عامر لیاقت سَعادَت سے شَہادَت۔۔ڈاکٹر نتاشہ انور

عامر لیاقت سَعادَت سے شَہادَت۔۔ڈاکٹر نتاشہ انور/ لاکھوں سلام اور بے حساب درود کائنات کی اس ہستی پر جو وجہ تخلیق کائنات ہیں اور جن کی کملی کے روشن دھاگے اولیاء اللہ ہیں جو رحمۃ العالمين ﷺ کے انسانیت کے درس کو تاقیامت سمجھانے اور سکھانے میں اپنی اپنی باری پر معمور ہیں۔ ایسے ہی ایک غلام ڈاکٹر عامر لیاقت حسین رحمۃ اللہ علیہ ہیں جو شخص نہیں بلکہ ایسی شخصیت  کہ جس میں ہر انسان نے اپنا عکس دیکھا اور اسی طرح اظہار کیا!

آقا کریم ﷺ آپ سے بہتر کوئی طبیب نہیں؛ آقا پاک ﷺ سے بہتر کوئی رازدان نہیں۔ پیارے آقا کریم ﷺ، آپ کے عشق کے موتی اور احساسات کو لفظوں میں پرو کر روح اور دل میں اتارنے والا پیارا انسان ہم سب پیاروں سے بہت اوجھل ہو گیا ہے گو کہ اللہ کی عطا سے ان کی سماعتیں اور بصیرت ہم غم و اندوہ اور ان کے فراق میں مبتلا سب چاہنے والوں سے واقف ہیں۔

آقا کریم آپ کے پُر الأسرار پیارے،جن کے علم و حلم کی ہر ادا تصورات کو احساسات میں قید کر کے ان کو ایسی حیات میں پرو دیتی کہ روحانیت کے کبھی نہ بُجھنے والے دیے جلتے رہتے، انھوں نے کبھی نہیں کہا کہ وہ عالم ہیں، چاروں مکاتب فکر کو ایک ساتھ بٹھانے پر لوگوں نے انھیں عالم کا خطاب دیا۔ آپ کی تربت اطہر کی مٹی چکھنے والے کی زبان میں اتنی تاثیر اور روانی تھی کہ جو کہتے تھے دل و روح پر رقم ہوجاتا تھا،ذہانت ایسی کہ ایک  تہائی قرآن ایسے یاد جیسے دل و دماغ میں لکھ دیا گیا ہو اور ادائیگی حفاظ کی طرح، شان نزول فقہاء کی طرح تھا، مگر کبھی خود کو عالم دین نہیں کہا مگر لوگوں نے سمجھ لیا مان لیا کہہ دیا۔

“ع” سے علم، عشق، اور عبادت کے نشے میں ڈوبے انسان کو دنیا پرستوں نے نشے جیسی تہمت سے نوازا۔۔

آ قا کریم ﷺ، آپ نے اپنے گھر کے اندر 2 بار بلا کر انھیں ہر انسان کے لیے ایمان و عقیدے کا پیمانہ بنا دیا کہ ہم عشاق کا عقیدہ ہے کہ جو ہوچکا اور جو ہوگا اللہ کی عطا سے آپ ﷺ جانتے ہیں۔ تو پھر آپ کیسے کسی ایسے انسان کو وہ بھی دو بار اپنے روضے میں بلا سکتے ہیں جس کے ایمان میں کسی بھی طرح کی کمی یا کھوٹ ہو؟  آقا کریم ﷺ آپ نے انھیں پنجتن پاک کی اتنی کامل محبت عطا کی کہ مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی طرح حق سے، مولا حسن علیہ السلام کی طرح عورت سے ،مولا حسین علیہ السلام کی طرح اولاد اور مال سے آزمائے گئے۔ آقا جی کیا کوئی ایسا بھی پنجتن کا غلام ہوگا، حسینیت کی پہلی بار اصطلاح استعمال کر کے اس کا ایسا پرچار کیا کہ ان کے ساتھ انتہا کی یزیدیت دکھائی  گئی۔

آقا کریم ﷺ جب بھی اللہ نے آزمائش میں ڈالا پشت پناہی پہلے کی گئی، آپ نے خواب میں ابا عبدالعزیز کہہ کر مخاطب کیا کہ آپ ﷺ رب کی عطا سے جانتے تھے پیارا کس کرب سے گزرنے والا ہے۔ منہ سے یہ الفاظ ادا کروائے ہی نہیں بلکہ  یقین بھی دیا کہ “میں تو رسول اللہ کی چادر کا اک دھاگہ ہوں”۔اس ماں کا مقدمہ لکھوا دیا جس کے کردار پر انگلیاں اٹھا کر اذیت دی گئی تو پاکیزگی کی گواہی خود اللہ پاک نے دی۔ سوچتی ہوں اس غلام کی اپنی طہارت کی کیا انتہا ہوگی۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نسبت یوں ملی کہ ناموس رسالت ﷺ پر حملہ کرنے والوں کے لیے ننگی تلوار بنا دیا گیا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ  عنہ کی غلامی معراج کی محافل سجا کر اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ  عنہ کی نوکری عزت شہرت پیسے اور نام کو اللہ کی رضا کے لیے بانٹ کر کی۔ آپ کی سنت مطہرہ (نکاح) ہی دنیا کی نظروں میں ناقابل معافی جرم ٹھہرا اور ان کی تذلیل کی گئی۔

آقا کریم ﷺ آپ کے کرم سے دنیا کے 500 بااثر ترین مسلمان شخصیات میں 2 بار نام آیا، صحافت میں آئے تو قلم اور الفاظ ایسی تلوار ثابت ہوئے کہ باطل کو کاٹتے چلے گئے۔ انٹر ٹینمنٹ میں آئے تو کوئی ان جیسا طنزومزاح کرنے والا ثانی نہ ملا، ہر عمر میں ڈھل گئے۔

آقا کریم ﷺ آپ کا اتنا پیارا انتہا کی اذیتیں لیے آپ کے قدموں میں پہنچ گیا، آقا پاک ان کے کردار، وقار، عزت، حرمت اور خلوص کا قتل کر کے بھی ظالموں کو چین نہ آیا تو خدائی میں شرک گویا یوں کیا کہ جان سے ہی مار ڈالا۔ کوئی اتنے ٹکڑوں میں بھی شہید ہوا ہوگا بھلا؟ آقا کریم ﷺ رات کے اندھیرے میں چودھویں کے چمکتے چاند کو اجل نے نجانے کسی بے بسی درد اور کرب کی شدت میں آ لیا۔ کیا ظالم کو تھوڑا سا بھی رحم نہیں آیا؟

آ قا کریم ﷺ کوئی گھر اور گھر والے نہیں تھے ،  تو نہ  دیکھیں ،آپ کے عبداللہ شاہ غازی علیہ رحمہ نے اپنا گھر دے دیا انھیں کہ آپ تو ازل سے ہمارے ہو ،تو آجاؤ ہمارے پاس ہی، بہت تھک گئے ہو، بہت ستائے گئے ہو، بہت آزمائے گئے ہو اب نانا جان کی روز محشر آمد تک کچھ وقت ہمارے پہلو میں آرام کر لو۔  لاکھوں نوری آئے اس خاکی کو لحد میں اتارنے کیونکہ زندہ لاشیں کبھی باحیات انسان کا جنازے نہیں اٹھایا کرتیں، نوری مخلوق نے ہی آنا تھا۔

آقا پاک آپ نے ان کی زخمی روح پر دست شفقت رکھ دیا ہوگا نا۔ اپنی نعلین پاک بھی دی ہوگی نا کہ سینے سے لگا کر رو سکیں اور دل کا کرب ہلکا کر سکیں۔ آقا کریمﷺ انھیں مدینہ پاک اور آپ بہت یاد آرہے تھے اب تو آپ کی حضوری میں جی بھر کر وقت گزارا ہوگا  نا۔

آقا کریم ﷺ وہ اس دنیا کے تھے ہی نہیں جو تھے وہ نہ کسی نے سمجھا نہ پہچانا نہ دیکھا، آپ ان کو ہمیشہ اپنے قدموں میں رکھیے گا، اپنی رحمت کی چادر میں ڈھانپے رکھیے گا کہ حالات کے جور و ستم سہہ کر تھک گئے ہیں ان کا علمی و روحانی فیضان تاقیامت بٹتا رہے ،الہی آمین

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ۔ یہ تحریر ہمیں ڈاکٹر نتاشہ انور نے ارسال کی ہے۔ جو ڈاکٹر صاحب کی ہونہار و لائق شاگرد رہی ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply