جمال ِ پادشاہی۔۔ادریس آزاد

عام طورپرکہا جاتاہے کہ امریکی صدر بہت بااختیار ہے اور پاکستانی وزیراعظم بالکل بے اختیار ہے۔ جیسے ابھی اوبامہ نے جب اپنی کتاب میں لکھا کہ پاکستان (ایبٹ آباد) پر حملے کا آخری فیصلہ اُس کا اپناتھا، تو سب کہنے لگے کہ دیکھیے، یہ ہوتی ہے جمہوری حکمران کی طاقت۔ اس کے برعکس پاکستان کے وزرائے اعظم کے بارے میں کہا جاتاہے کہ عموماً اُن کے فیصلے، اُن کے اپنے نہیں ہوتے، بلکہ فوج کے ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب اوبامہ نے ایبٹ آباد پر حملہ کرنے کا آخری فیصلہ سنایا ہوگا، یا جب صدر روزویلٹ نے جاپان پر بم گرانے کا حکم دیا ہوگا، یا جب صدربُش نے عراق پر حملہ کرنے کا حکم دیا ہوگا، یا جب صدرکلنٹن نے پاکستان پر کروز میزائل مارنے کا فیصلہ کیا گیا ہوگا، تو آپ کا کیا خیال ہے کہ وہ فیصلہ خالصتاً اُن کااپنا ہوگا؟ کیا ایسا ممکن ہے؟ یقیناً ایک پورا منصوبہ کسی پکی پکائی کھچڑی کی طرح صدورامریکہ کے سامنے پیش کیا جاتاہے۔ کتنے ہی فوجی جرنیل اور خفیہ ایجنسیوں کے سربراہوں کی رپورٹیں ہوتی ہیں۔ کتنی ہی مشاورت ہوتی ہے اور بالآخر جس وقت امریکی صدر فیصلہ کرنے کے لیے اکیلا چھوڑدیا جاتاہے تو تب تک جس کسی نے اس کے ذہن میں آخری فیصلہ ڈالنا ہوتا ہے، وہ ڈال چکاہوتاہے۔

فرق صرف اتنا ہے کہ جاپان پر بم گرانے سے لے کر افغانستان کو تباہ کرنے تک کے تمام جرائم کی ذمہ داری امریکی جرنیلوں کے سر نہیں آتی بلکہ ایک عوامی نمائندے پر ڈال کر کہہ دیا جاتاہے کہ یہ کام تو فلاں صدر نے کروایا۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ امریکی دفاعی ادارے کسی بڑے امریکی فیصلے کو کسی ایسے طریقے پر ہونے دیں جو اُن کو پسند نہ ہو۔
آسٹریلیا کے وزیراعظم نے افغان حکومت سے باقاعدہ معافی مانگی کہ ان کےکچھ نئے فوجیوں نے ’’اپنا فرسٹ کِل(first kill) انجوائے کرنے کےلیے کچھ افغان شہری بلاوجہ، بس یونہی بھون ڈالے، کیونکہ وہ بطور فوجی اپنا فرسٹ کِل پرفارم کرنا چاہتے تھے۔ آسٹریلیا کےوزیراعظم نے صرف اپالوجائز کیا۔ وہ ان فوجیوں کے خلاف کوئی اقدام نہ کرسکا۔ اور نہ ہی کرسکتا تھا۔ اور نہ ہی کوئی کرسکتاہے۔ اصول کی بات یہ ہے کہ جس ملک میں فوج موجود رہ سکتی ہے اس میں جمہوریت کا شفاف ہونا ممکن ہی نہیں اور جس ملک میں فوج نہیں ہوتی وہاں جمہوریت بھی نہیں ہوتی۔ فوج اور جمہوریت لازم و ملزوم ہیں اور ہمیشہ فوج ہی جمہوریت کو چلاتی ہے۔ اسی نکتے کی وجہ سے اقبال نے جمہوریت کو جمالِ پادشاہی کا لقب دیا تھا۔
جمہوریت امریکہ کی ہو یا برطانیہ کی، جمہوریت آسٹریلیا کی ہو یا بھارت کی، ہمیشہ کوئی بھی بڑا فیصلہ وہاں کے دفاعی ادارے ہی کرتے ہیں۔ ایسے مُلکوں کے صدور صرف فیصلے سنانے کے لیے ہوتے ہیں۔

پاکستان اور امریکی جمہوریت میں فرق یہ ہے کہ پاکستان میں فوج کا وہ عمل دخل جو کسی بھی ملک کی جمہوریت میں فوجوں کا ہوتاہے، عام عوام پرظاہر ہے، جبکہ باقی جمہوریتوں میں فوجی جرنیل اور فوجی ادارے اتنے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں کہ کسی صدر کی مجال نہیں ہوتی، فوج یا دفاعی اداروں کو کبھی ذمہ دارنے ٹھہرانے کی۔
جب ڈونلڈ ٹرمپ جیتا تھا تو کتنی بلند آواز میں یہ بات سب کو سنائی دی تھی کہ رُوس نے امریکی الیکشن کو مینوپُولیٹ کیا ہے۔ روس نے کیسے مینوپولیٹ کیا ہوگا؟ پھر اب دوبارہ امریکی الیکشن کے بعد بھی سب نے ہرطرف سے ایک آواز سنی ہے کہ امریکہ میں دھاندلی ہوئی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اِس بار بھی بیرونی ممالک کی ایجنسیاں امریکی الیکشن کے نتائج پر اثرا انداز ہونے کے عمل میں ملوث رہی ہیں۔ روس پر ہی موقوف نہیں، اسرائیل تک کی ایجنسیاں وائٹ ہاؤس سے لے کر عام ووٹر تک اثرانداز ہوتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب امریکی دفاعی اداروں کے علم میں یہ بات آتی ہوگی کہ ان کے ملک میں کچھ خفیہ ایجنسیاں آگئی ہیں اور وہ الیکشن کے نتائج پر اثرانداز ہونا چاہتی ہیں تو کیا، امریکی دفاعی ادارے یونہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہونگے؟ کیا ان کی اپنی ایجنسیاں دشمن کے مذموم مقاصد کو پورا نہ ہونے دینے کے لیے اپنے ہی الیکشن میں فعّال نہ ہوجاتی ہونگی؟

پاکستان میں عام دنوں میں بھی دوتین سو غیرملکی ایجنسیاں ہر طرح کی سرگرمیوں میں ملوث رہتی ہیں، تو الیکشن کے دنوں میں وہ کس قدر فعّال ہوجاتی ہونگی، یہ سوچنے کے لیے کسی گہری بصیرت کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ان دنوں یعنی الیکشن کے دنوں میں ہماری ایجنسیاں بھی اس غرض سے فعّال ہوجاتی ہیں کہ ہمارے الیکشن کے نتائج پر دشمن کی خفیہ ایجنسیاں اثرانداز نہ ہوسکیں تو ہمارے ہاں یہ بات مشہور کیوں ہوجاتی ہے کہ ہماری ایجنسیاں الیکشن کے نتائج پر اثرانداز ہورہی ہیں؟ حالانکہ وہ تو مُلک کے اندر گھس آنے والے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں اُتری ہوتی ہیں۔ بالکل ویسے جیسے امریکہ میں سی آئی اے اترتی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ہماری جمہوریت زیادہ مضبوط ہے۔ وہ اس لیے کہ ہمارے ہاں عام فوج تو درکنار فوج کے بڑے بڑے جرنیل تک بھی عوام کی تنقید سے محفوظ نہیں رہتے۔ لوگ بے دریغ فوج کے خلاف لگے رہتے ہیں۔ بڑے بڑے جلسے
اور جلوس فوج کے خلاف نکلتے ہیں۔ہمارے سابقہ حکمران ملک سے فرار ہوکر ملک کے دفاعی راز کھول دیتے ہیں، یا وطن عزیز کے خلاف ہرزہ سرائی کے کام میں جُت جاتے ہیں اور بعض تو ہندوستان کا قومی ترانہ ’’بندے ماترم‘‘ تک یوٹیوب کے جلسوں میں گاگا کر سنانے لگ جاتے ہیں، لیکن مجال ہے کہ ہماری فوج نے ان کو کبھی ویسے طریقے پر لگام ڈالی ہو جس طریقے پر امریکی دفاعی ادارے اور ایجنسیاں ڈالتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک بات ہمیں کبھی نہ بھولنی چاہیے اور یہ میں ابھی اوپر بھی کرآیاہوں۔ وہ یہ کہ جن جن ممالک میں فوج کا وجود نہیں ہے، وہاں ابھی تک بھی بادشاہتیں ٹھیک ٹھاک کام کررہی ہیں۔ اور جن جن ممالک میں اب بادشاہتیں مزید نہ چل سکتی تھیں کہ وہاں کے عام لوگ ذرا اب خودشناس و خودنگر ہوچکے ہیں، تو وہاں کے شاہی نظام نے اپنے شاہی دستوں کے ذریعے جمہوریتیں نافذ کروا رکھی ہیں۔ عام شہری کو آزادی کی نیلم پری کا جھانسہ دے کر اُن پر آج بھی ان کے شہنشاہ مسلط ہیں جو ہمیشہ طاقت کو اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں تاکہ دنیا کو اپنی مرضی سے چلاسکیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply