• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عُمر مقصدِ زندگی، عقل اور ایمان کا باہمی تعلق / رضوان خالد چوہدری

عُمر مقصدِ زندگی، عقل اور ایمان کا باہمی تعلق / رضوان خالد چوہدری

حیوان اور انسان میں مشترک بات یہ ہے کہ دونوں حیوان ہی پیدا ہوتے ہیں، بیشتر انسان مرتے وقت بھی حیوان ہی ہوں گے اگرچہ انسانوں کے ہاں پیدا ہُوئے ہر فرد کے پاس یہ موقع بہرحال موجود ہوتا ہے کہ اپنا اور حیوان کا فرق جان کر انسان بننا چُن لے۔

عمومی معاملہ یہ ہے کہ انسانوں میں حیوانی جبلّت اُنکی زندگی کی ابتدائی دو دہائیوں میں زیادہ ہو گی، ذہین تو وہ ان دہائیوں میں بھی ہو گا لیکن بعض جانور اور چرند پرند بھی کافی ذہین ہو سکتے ہیں،ان دہائیوں میں بھی وہ محبت یا نفرت کرے گا لیکن بعض جانور بھی محبت اور نفرت سے آشنا ہوتے ہیں۔

سماجی زندگی یا اپنی منفرد ضروریات اور خواہشات کی پہچان، ذہانت، محبت یا ناپسندیدگی وغیرہ جیسے جذبات آدمی کو حیوان سے ممتاز نہیں کرتے، عقل کی شعوری اور سوچی سمجھی پریکٹس اُسے پیدائشی حیوان سے انسان بناتی ہے۔

ذہانت عقل میں ٹرانسلیٹ نہ ہو تو فرد فقط ذہانت استعمال کرے گا، یہ پریکٹس حیوانی جبلت سے چھنی ضروریات کی فروانی کی کوشش اسکا مقصدِ حیات بنا دے گی۔

عقل البتہ کسی فرد کو اپنا حیوانی عکس خود سے الگ کر کے دیکھ لینے کی صلاحیت سے سرفراز کر دیتی ہے۔
بیشتر افراد عموماً اپنی زندگی کی تیسری دہائی میں عقل سے آشنا ہوتے ہیں، یہ شناسائی بہرحال عارضی ہو گی۔

یعنی انسانوں کے ہاں پیدا ہونے والے افراد کی زندگی کے پہلے بیس سال کا مقصد یہ ہے کہ وہ اس جہان کے حقائق سے متعلق جتنی ممکن ہو جانکاری حاصل کر لیں، پھر اگلی دہائی میں ان کی کسوٹی عقل کے استعمال سے اس جہان میں اپنی منصفانہ پلیسمنٹ کی ہو گی۔

زندگی کی چوتھی دہائی کی شروعات تک اپنی حقیقی اور حیوانی ضروریات کو الگ الگ دیکھنے کی پریکٹس پُختہ نہ کر پانے اور اسی فرق کے مطابق عمل نہ کر سکنے والے افراد اُتنی ہی تیزی سے دوبارہ حیوان بننے کا سفر شروع کر دیتے ہیں جتنی تیزی سے اُنہوں نے اپنی زندگی کی دوسری دہائی کے بعد حیوانیت سے انسانیت کا سفر شروع کیا تھا۔
یعنی عقل سے انسان کی شناسائی عارضی ہوا کرتی ہے۔
گویا یہ تیس سے چالیس سال کی عمر کا درمیانی حصہ ہے جو زندگی کے مقصد کا تعین کرتا ہے۔
تبھی قرآن نے چالیس کی عمر کی توبہ کا خاص انداز میں ذکر کیا۔

جس نے یہ عمر سے توبہ نکال دی ایسا نہیں ہے کہ پھر اسکی توبہ قبول نہیں ہو گی، یہ البتہ سچ ہے کہ پھر ہر گزرتے دن یہ امکان کم ہوتا جائے گا کہ وہ توبہ کرے۔
کیونکہ یہ امکان کم ہوتا جائے گا کہ وہ عقل کے کسی نئے پہلو سے آشنا ہو یہاں تک کہ کمزور تر ہو جانے کے بعد جبلت سے پھُوٹی حیوانی ضروریات کا شعور پر پڑا پردہ ہٹے۔ ایسا ہونے پر بھی چونکہ عقل اُس سے جدا ہو چکی ہو گی لہٰذا وہ احساس ضیاع مایوسی اور غم کا شکار ہو جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اہم سوال یہ ہے کہ عقل بڑھتی کیسے ہے، اسکی ایسی مستقل ہمراہی کو یقینی کیسے بنایا جائے کہ یہ مرتے دم تک ساتھ دے۔
اسکا پراسس طویل ہے جواب مختصر،
بنانے والے پر ایمان اور اسکے کلام اور خواص سے مستقل مکالمہ عقل کی غذا ہے۔ یہ مکالمہ بیس کی عمر سے ضرور شروع ہو جانا چاہیے۔ گویا ایمان لانے کی بہترین عمر بیس سے تیس ہے، جو چالیس تک مومن نہ ہُوا اسکے ایمان لانے کے امکانات کم ہونگے کیونکہ ایمان اور عقل لازم و ملزوم ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply