٹ نہ ہونے کی صورت میں پٹرول نہ ڈلوانے دیا جائے، اگر چھوٹے بچے موٹر سائیکل چلاتے پکڑے جائیں تو انکے والدین کے خلاف غیر ذمہ دار والدین کی حیثیت سے پرچہ کاٹا جائے، آج کل گنے کا  سیزن شروع ہوچکا ہے، ٹریفک پولیس کو چاہیے کہ قانون کے مطابق ہیوی ٹریفک کو رات 8 بجے کے بعد شہری علاقوں میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے خلاف ورزی کی صورت میں بھاری جرمانے اور سنگین صورتحال میں سزاء دی جائے، لوگوں میں ٹریفک قوانین کی مؤثر آگاہی کے لیے سول سوسائٹی اور فلاحی اداروں کو ٹریفک پولیس کے ساتھ مل کر بھرپور شعور وآگاہی مہم کا آغاز کرنا چاہیے، آہستہ چلنے والی ٹرانسپورٹ مثلاً ریڑھے، گدھا گاڑی، ٹریکٹر ٹرالیوں اور ٹرکوں پر ممکنہ حد تک روشنی ورنہ چمک پٹی کا چسپاں ہونا بہت ضروری ہے تاکہ حادثات کے امکانات کو کم سے کم کیا جاسکے، ہمارے ہاں سڑکوں کی حفاظت کو حکومتی فرض سمجھا جاتا ہے اسی لیے انکی حفاظت بھی نہیں کی جاتی، اکثر کاشتکار بھائی ورڈ پر جاتے ہوئے سڑک سے “ہیرو” کو اٹھانے کی تکلیف نہیں کرتے جس سڑک کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمیں  خود میں احساس ذمہ داری پیدا  کرنا ہوگا، ملک کے تمام اثاثے اور املاک یہاں کے باشندوں کے ہوتے ہیں، آئیے تعمیر وطن کے لیے اپنی محبتوں کا اظہار کریں،پاکستان   کی ترقی کے لیے قوانین کا احترام بے حد ضروری ہے، اسی لیے ٹریفک قوانین کی پاسداری عوام کی ذمہ داری ہے، چلیں مل کر لوگوں کی بھلائی کے لیے ٹریفک کے قوانین کی آگاہی میں اپنا حصہ ملائیں شاید ہماری وجہ سے بہت سی قیمتی جانوں کی حفاظت ہوسکے۔

Facebook Comments

سید عمران علی شاہ
سید عمران علی شاہ نام - سید عمران علی شاہ سکونت- لیہ, پاکستان تعلیم: MBA, MA International Relations, B.Ed, M.A Special Education شعبہ-ڈویلپمنٹ سیکٹر, NGOs شاعری ,کالم نگاری، مضمون نگاری، موسیقی سے گہرا لگاؤ ہے، گذشتہ 8 سال سے، مختلف قومی و علاقائی اخبارات روزنامہ نظام اسلام آباد، روزنامہ خبریں ملتان، روزنامہ صحافت کوئٹہ،روزنامہ نوائے تھل، روزنامہ شناور ،روزنامہ لیہ ٹو ڈے اور روزنامہ معرکہ میں کالمز اور آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں، اسی طرح سے عالمی شہرت یافتہ ویبسائٹ مکالمہ ڈاٹ کام، ڈیلی اردو کالمز اور ہم سب میں بھی پچھلے کئی سالوں سے ان کے کالمز باقاعدگی سے شائع ہو رہے، بذات خود بھی شعبہ صحافت سے وابستگی ہے، 10 سال ہفت روزہ میری آواز (مظفر گڑھ، ملتان) سے بطور ایڈیٹر وابستہ رہے، اس وقت روزنامہ شناور لیہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں اور ہفت روزہ اعجازِ قلم لیہ کے چیف ایڈیٹر ہیں، مختلف اداروں میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی ممبر ماسٹرز کی سطح کے طلباء و طالبات کو تعلیم بھی دیتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply