آج جمعہ کی نماز پڑھنے کے بعد بے چینی بڑھ گئی، بلکہ سکون کی بجائےاضطراب پیدا ہو گیا، اس بےچینی کی وجہ نماز ہرگز نہیں بلکہ مولوی صاحب کا وعظ میں ایک حدیث سنا کر کہ حضور نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ جو مجھ سے محبت رکھتا ہے فقر فاقہ کے لئے تیار رہے۔۔۔ مجھے سوچ میں مبتلا کر دیا،کیونکہ ابھی تو میں نے بنک سے نئی گاڑی نکلوائی ہے اور فلیٹ کی قسطیں بھی آخری مراحل میں ہیں اور زندگی آسودگی کی طرف بڑھنے لگی ہے۔ دل تھا کہ کچھ وقت نکال کر اب مذہب کی کچھ تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دوں ۔ کیونکہ بچے اب اسکول جائیں گے تو کچھ مذہبی ہوں ۔ اور والدہ کو عمرہ کرانا چاہتا تھا، میں یہ اعتراف کرتا ہوں کہ مجھے نبی کریمﷺ سے محبت ہے،لیکن میں دنیا میں غربت کی زندگی بھی گزارنا پسند نہیں کرتا۔ اسی سوچ میں الجھا ہوا دفتر واپس آیا۔ آج شاید میرے اندر کا انسان کھل کر سامنے آیا تھا جو خوش نہیں تھا،کولیگ نے پوچھا کہ کیوں منہ اُترا ہوا ہے تو نہ چاہتے ہوئے بھی سچ میری زبان پر آگیا کیونکہ مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ کہاں سے دل کو مطمئن کروں۔ غالب والا حال تھا میرا کہ
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
کولیگ قہقہہ مار کر ہنس دیا بولا آج دفتر کے بعد میں تمہیں اپنے mentor سے ملواؤں گا ۔لوگ تو اسے “بابا” کہتے ہیں پر مجھے وہ میرا استاد اور ایک سوشل ایکٹویسٹ زیادہ لگتا ہے ۔
تقریباً شام سات بجے ہم ان کے گھر پہنچے، وہ ابھی نماز پڑھ رہے تھے۔ باہر پورچ میں ان کی جدید ماڈل کی دو گاڑیاں کھڑی تھیں،ایک آف روڈ کی بڑی گاڑی اور ایک شہری استعمال کی کار۔ ان کے صاف ستھرے ملازم نے ہمیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا ۔ان کی بیٹھک دنیا کے چند قیمتی ڈرائنگ روموں سے بھی شاید ایک قدم آگے تھی۔ میں نے اپنے دوست کی طرف دیکھ کر اشارہ کیا کہ یہ کہاں آگئے؟ اس نے ہاتھ کے اشارے سے پُرسکون رہنے کا کہا۔۔
اتنی دیر میں ملازم پانی اور چائے بغیر پوچھے لے آیا اور کہا کہ بابا جی آتے ہیں تب تک آپ چائے پئیں ۔ مجھے یہاں آتے ہی ایک پُرسکون احساس ہوا، لیکن حیرت زیادہ۔۔ لیکن چائے کی ضرورت زیادہ تھی،میں چائے پینے لگا، تھوڑی دیر میں ایک خوش پوش درمیانے قد کے شخص اندر داخل ہوئے۔ ان کے آنے کے ساتھ ہی ایک قیمتی پرفیوم کا جھونکا بھی آیا ۔ وہ مسکراتے ہوئے آگے بڑھے ۔میرا دوست ان سے لپٹ گیا انہوں نے پدرانہ شفقت سے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔ میں نے ہاتھ ملایا،بہت شفقت سے ملے اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا ۔۔ چائے پی لی آپ نے ؟
جی ۔۔ جی۔۔ میرے منہ سے نکلا۔۔ کچھ سموسہ وغیرہ کھایا ۔۔؟
جی بالکل میں نے تکلف سے جواب دیا۔
وہ صوفے میں دھنستے ہوئے بولے۔۔ بیٹا، نبی کریمﷺ اور تمام بزرگان دین کا یہ اصول رہا ہے کہ آنے والے مہمان کی پہلے خاطر تواضع کرتے اور پھر آنے کا مقصد دریافت فرماتے۔ تو اس لئے میں اپنے ملازموں کو بتایا ہوا ہے کہ میرے آنے سے پہلے مہمان کی حاضر توفیق خاطر مدارت کر دی جائے ۔
میں مسکرا کر خاموش ہو گیا۔
انہوں نے میرے دوست کی طرف چہرہ کر کے آنے کا مقصد پوچھا۔۔ تو اس نے میری طرف اشارہ کر کے کہا ۔ بابا جی! اس کو کوئی پریشانی ہے، آج جمعہ کی نماز مولوی صاحب سے کوئی حدیث سن کر ڈر گیا ہے۔۔ اور اسکے ساتھ ہی قہقہہ لگایا۔۔
انہوں نے معنی خیز نظروں سے مجھے دیکھا۔۔ تو میں بول پڑا کہ ۔۔۔
سر ! کیا نبی کریمﷺ سےمحبت کرنا ،غریب کر دیتا ہے؟؟؟
وہ چونک پڑے اور پھر دھیرے سے مسکرائے۔۔ بولے تم شاید اس حدیث پاک کی بات کر رہے ہو۔۔
سعید بن ابوسعید خدری اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اس نے رسول اللہ ﷺ سے اپنی محتاجی کی شکایت کی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ابوسعید! صبر کرو، کیوں جو بندہ مجھ سے محبت کرتا ہے، اس کی طرف فقر و فاقہ اتنی تیزی کے ساتھ بڑھتا ہے، جیسے سیلاب (کا ریلہ) وادی کی بلندی سے اور پہاڑ ی چوٹی سے پستی کی طرف بڑھتا ہے۔“
میں نے نظریں جھکا لیں اور بولا میں نبی کریمﷺ سے محبت بھی کرتا ہوں لیکن غریب بھی نہیں ہونا چاہتا۔۔
انہوں نے ایک قہقہہ لگایا اور بولے یار ۔۔ گھبراؤ نہیں، نبی کریمﷺ نے فقر و فاقہ ارشاد فرمایا ہے غربت اور تنگی نہیں۔ ۔
میں نے کہا۔۔۔ فقر وفاقہ تو غربت ہی کی نشانی ہے نا؟؟
ان کی آنکھوں میں ایک جلال کی چمک آئی اور بولے۔۔ نہیں بالکل نہیں ایسا نہیں ہے۔
غربت دراصل عربی کا لفظ ہے،جس کے معنی ہیں ‘ وطن ،اپنے گھر سے دوری۔ اسی سے غروب ہونا بھی ہے ۔ جس کے معنی چھپ جانا ہے، اور پرانے زمانے میں پردیس میں تکالیف ہوا کرتی تھیں۔
سنو! جسے ہم غربت کہتےاس کو عربی میں “عسرت ” کہتے ہیں جس کے معنی ہیں( دشواری، قِلّت، کمیابی، کمی، کمیاب ہونا، تنگ دستی، تنگی، مفلسی، غریبی، کنگالی)
جیسا کہ اللہ کریم نے سورہ الم نشر میں ارشاد فرمایا ۔
فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا
ترجمہ: پس بے شک ہر مشکل ( تنگدستی مفلسی) کے ساتھ آسانی ہے۔۔
اور یہ آیت اسی سورت مبارکہ میں دو مرتبہ دہرا کر اللہ کریم نے ارشاد فرمایا کہ جب عسرت یعنی مفلسی ہو تو اس کے بعد یقینی آسانیاں دوں گا ۔
اب آپ کو اس حدیث پاک میں موجود لفظ “فقر” کا مطلب سمجھاتا ہوں،جس سے آپ ڈر گئے ہیں، وہ مسکراتے ہوئے بولے۔۔۔
بیٹا! فقر کے لغوی معنی “احتیاج” کے ہیں۔ عام طور پر اس سے بھی مراد تنگ دستی’ غربت’ مفلسی اور ناداری ہی لی جاتی ہے۔ لیکن دینِ اسلام میں ”فقر” وہ راہ یا وہ طریقہ مراد ہے جو بندے اور اللہ کے درمیان سے تمام حجابات کو ہٹا کر بندے کو اللہ کے دیدار اور وصال سے فیض یاب کرتا ہے۔۔۔اور یہ اختیاری ہے۔۔ اور انسان اللہ کی خوشنودی کی خاطر اپنا مال وہاں لٹانے کو تیار ہوجاتا ہے۔۔
تب انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہا “اختیاری” کا مطلب جانتے ہو؟؟
میں نے کہا، نہیں۔۔۔
وہ بولے اس کا مطلب ہے کہ کوئی شخص اللہ اور رسول کریمﷺ کی محبت میں جانتے بوجھتے ہوئے اتنا بانٹتا ہے کہ خود محتاج ہو جائے “یہ اختیاری ہے” ۔ حالانکہ وہ مفلس نہیں ہوتا اور اس کی قرآن میں ایک آیت سے تشریح یوں ہوتی ہے۔
ترجمہ: اور وہ اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔ہم جو تمہیں کھلاتے ہیں تو خاص اللہ کے لیے، نہ ہمیں تم سے بدلہ لینا مقصود ہے اور نہ شکرگزاری (سورہ الدھر)
یعنی یہ لوگ جب لوگوں پر مال خرچ کرتے ہیں تو ان کے شکریہ کے بھی طلب گار نہیں ہوتے۔
ایک واقعہ مختلف اولیاء کرام سے منسوب ہے مگر میں تمہیں فقر کا صحیح مفہوم سمجھانے کو اس طرح بتاتا ہوں۔
حضرت سیِّدُنا شقیق بن ابراہیم بلخی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کا بیان ہےکہ حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن ادہم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم نے مجھ سے فرمایا: مجھے اپنی حالت کی خبر دیجئے۔میں نے جواب دیا: اگر کچھ مل جائے تو کھالیتا ہوں اور نہ ملے تو صبر کرتا ہوں ۔یہ سن کر انہوں نے ارشاد فرمایا: اس طرح تو ہمارے بلخ کے کتے بھی کرتے ہیں ۔ میں نے پوچھا: پھر آپ کا طرزِ عمل کیا ہے؟ ارشادفرمایا: اگرمل جائے تو ایثار( بانٹنا) کردیتا ہوں اور نہ ملے تو شکر ادا کرتا ہوں ۔
یعنی فقر کا مطلب اگر کچھ مال ہاتھ آجائے تو اسے بانٹ کر خود فاقہ پسند کرلینا ہے تاکہ دوسرے مسلمان تک کچھ نہ کچھ پہنچ جائے بھلے خود بھوکا رہنا پڑے یا کپڑوں میں پیوند ہی کیوں نہ لگوانا پڑے مگر نیا کپڑا کسی ضرورت مند کو دے دیا جائے۔۔ جس طرح نبی کریمﷺ بیت المال میں آئے ہوئے مال کو بانٹ کر اس میں جھاڑو پھیر کر گھر جاتے جبکہ خود فاقہ سے ہوتے۔
فقر کی چند مثالیں نبی کریمﷺ کی ذات اقدس سے دیکھتے ہیں۔۔
حضرت بلال فرماتے ہیں۔
رسول اللہﷺ کے پاس جب بھی کوئی مہمان آتا آپ اس کو سیدنا بلالؓ کے پاس کھانا کھانے یا کپڑا وغیرہ لینے کے لیے بھیج دیتے۔ بیت المال اکثر و بیشتر خالی ہوتا، لیکن پھر بھی آپ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ آپ ﷺ کسی ضرورت مند اور حاجت مند کو خالی ہاتھ نہ لوٹاتے۔ سیدنا بلالؓ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے حاجت مند کو بازار لے جاتے۔ ادھار پر اس کو ضرورت کی اشیاء دلاتے اور بعد میں رسول اللہﷺ کے پاس اضافی رقم آنے پر ادھار لوٹا دیتے۔ سرکاردوعالمﷺ کی عادت تھی کہ مال کی صورت میں آپﷺ کے پاس جو کچھ بھی آتا آپ ﷺ اسے فوری طور پر اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیتے۔
حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضورﷺ حضرت بلالؓ کے پاس تشریف لے گئے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ ان کے پاس کھجور کے چند ڈھیر ہیں۔ آپ ﷺ نے پوچھا۔ ’’اے بلال یہ کیا ہے؟‘‘
انہوں نے عرض کیا: ’’آپ ﷺ کے مہمانوں کے لیے یہ انتظام کیا ہے۔‘‘
حضرت بلالؓ کا منشا یہ تھا کہ جب بھی وہ آئیں تو ان کے کھلانے کا سامان پہلے سے موجود ہو۔
آپ ﷺ نے فرمایا۔ ’’کیا تمہیں اس بات کا ڈر نہیں ہے کہ دوزخ کا آگ کا دھواں تم تک پہنچ جائے؟‘‘ (یعنی اگر تم ان کے خرچ کرنے سے پہلے ہی مر گئے تو پھر ان کے بارے میں اللہ کے ہاں سوال ہو گا) اے بلال! خرچ کرو اور عرش والے سے کمی کا ڈر نہ رکھو۔‘‘
ایک مرتبہ نبی کریمﷺ کے پاس 4 اونٹ سامان غلہ اور کپڑے وغیرہ آئے۔۔ آپ ﷺ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بلا کر ارشاد فرمایا کہ اس سے جو قرض نبی کریمﷺ اور ان کے گھرانے پر ہے وہ اتار کر باقی مال لوگوں میں خرچ (ایثار)کر دیں۔
واپسی پر میں نے عرض کیا:’’اللہ کے رسولﷺ کے ذمہ جتنا قرض تھا وہ سب اللہ نے اتروا دیا اب کچھ باقی نہیں رہا۔‘‘
آپ ﷺ نے فرمایا۔ ’’اس میں سے کچھ بچا ہے؟‘‘
میں نے کہا۔ ’’جی ہاں دو دینار بچے ہیں۔‘‘
قرض ادا کرنے کے بعد دو یا ڈیڑھ اوقیہ چاندی بچی تھی لیکن وہاں سے مسجد آتے آتے حضرت بلالؓ لوگوں کو دیتے چلے آئے ہوں گے اس لیے جب مسجد میں پہنچے تو صرف دو دینار باقی رہ گئے۔
آپ ﷺ نے فرمایا۔ ’’انہیں بھی تقسیم کر دو تاکہ مجھے راحت حاصل ہو جب تک تم انہیں خرچ کر کے مجھے راحت نہیں پہنچا دیتے میں اس وقت تک اپنے کسی گھر میں نہیں جاؤں گا۔‘‘
چنانچہ اس دن ہمارے پاس کوئی نہیں آیا (اور وہ خرچ نہ ہوسکے) تو حضورﷺ نے وہ رات مسجد میں گزاری اور اگلا دن بھی سارا مسجد میں ہی گزرا شام کو دو حاجت مند سوار آئے۔ میں ان دونوں کو لے گیا اور ان دونوں کو کپڑے پہنائے اور غلہ بھی دیا۔ جب آپ ﷺ عشاء سے فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے مجھے بلایا اور فرمایا: ’’جو تمہارے پاس بچا تھا اس کا کیا بنا؟‘‘
میں نے عرض کیا: ’’اللہ تعالیٰ نے اس کے خرچ کرنے کی صورت بنا کر آپ ﷺ کی راحت کی صورت پیدا کر دی ہے۔‘‘
آپ ﷺ نے خوش ہو کر فرمایا۔۔۔ اللہ اکبر اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ پھر وہاں سے آپ ﷺ چلے اور میں آپ ﷺ کے پیچھے پیچھے چلا۔ آپ ﷺ اپنی ازواجِ مطہرات میں سے ایک ایک اہلیہ محترمہ کے پاس گئے اور ہر ایک کو الگ الگ سلام کیا اور پھر جس گھر میں رات گزارنی تھی وہاں تشریف لے گئے ۔۔ کئی مرتبہ حضور نبی کریمﷺ بیت المال کی آخری کجھور تک بانٹ دیتے اور خود تین تین دن کا فاقہ ہوتا ۔۔ ایک دن حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے آپ کے چہرے اقدس پر بھوک کا اثر دیکھا اور خود بھی آپ کو بھوک لگی تھی تو ایک یہودی کا کام کر کے 26 کھجوریں کما کر لائے اور حضور کریمﷺ کو بھی کھلائیں اور خود بھی کھائیں۔۔ یہ فقر ہے۔۔
ایک مرتبہ کسی رئیس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خوبصورت کرتہ بھیجا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے زیب تن فرما کر باہر تشریف لائے تو ایک صحابی نے بہت تعریف کی کہ حضور نبی کریمﷺ کا کرتہ بہت خوبصورت ہے ۔۔ آپ ﷺ واپس گھر تشریف لے گئے اور اپنا پرانا کرتہ زیب تن فرما کر نیا کرتہ ان صحابی کو عطا فرما دیا۔۔
کیا تمہیں میری بات بات سمجھ آ رہی ہے۔ انہوں نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔۔
میں نے اثبات میں سر ہلایا۔۔
انہوں نے کہا ،تم نوجوان جب نبی کریمﷺ کو سوچتے ہو یا مولوی بات کرتے ہیں تو ایک غریب اور فاقے کرنے والے نبی کا تعارف کرایا جاتا ہے۔۔ آج میں تمہیں نبی کریمﷺ کے اثاثوں کے بارے میں بتاتا ہوں ۔۔ سب سے پہلے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان پاک کی مالی استداد کے بارے میں یاد رکھو کہ آپ ﷺ کے والد صاحب حضرت عبداللہ کی جان بخشی کی دیعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا نے 100 سرخ اونٹ دے کر بچایا تھا۔۔ اگر ایک اونٹ 2 لاکھ کا ہے تو سرخ اونٹ کی قیمت 5 لاکھ ہو گی۔۔ اس لحاظ سے کم وبیش 5 کروڑ روپے بنتے ہیں ۔۔ اور آج بھی ہمارے پاکستان میں شائد کم ہی لوگ ہوں گے جن کے پاس 100 اونٹ ہوں۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذاتی استعمال کی اشیاء کو پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔۔۔
•حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلحہ
تلواریں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جملہ 9 تلواریں تھیں اور آج بھی وہ تلواریں پوری آب و تاب کے ساتھ محفوظ ہیں۔ ان 9 تلواروں میں ذوالفقار، البتار، الماثور، الرسوب، المخذم، حتف،قلعی، القضیب اور العضب شامل ہیں۔ ان میں “الرسوب” وہ تلوار ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خاندان میں کہیں پشت سے منتقل ہوتے ہوئے آپ کو مل گئی، یہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وراثتی تلواروں میں سے ہے۔ اس پر ہیرے جواہرات جڑے ہوئے تھے۔۔
نیزے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس 5 نیزے تھے
زرہ: حضرت پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی سات زرہیں تھیں:
کمانیں: احادیث میں حضرت پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی چھ کمانوں کا زکر ہے۔۔
ڈھالیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی 3 ڈھالیں تھیں۔
•اونٹ گھوڑے، خچر ،گدھے اور بکریاں۔۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سات گھوڑے تھے
پانچ خچر تھے جن میں سے اکثر قریبی ممالک کے بادشاہوں اور رئیسوں نے ارسال کیا تھا،حضورﷺ تین گدھے تھے
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سانڈنیاں یعنی اونٹنیاں سواری کی تھی جن کے نام – ١- قصوی ٢- عضباء ٣- جدعا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دودھ دینے والی اونٹنیاں پینتالیس 45 تھیں۔۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سو بکریاں تھیں – اس مقدار سے زیادہ نہ ہونے دیتے تھے اور جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تو ایک بکری ذبح کرلیتے تھے –
اسی طرح آپ ﷺ کی 11 ازواج المطہرات کے گیارہ علیحدہ علیحدہ حجرات تھے۔۔ یہ بات ازواج المطہرات کےفقر کی شان ہے کہ وہ نہائت سادہ حجرات میں رہائش پزیر رہیں ۔۔ تم لوگ جب حجرہ سنتے ہو تو ایک ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی تصور کرتے ہو۔۔ یاد رکھو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ مبارک میں نبی کریمﷺ اور دو اصحاب نبی کریمﷺ آرام فرما ہیں۔۔ جبکہ حضرت عیسی علیہ السلام کی جگہ خالی رکھی گئی ہے۔۔ وہ جب فتنہ دجال سے نبٹ کر زندگی گزار کر وفات پائیں گے تو یہاں ابدی آرام فرما ہوں گے۔۔ اس لئے بیبیوں کے حجرات کو اگر آج کے زمانے کا نام دیا جائے تو انہیں studio apartment کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔۔
میری آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں ۔۔ اور میرے منہ سے صرف یہ نکلا کہ۔۔۔ کیا ؟؟؟ واقعی۔۔۔
وہ بولے میں تمہیں ایک مزے کی بات اور بتاتا ہوں۔۔ آج تم سب کسی اونٹ والے ،بکری والے یا گدھے رکھنے والے کو اس لئے غریب سمجھتے ہو کیونکہ اس کے ایک گھوڑے ،اونٹ کا موازنہ اپنی گاڑی سے کرتے ہو جبکہ ایسا نہیں کرنا چاہیے، تمہیں اس زمانےکا موازنہ آج کے زمانے سے کرنا چاہیے ۔
کیسے ؟؟؟ میں نے پوچھا۔۔
سنو ! قرآن مجید کی ایک آیت ہے۔۔
ترجمہ: اور ان سے لڑنے کے لیے جو کچھ قوت سے اور صحت مند گھوڑوں سے جمع کرسکو سو تیار رکھو کہ اس سے اللہ کے دشمنوں پر اور تمہارے دشمنوں پر اور ان کے سوا دوسروں پر رعب پڑے، (انفال)
اس آیت سے دشمن سے مقابلے کی تیاری کا حکم ہے ، اور اس زمانے کی بہترین اور تیز رفتار چیز “گھوڑے” تھے ۔ لیکن اجتہاد کے زریعے مسلمانوں نے وقت کا بہترین ہتھیار اور ساز وسامان لیا ہے۔۔ اسی لئے آج آپ کا ملک ایک ایٹمی ملک ہے۔۔ اگر قران کے عین ترجمہ کے مطابق ایک ارب گھوڑے بھی لے لئے جاتے۔تو ایک ایٹم بم انہیں فنا کر دیتا۔۔ اس سے ثابت ہوا کہ اس وقت کا جنگی اونٹ یا گھوڑا آج کا ٹینک یا جہاز ہوا!!!! اس لحاظ سے اگر ہم یہ موازنہ کریں کہ حضور نبی کریمﷺ اگر آج کے زمانے میں ہوتے تو آپ کے اثاثہ جات کیا ہوتے۔۔ تھوڑی دیر کو تصور کرو کہ
اس زمانے کی ایک اونٹنی صحرا اور سفر کے کام آتی تھی تو آج یہ کوئی 4 ویل ڈرائیو جیپ ہو گی ۔یعنی لینڈ کروزر۔ اور چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیاں اعلی نسل کی تھیں ۔۔ تو فرض کر لو 3 اونٹنیاں تین جدید لینڈ کروزر ہوئیں ۔۔
اس زمانے کے اعلیٰ نسل گھوڑے آج کی مرسیڈیز کار یا چلو تم کرولا سمجھ لو تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس 7 گھوڑے تھے۔
گدھوں اور خچر کو آج کے زمانے کی پک اپ گاڑی سمجھ لو مال اور سامان آتھانے والے آج ایک پک اپ کی قیمت 50 سے 80 لاکھ ہے۔۔۔ تو نبی کریمﷺ کے پاس 5 خچر اور تین گدھے تھے۔۔
اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس 100 بکریاں ہر وقت موجود رہتی تھیں۔۔ اور 45 اونٹنیاں جو گھر کے لئے دودھ وغیرہ کا انتظام چلاتیں۔۔ دودھ والی ایک اونٹنی کی قیمت کم سے کم 2 لاکھ لگا لو تو 90 لاکھ مالیت کی صرف اونٹنیاں تھیں ۔ اور ایک بکری کی قیمت کم سے کم 15000 لگا لو تو۔ پندرہ لاکھ روپے صرف بکریوں کی قیمت ہو گی۔۔
اب آجاؤ ہتھیاروں کی جانب۔۔
تلوار کو آج کی جدید ترین آٹومیٹک بندوق تصور کر لو ۔۔ تو اس کی مالیت کم از کم 5 لاکھ ہو گی۔۔ تو 9 تلواریں 9 مختلف قسم کی جنگی بندوقیں مان لو تو آج کے 45 لاکھ کی صرف بندوقیں ہوئیں۔۔
اسی طرح نیزے کو راکٹ لانچر یا شارٹ رییج میزائل تصور کرو اور کم از کم قیمت کا تصور کر لو ۔۔ اسی طرح زرہ اور ڈھال آج کل کی body Armour ہوں گی جس کی کم سے کم قیمت بھی 200 ڈالر ہو گی۔۔ جو پاکستانی 33 ہزار روپے بنتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی 7 زرہیں اور تین ڈھالیں تھیں۔۔ جو کم وبیش آج کے ساڑھے تین لاکھ بنتے ہین۔ یہ سب میں تمہیں موازنے کو بتا رہا ہوں ۔ کیونکہ تم سب اپنے نبی کریمﷺ کو غریب تصور کرتے ہو۔۔ لیکن یہ یاد رکھو کہ آپ نبی کریمﷺ کا یہ سامان اکثر یہودیوں کے پاس گروی رہتا تاکہ غریب اور نادار مسلمانوں اور مسافروں کی خدمت اور صروتوں کو پورا کیا جا سکے۔۔ دنیا کے کسی نبی کو اللہ نے یہ اتنا بڑا اختیار اور صاحب حیثیت نہیں بنایا تھا جتنا ہمارے نبی کو اللہ نے عطا کیا۔۔ حضرت سلیمان علیہ السلام جو بادشاہ تھے ان کی کل سلطنت 15 ہزار مربع میل پر تھی جبکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام اور خادم حضرت عمر رضی اللہ عنہ 22 لاکھ مربع میل پر حکمران تھے۔۔
اب میں تمہیں تمہارے نبی کریمﷺ کے خرچ اور خیرات کرنے کا بتاتا ہوں ۔ وہ خیرات اور قربانی جو نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اور اپنے گھر والوں کی جانب سے فرماتے تھے۔۔
غزوہ حنین کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک سردار کو 4500 بکریاں عطا کیں ۔۔ جن کی آج مالیت 4 کروڑ سے زیادہ بنتی ہے۔ اسی طرح نو مسلم سرداروں کو 100 اونٹ اور 40 اوقیہ چاندی عطا فرمائی ۔ یہاں تک کی عرب کے سردار بول اٹھے کہ نبی کریمﷺ تو اتنا عطا کرتے ہیں کہ فقر وفاقہ کا غم مٹ جاتا ہے۔۔
جب آپ ﷺ حجتہ الودع پر تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جانب سے 100 اونٹوں ایک بکری اور ازواج المطہرات کی جانب سے ایک گائے کی قربانی کی۔ اگر ان کی کل مالیت آج کے دور میں لگائی جائے اور ایک اونٹ 2 لاکھ کا تصور کیا جائے تو 2 کروڑ مالیت کے صرف اونٹ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذبح فرمائے۔۔ لیکن اس سب کے باوجود آپ کریمﷺ فرماتے کہ
(اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقَرُ مِنِّیْ)
ترجمہ: فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جن کا لقب ابوالقاسم ہے یعنی سب سے زیادہ بانٹنے والے یا سب بانٹنے والوں کے باپ، لیکن اپنی ذات کے لئے فقر اختیار کیا۔۔ تو اس سے مراد یہ قطعی نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غریب تھے۔۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ فقر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اختیار کیا تھا۔۔ بخاری شریف کی ایک حدیث پاک ہے کہ۔۔
”اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي“ یعنی میں ہی تقسیم کرنے والا ہوں اوراللہ ہی عطا فرماتا ہے۔
تمہیں ایک راز کی بات بتاوں،؟ انہوں نے میری طرف دیدے مٹکاتے ہوئے کہا۔۔
جی ضرور بتائیں ۔۔ مین جو ابھی تک حیرت اور کم عقلی کے دریا میں غوطہ زن تھا ۔۔ چونک کر بولا۔۔
نبی کریمﷺ نے جو یہ کہا نا کہ مجھ سے جو محبت کرتا ہے فقر وفاقہ کے لئے تیار ہو جائے۔۔ اس میں ایک اشارہ ہے۔۔کہ اسے دولت شان و شوکت بکثرت ملنے والی ہے۔۔ تاکہ وہ پھر فقر اختیار کرے جو کہ نبی کی سنت اور دلربائی ہے۔۔ کیونکہ قرآن میں اللہ کریم اپنے بندوں سے ارشاد فرماتا ہے۔۔کہ
يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاۤءُ اِلَى اللّٰهِۚ وَاللّٰهُ هُوَ الْغَنِىُّ الْحَمِيْدُ
ترجمہ؛ لوگو، تم ہی اللہ کے محتاج ہو اور اللہ تو غنی و حمید ہے (فاطر)
عام ترجمہ کرنے والوں نے یہاں فقراء سے مراد محتاج لیا ہے۔۔ جبکہ اولیاء اللہ کے نزدیک اس آیت کا ترجمہ کچھ یوں ہے کی
اے لوگو ۔۔اللہ دینے والا ہے اور تم سب بانٹنے والے۔۔
یہ جو آج کے لبرل ایک گاڑی یا سوزوکی رکھ کر نبی کریمﷺ اور صحابہ کے فقر کو غربت سمجھتے ہیں اور مذاق اڑاتے ہیں ۔۔ دراصل ان کی اپنی حالت نبی کریمﷺ کے زمانے میں ایک خچر یا گدھا رکھنے والوں کے بھی برابر نہیں۔۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ نبی کریمﷺ کو اللہ نے جہانوں پر رحمت بنا کر بھیجا ہو ۔۔ اور ان زمانون اور جہانوں میں اپنے غلاموں پر جان نثاروں پر بانٹنے کے لئے خزانے نہ عطا کئے ہوں۔۔
“حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں جامع کلمات کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہوں اور رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے اور جب میں سویا ہوا تھا اس وقت میں نے خود کو دیکھا کہ زمین کے خزانوں کی کنجیاں میرے لیے لائی گئیں اور میرے ہاتھ میں تھما دی گئیں۔‘‘( متفق علیہ)
آج پہلی مرتبہ مجھے احساس ہوا کہ ہمیں ہمارے نبی کریمﷺ کے بارے کچھ بھی علم نہیں۔۔ میرے دل سے وہ خوف جو غربت و افلاس کا تھا وہ شائد میری آنکھوں میں شرمندگی کی نمی بن کر تیرنے لگا۔۔
نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا
ساتھ ہی منشیء رحمت کا قلمدان گیا
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں