مسلم فیمینزم – ابتدائی دور(1) -احمر نعمان

مسلم ہندوستان کی فیمینسٹ تحریک کو مختلف ادوار کے حساب سے دیکھنا چاہیے، اگر ہم انگریز دور سے آغاز لیں تو افرنگ سرکار نے 1790 عیسوی میں ہندوستان میں انگریزی قوانین کا نفاذ کیا مگر مرد , عورت سے متعلق صنفی قوانین پرسنل لاز کے تحت پرانی اشکال میں ہی موجود رہے، مثال کے طور پروراثت کے برطانوی قوانین الگ تھے مگربرطانوی قانون کے نفاذ کے باوجود ہندوستانی عورت وراثت جیسے بنیادی حق سے محروم رہی۔ (۱۹۳۸ میں جا کر مسلم پرسنل لاز کے تحت خواتین کو وراثت کے کچھ حقوق ملے)۔

اسی طرح انگریز سرکار کے عطا کردہ “اعلیٰ” تعلیمی نظام کے حوالہ سے میرا موقف یہی ہے کہ اس کا مطلب جاگیرداری نظام کے خاتمہ یا عوام کی فلاح و بہبود کی بجائے انگریز کا وفادار طبقہ تیار کرنا تھا جو مسلم اشرافیہ اور جاگیرداروں کی صورت میں ان کا مددگار رہے۔اس طبقہ کے بہترین نمائندہ جناب سرسید احمد خان تھے، جن کی نظرمیں جنگ آزادی غدر یا بغاوت تھی۔ آنجناب کی تعلیمی اصلاحات بھی دوہرا معیار رکھتی تھیں، ایک جانب وہ مسلم مرد (اشرافیہ) کی مغربی تعلیم کی پُرزور وکالت کرتے تھے، دوسری جانب عورت کے لیے مغربی تعلیم کو نقصان دہ اورعورت کے لیے روایتی مذہبی تعلیم کی حمایت کرتے تھے۔

انیسویں صدی میں جدیدیت پسند اور روایتی مسلمانوں کے درمیان پردہ کے مسئلہ پر بحث چھڑ گئی۔ اکبر الہ آبادی کے اشعار یاد کیجیے؛
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبرؔ زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا

 اقبال کے ہاں بھی مرد، عورت کے ‘قوام’ ہی رہے۔
نے پردہ، نہ تعلیم ، نئی ہو کہ پرانی
نسوانیت زن کا نگہباں  ہے فقط مرد

۱۸۸۵ میں انجمن حمایت اسلام نے اسلامی اقدار اور نظریات کے تحفظ کے لیے لاہور میں لڑکیوں کے پانچ ایلیمنٹری اسکول کھولے، جن کا بنیادی مقصد مغربی ثقافتی یلغار کے خلاف اسلامی اقدار کا فروغ تھا۔

۱۸۸۶ یعنی اگلے برس ہی عورت کی تعلیم پر بات محمڈن کانفرنس MEC میں علی گڑھ سے تعلق رکھنے والے شیخ عبداللہ نے کی۔ اس وقت یہ نقارخانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوئی، اور اس وقت کے تمام سرسید جیسی نام نہاد روشن خیال اور پروگریسو اشرافیہ نے ان کی تقریباً تمام تجاویز مسترد کر دیں۔

۱۸۹۹، یعنی تیرہ برس بعد بنگال (کلکتہ) میں شیخ کی تجویز کے مطابق مسلم تاریخ کا پہلا خواتین کا ٹیچر ٹریننگ سکول کھلا اور اس کی وجہ یہ کہ خواتین کی تعلیم حلال کرنے کے لیے خواتین اساتذہ کا ہونا لازم قرار پایا۔

ہندوستانی مسلم فیمیزم کے دور ِاوّل میں بیگم بھوپال (سلطان جہاں) کی خدمات ناقابل ِفراموش ہیں، انہوں نے علی گڑھ میں شیخ عبداللہ کی محمڈن گرلز سکول کے آغاز کی حمایت کی، جب اخراجات کے مسائل ہوئے تو آپ نے تمام اخراجات اپنی ذاتی جیب سے اٹھائے۔

۱۹۰۳ میں بمبئی میں MEC کے سالانہ اجلاس میں چاند بیگم نے تعلیم پر اپنا مقالہ پیش کرنا چاہا۔ پردہ کی پابندیوں کے باعث چاند بیگم اپنا ہی مقالہ نہیں پڑھ پائیں اور ان کی جانب سے ایک پارسی خاتون نے پڑھ کر سنایا۔ اس مقالہ میں چاند بیگم نے مسلمان علما پر تنقید کی اور جدید تعلیم کے حق میں دلائل دیے تھے۔( اس کے نتیجہ میں بہت سال بعد خواتین اساتذہ کے لیے ایک اسکول کے قیام کے لیے ایک قرارداد منظور کی گئی جو بالآخر 1913 میں علی گڑھ میں کھلا۔)

1904 میں تعلیمی اصلاحات کی تحریک نے زور پکڑا جسے مولانا الطاف حسین حالی جیسی قدآور شخصیت کی حمایت حاصل تھی۔ اِسی برس خواتین کا پہلا اردو جریدہ “خاتون”، شیخ عبداللہ نے شائع کیا۔ حقوق نسواں  نامی ایک اخبار سید ممتاز علی اور ان کی اہلیہ محمدی بیگم نے شروع کیا جس کی ہندوستان بھر میں تشہیر ہوئی۔ اس اخبار کو بڑے پیمانے پر پھیلایا گیا اور اسے ” رہبر نسواں” کے نام سے جانا جانے لگا۔

1904 اور 1911 کے درمیان بمبئی، کلکتہ، علی گڑھ، لاہور، کراچی اور پٹنہ میں لڑکیوں کے متعدد اسکول کھلے، لاہور میں اخبار نسواں، شریف بی بی اور تہذیب نسواں کے نام سے تین اخبارات نکلے۔ اگرچہ انہیں چلانے والے زیادہ مرد ہی تھے مگر مضامین اور کہانیاں زیادہ خواتین کی ہوتی تھیں۔ اس جدوجہد کے تحت خواتین کی تعلیم مسلم کمیونیٹیز میں قابل قبول ہونے لگیں۔

۱۹۱۱ میں بیگم بھوپال کے زرخیز ذہن نے ہوم سائنس کے نام سے خواتین کی تعلیم کا نصاب تیار کیا تاکہ قدامت پسند مسلمان اس پر آمادگی کا اظہار کر سکیں۔ (ایک عرصہ تک ہمارے ہاں اسی بنیاد پرہوم اکنامکس خواتین کے لیے مقبول گنی جاتی تھی)۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply