اَن سُنی اَن کہی ۔۔۔ راجہ محمد احسان

جو ساز سے نکلی وہ دُھن سب بے سُنی
جو ساز پہ بیتی کِس دل کو پتہ ہے

وقت سانسوں کی روانی ، وقت آنکھ کا پانی ،وقت دل لگی، وقت دل کی لگی،وقت بہتی گنگا،وقت دشت وقت دریا، وقت آگ کا دریا، وقت ماں کی کوکھ،وقت گوہر ہی گوہر،وقت سورج کی کِرن،وقت رات کی رانی،وقت سانسوں کی مالا،وقت موتئیے کا پھول،وقت عہدِ وفا، وقت احساسِ زیاں، وقت داستانِ عشق، وقت جنگ و جدل، وقت درد،وقت مسیحا، وقت باقی، وقت داستاں، وقت پانی، وقت شعلہ،وقت شبنم، وقت عشق،وقت موت، وقت قاتل، وقت مقتول، وقت چادر ، وقت چاریواری، وقت بازرا، وقت ساز بھی وقت سوز بھی ،وقت تماشہ بھی وقت تماشائی بھی ۔۔۔۔ آہ میں وقت میں تھا ۔ وقت مُجھ میں نہیں تھا ۔۔۔۔ آہ ۔۔ میں وقت کا مارا ۔۔۔ میں وقت سے ہارا۔

آنکھ کھُلی تو درد تھا ۔ میں چِلا اُٹھا۔ درد کی دوا لمس ہے۔ محبت کا بوسہ۔تخلیق کار کلاکار ہے۔ اس نے ہر چیز جو ڑے میں تخلیق کی ہے۔جہاں درد حد سے گزر جائے وہاں سے محبت کی شروعات ہوتی ہے۔ جب اشرف المخلوقات نے آرام و آلائیش کو لات مار کے درد کا پھل چکھا توخالقِ کائینات نے محبت کی بیڑی کو حضرتِ انسان کے ساتھ زمین کی طرف روانہ کر دیا۔۔۔ ۔ درد حد سے گزر جائے تو محبت۔۔۔محبت حد سے گزر جائے تو عشق۔۔۔ عشق حد سے گزر جائے تو سولی۔

جو عمر کھلونے اٹھانے کی تھی اس میں باپ کا لاشہ اُٹھانا پڑ گیا۔میں نے گھبرا کے مسیحا کی طرف دیکھا۔۔۔۔ مسیحا خاموش۔ ۔۔۔میں سرکش ہو گیا۔۔۔ ۔مسیحا خاموش۔۔۔۔میں باغی بن گیا ۔۔۔۔مسیحا خاموش ۔۔۔۔میں نے مسیحا سے بات کرنے کی ٹھانی ۔۔۔۔ مسیحا خاموش۔۔۔۔میں نے مسیحا کے رنگ میں رنگے جانے کا ناٹک کیا ۔۔۔۔مسیحا خاموش ۔۔۔۔میں پھٹ پڑا ۔۔۔۔مسیحا خاموش۔۔۔۔میں رو دیا ۔۔۔۔مسیحا خاموش۔۔۔۔یہاں مے کشی وہاں خاموشی۔۔۔یہاں تنہائی وہاں خاموشی۔۔۔گوشہ نشینی۔۔۔خاموشی ۔۔۔بازارِ اُلفت خاموشی۔۔۔دردِ دل ۔۔۔خاموشی۔۔۔درد کا دریا۔۔۔خاموشی۔۔۔پاسِ وفا ۔۔۔خاموشی۔۔۔احساسِ زیاں ۔۔۔خاموشی۔۔۔ ہم کلام ۔۔۔خاموشی۔۔۔وبالِ جاں۔۔۔خاموشی۔۔۔آہ و بکا۔۔۔خاموشی۔۔۔یہاں شور اُٹھا ۔۔۔وہاں خاموشی ۔۔۔میں گھبرا کے خاموش ہو گیا۔۔۔یہاں بھی خاموشی۔۔۔وہاں بھی خاموشی۔۔۔خاموش دل دھڑکے۔۔۔دھک۔۔دھک۔۔میں نے چیخ ماری اور بھاگا۔۔۔مسیحا نے مسکرا کے کُنڈی چڑھا لی۔۔۔گلی میں کوئی شرابی لڑکھڑا کے اُٹھا اور گانے لگا۔۔۔۔۔تیری میری خاموشیاں۔۔

جب من کے مندر میں محبت کی گھنٹی بج جائے، جب روحِ انسانی میں محبت کی اذان  پھونک دی جائے تو وجودِ انسانی میں خاموشی کا سرائیت کر جانا کوئی ایسی اَنہونی بات بھی تو نہیں ۔ عجب تماشہ ہے ، کہتے ہیں جس میں جتنا ظرف جتنی محبت ہے ، اُتنا وہ خاموش ہے۔پر محبت ایک ایسا کھیل ہے کہ جس میں جو خاموش ہے اُس کے نصیب میں بھی سولی ہے اور جو بول پڑے اُس کا مقدر بھی سولی۔جب پھونکنے والے نے محبت کے سوا کُچھ پھونکا ہی نہیں تو “انا الحق” کا نعرہ لگانے والوں کا انجام سولی کیوں؟۔میں حق ہوں یعنی میں سر تا پا محبت ہوں ۔جب میں محبت ہوں تو میرے پاس دینے کے لئیے محبت کے سوا کُچھ ہے ہی نہین تو پھر اِس محبت کے جواب میں پتھر کیوں؟۔پتھر کھانے والا کہہ رہا ہے میں محبت ہوں ۔ پتھر مارنے والے کہہ رہے ہیں، بھائی تو شیطان ابنِ شیطان ہے ،نفرت ابنِ نفرت تو محبت کیسے ہو سکتا ہے ۔میرے نزدیک جب بھی حُب کرنے اور بتانے والے کو سولی چڑھایا گیا تو کسی انسان کو سولی نہیں چڑھایا گیا بلکہ انسان نے خدا کو مصلوب کر دیا۔ شائد یہی وجہ ہے کہ سولی دینے والوں کا نام و نشان مِٹ گیا اور “انا الحق” کی صدائیں بلند کرنے والے اب بھی زندہ و جاوید ہیں۔

یار کے نام میں ڈوب جانے والوں کو کوئی پھول مارے یا پتھر کیا فرق پڑتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ لیلٰہ لیلٰہ کرتا مجنوں ایک نمازی کے آگے سے گزر گیا۔ نمازی نے جلدی جلدی نماز ختم کی اور کہا ارے بھائی کیا اتنی سی بات بھی نہیں جانتے کے نمازی کے آگے سے نہیں گزرتے۔ مجنوں اپنی لے میں تھا ۔ کہنےلگا مجھے لیلٰہ کے عشق میں اتنا ہوش کہاں کہ کون کہاں نماز پڑھ رہا ہے پر یہ تیری نماز کیسی ہے کہ تجھے یہ بھی ہوش ہے کہ کون آگے ہے اور کون پیچھے۔

میں ۔۔ہاں میں ۔۔۔ میں جسموں کا بھوکا ۔۔۔میں ہوس کا پُجاری۔۔۔میں موج مستی کا شوقین۔۔۔میں رنگ و ادا کا قائل۔۔۔میں نغمہء بُبُل کا متلاشی۔۔۔میں کھلنڈرا۔۔۔میں تتلیوں کا شِکاری۔۔۔میں بھنورا۔۔۔میں پروانہ۔۔۔میں اپنی بربادی کا فسانہ کیا لکھوں ۔۔۔میں سیما سے محبت کر بیٹھا لیکن اب نہ سیما ہے نہ محبت ۔۔۔۔صرف درد ہے ۔۔۔صرف سولی۔

جو میرے ہاتھ میں سیما کی لکیر نہیں تھی تو اس میں کوئی ایسے اچھنبے والی بھی کوئی بات نہیں ۔ میں اور سیما ملتے بھی تو کیسے۔ تضاد ہی تضاد تو تھا ہم دونوں میں۔میں سمندر تھا وہ ساحل کی ہوا۔میں شہد کی مکھی کی طرح ہر پھول سے رس چوسنے کا عادی تو سیما اللہ میاں کی گائے جس نے جس کھونٹے باندھ دیا سو باندھ دیا۔ میں مکالمے کا شوقین،مباحثے ، منطق اور دلیل و جوابِ دلیل کا عادی۔سیما بہت اچھا سے شروع ہو کہ جی بہت اچھا پہ ختم ۔

ایسا بھی نہیں تھا کہ سیما شوخ و چنچل نہیں تھی۔ اس میں وہ تمام عادتیں تھیں، وہ سارے رکھ رکھاؤ تھے، وہ سب ناز و انداز تھے جو کہ آج کل کی ماڈرن لڑکیوں کے ہیں پر سیما میں ایک بات اور تھی جو اسے سب سےمنفرد بناتی تھی۔ وہ شکوہ سے نا بلد تھی۔ وہ یہ جانتی ہی نہیں تھی کہ شکوہ کیونکر کیا جا سکتا ہے۔ اس کا ماننا تھا کہ ہونی ہو کر رہتی ہے۔ تو جب ہونی پہ اختیار ہی نہیں تو پھر شکائیت کیسی۔ شکوہ کہاں کا۔ شور کیوں۔

مجھے سیما سے کب ، کیسے اور کیوں محبت ہوئی وثوق سے نہیں کہہ سکتا۔ کیا میں سیما کی دہلیز پہ اپنے دل کی ساری جاگیر تب لُٹا بیٹھاتھا جب میں نے اسے پہلے بار بوائے کٹ کئیے، جینز پہنے شال کندھوں پہ لئیے اپنی طرف آتے دیکھا تھا یا یہ حادثہ تب ہوا تھا جب وہ گھونگٹ نکالے پیا گھر سدھار رہی تھی اور میرے دل کہ دھڑکنیں کوئی ایسا دیپک راگ گا رہی تھیں کہ میری سانسیں جس سے آج تک نا آشنا تھیں ۔

سیما ان لڑکیوں میں سے تھی جس کے بارے میں آپ کچھ اندازہ نہیں کر سکتے کہ وہ اس وقت کیا سوچ رہی ہے۔ جب ہم لان میں بیٹھے تھے اور میں اسے اپنے نئے افسانے کا ہلاٹ سنا رہا تھا تو اس نے بہت آہستہ سے یہ خبر دی کہ اگلے ماہ اسے کچھ لوگ اس کا رشتہ دیکھنے آ رہے ہیں ۔۔۔۔”مبارک ہو”۔۔۔۔ میرے جواب سن کر سیما خاموش ہو گئ۔ حتٰی کہ جب میں نے کہا کہ ایونجر سیریز کی نئی مووی آئی ہے، کیا ارادہ ہے تو اس نے صرف اتنا کہا کہ ” نہیں پھر سہی”۔ اُس کے بعد  سیما تو نہ آئی بس اس کی شادی کا کارڈ آیا۔ کالج کے سب دوستوں کے لئے ایک ہی کارڈ تھا جبکہ ایک کارڈ میرے لئے تھا۔

سیما جا رہی ہے  تب پہلی بار دل ایسا دھڑکا کہ پہلے کبھی نہ دھڑکا تھا ۔ جب سیما چلی گئ مجھے احساس ہوا مجھ میں کچھ ٹوٹ چکا ہے۔ کھانے پینے کا ہوش نہ رہا۔ ماں تین تین بار کمرے میں آتی اور کہتی آخر تجھے ہوا کیا ہے، اتنی کتابیں نہ پڑھا کر۔ میں ماں سےکہتا کہ مجھے کیا ہونا ہے۔

مجھے رہ رہ کہ نعیم یاد آتا تھا۔ نعیم دست شناسی کی الف بے ست بھی نا واقف تھا لیکن ہر سال فن فئیر کے موقعے پہ دست شناسی کا سٹال ضرور لگاتا تھا۔ مقصد ، ماسوائے لڑکیوں کے ہاتھ، ہاتھ میں لے کے بیٹھے رہنے کے کُچھ نہین تھا۔ اوپر سے وہ تھا بھی ملتانی۔ ملتانی لہجے کی مٹھاس ، اُسکی معصومانہ مسکراہٹ اور لچھے دار باتیں۔ سب سے زیادہ رش اُسی کے سٹال پہ ہوتا تھا۔

نعیم بھائی میرا ہاتھ دیکھیں نا پلیز۔۔۔۔ مجھے دست شناسی سے اتنا لگاؤ نہیں ہے نہ مجھے ایسی باتوں پر یقین ہے لیکن صرف اس سوچ کے تحت کہ نعیم کچھ دیر کے لئے ہی سہی پر کسی لڑکی کا ہاتھ نہ پکڑے، اہنا ہاتھ آگے کر دیا ۔۔۔۔کیا میرے ہاتھ میں محبت کی لکیر ہے نعیم؟۔۔۔ نعیم نے کسی ماہر کی طرح میرا ہاتھ پکڑا ۔ کُچھ اسے ادھر اُدھر سہلاتا رہا اور آخر بولا۔۔۔بھائی آپ کے ہاتھ میں تو محبت کیا لکیر ہے نہ خاموشی کی۔۔۔آپ افسانہ نگار ہیں۔۔۔قلمکاری آپ کا پیشہ بھی ہے اور مشغلہ بھی ۔۔۔ آپ کے اندر الفاظ تو بہہ سکتے ہیں ۔۔۔ محبت نہیں۔۔۔ آپ کے ہاتھ میں شور کی لکیر ہے خاموشی کی نہیں۔۔۔آپ محبت بیان کر سکتے ہیں۔۔۔اور خوب بیان کر سکتے ہیں۔۔۔محبت محسوس کرنا آپ کے بس کی بات نہیں۔

ایک نمبر کا جھوٹا تھا نعیم۔ پرلے درجے کھلاڑی ۔ غلط تھا نعیم۔ میں جو ساری زندگی شور کرتا رہا۔ جہاں بولنےکا وقت تھا وہاں لب سی بیٹھا۔۔۔۔صرف ایک بار ۔۔۔صرف ایک بار جو اظہار ہو جاتا تو نصیب کچھ یوں نہ لکھا جاتا۔ پر کیا سیما جانتی تھی۔۔۔کیا سیما کو سب پتہ تھا۔۔۔۔جو پتہ نہ ہوتا تو وہ آخر کیوں یہ کہتی تھی کہ ہونی ہو کے رہتی ہے۔۔۔تو پھر شکوہ کیسا۔۔۔پچھتاوا کیوں۔۔۔ ہاں ہونی ہو کے رہتی ہے۔۔۔ ہاں ہونی ہو گئ۔۔۔۔میں خاموش ہو گیا ۔

ہائے میں نہ آتا۔۔۔میں نہ ہوتا تو بات کُچھ بھی نہ تھی۔ اس رنگ و الم کی دُنیا میں جہاں حاصل ، لاحاصل اور محاصل کی جمع تفریق کے سوا کچھ بھی نہیں، میرا ہونا نہ ہونا کیا معنی رکھتا تھا۔خاص کر جیسا میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ ہر سوال۔کا جواب َخاموشی کے سوا کَچھ نہیں۔ یہاں اندازِ تکلم کا بناؤ سنوار۔۔ وہاں خاموشی۔ یہاں آہ و بقا ۔۔۔وہاں خاموشی۔۔۔یہاں دردِ دل۔۔ ۔وہاں خاموشی۔۔ ۔یہاں جوشِ جنوں ۔ ۔۔وہاں خاموشی ۔۔۔ یہاں چیخ۔۔۔وہاں خاموشی۔۔۔یہاں شورِ قیامت ۔۔۔وہاں خاموشی ۔۔ یہاں آگ کا دریا ۔۔ وہاں خاموشی ۔

بات یہ ہے کہ جب پھونکنے والے نے پھونکنے کا ارادےی باندھا تو فرمایا میں تخلیق کار ہوں، جو بھی تخلیق کرتا ہوں لاجواب تخلیق کرتا ہوں پر اب کی بار جو تخلیق کرنے لگا ہوں اُس میں اپنی پھونک شامل کر رہا ہوں۔اس مخلوق میں اپنا آپ پھونکنے لگا ہوں اس لئے اسے سجدہ واجب نہیں فرض ہے۔ لوگ سوال کرتے ہیں قیامت کب آئے گی ؟۔ وہ اس بنیادی نکتے سے نابلد ہیں کہ قیامت وقوع پزیر ہو ہی نہیں سکتی ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پھونکنے والے کی ذات احاطے میں لائی ہی نہیں جا سکتی ۔ وہ ذات اپنی ہر صفت کے ساتھ مخلوق کے احاطہء سوچ و فکر سے بلند ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ پھونکنے والے کی پھونک احاطے سے باہر ہے۔ جب آدم علیہ السلام میں دم نہ تھا ، آدم بے دم تھا۔ بے دم آدم ۔۔۔آدم بے دم ۔۔۔یہاں دم (پھونک) آیا ۔۔۔وہاں آدم آیا۔ جو دم ہے تو آدم ہے۔ جو دم نہ رہے آدم نہ رہے۔ آدم کیا ہے مٹی ۔۔۔جو مٹی میں دم ہے تو آدم ہے۔۔۔مٹی میں دم نہیں تو آدم نہیں۔ دم جہاں سے آیا ہے وہ بے نظیر ہے اس لئے آدم بے نظیر ہے۔

پھونک چونکہ مخلوق کی نہیں ، خالق کی ہے اس لئے پھونک رُک نہیں سکتی یعنی زندگی رُک نہیں سکتی۔ وہ چلتی رہے گی۔دم آتا رہے گا۔۔۔آدم آتا رہے گا ۔۔۔سجدے ہوتے رہیں گے.

اب سوال یہ ہے کہ قیامت کیسے برپا ہو گی؟۔حساب کتاب کیسے ہو گا؟۔ اعمال نامے کیسے پکڑائے جائیں گے؟۔ جزا و سزا کا تصور کیسے پایہء تکمیل کو پہنچے گا؟۔ اس کے لئے خالقِ کائینات کو خاموشی توڑنی پڑے گی ۔ وہ یہ خاموشی کب توڑے گا یہ اس کی اپنی صوابدید ہے پر جب یہ خاموشی ٹوٹے گی ایک صور پھونکا جائے گا ۔ ایک آواز آئے گی ۔ اے پھونک! رُک جا۔۔تھم جا ۔۔ٹھہر جا۔ یہ ایک حکم ہو گا جو جہاں ہے وہیں گر جائے گا۔سب فنا ہو جائے گا۔

جب سب فنا ہو جائے گا تو ایک بار پھر آواز دی جائے گی ۔ایک بار پھر خاموشی توڑی جائے گی۔ ایک بار پھر پھونکنے والا حرکت میں آئے گا۔ایک بار پھر صور پھونکا جائے گا۔سب اس آواز کی طرف لپکیں گے۔آہ! یہ کیا ہوا۔۔۔آہ! خاموشی کیوں ٹوٹ گئ۔آہ! یہ آواز۔۔۔اب ہر طرف آواز ہی آواز ۔۔۔ہر طرف شور ہی شور۔۔۔ہر طرف نالہ۔۔۔ہر طرف آہ وبکا۔۔۔وقتِ حساب اور آواز۔ اب ایک طرف انعام والے ۔ تم من کی مراد پاگئے۔تم نے خاموشی اختیار کر کے اپنا آپ پہچان لیا۔ آؤ آج تمھارے لئے پھل ہیں۔۔۔نہریں ہیں ۔۔۔باغات ہی. ۔۔۔سکون ہے۔ وہ اس سکون میں ہوں گے کے آواز آئے گی کہ تمھارے لئے ایک انعام اور ہے ۔ پھر انھیں جھلک دکھائی جائے گی۔ یہ ہے وہ پھونکنے والا جس کی تم پھونک ہو ۔مخلوق خالق سے جا ملے گی۔ جب سکون کے دریا میں جھلک کا یہ سمندر داخل ہو گا تو محبت کی آبشار میں روانی آ جائے گی۔یہ کیا ہے۔۔۔ یہ کسی کرن ہے۔۔۔یہ کیسا جلوہ ہے۔ ۔۔دیکھنے والے ڈوب جائیں گے۔ محبت کی سرشاری ہو گی۔سبحان اللہ کی صدائیں بلند ہوں گی۔دریاسمندر میں غرق ہوں گے۔مخلوق کے دم میں دم آتا رہے گا۔محبت پھیلتی جائے گی ۔یہ تھی وہ پھونک جو اشرف تھی۔سجدے اوع وسیع ہوتے جائیں گے۔خاموشیوں کو زبان ملے گی۔محبت عشق کا مقام پا کر امر ہو جائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دوسری طرف جو اپنے من میں ڈوب کے سراغِ زندگی پانے میں ناکام رہے تھے جو باغی تھے۔ سرکشی جن کا شیوہ تھا۔جو خاموش دل کی دھڑکن سے انکاری تھے۔جو خاموشی کی زبان سن کے بھی اَن سُنی کر دیتے تھے وہ نار میں چیخیں گے، چلائیں گے، آہ و بکا کریں گے ،روئیں گےاور فریاد کریں گے ۔ ان کی آوازیں ان کے گلوں میں بیٹھ جائیں گی۔ وہ وہاں کب تک رہیں گے یہ تو جس کی وہ پھونک ہیں وہ ہی جانے لیکن جو کہیں نار میں جلتے ہوئے اِن ناریوں میں سے کسی نے درد اوع جلن کی سختی میں اپنا آپ پہچان لیااور اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا، دوستو اب یہ ہمارا گھر ہے۔۔یہی ہمارا ٹھکانہ ہے۔۔۔یہی آگ ہمارا مقدر ہے لیکن سچ سچ کہو کہ کیا جو ہم نے بویا تھا وہ ہی نہیں کاٹ رہے۔۔۔ہم وہاں تو زبان درازی کرتےرہے لیکن کیا یہاں یہ ممکن ہے کہ ہم اتنا تو مان لیں کہ جس کی ہم پھونک ہیں وہ ناانصاف نہیں۔۔۔یہ جو سزا ہماراےمقدر میں لکھی گئی ہے یہ انصاف کے سوا کچھ نہیں۔۔۔آؤ انصاف کے آگے سرِ تسلیم خم کر کے خاموش ہو جاتے ہیں۔ جو کہیں ایسا ہو گیا تو پھونکنے والے کی قسم نار میں سے چیخ بلند ہو گی ” یہ وہ مخلوق ہے جس کو سجدہ کرنا واجب نہیں فرض ہے”۔اور ناری خاکی کے آگے سجدے میں گر جائے گا۔

Facebook Comments

راجہ محمد احسان
ہم ساده لوح زنده دل جذباتی سے انسان ہیں پیار کرتے ہیں آدمیت اور خدا کی خدائی سے،چھیڑتے ہیں نہ چھوڑتے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply