کل پنجاب بار کونسل کا الیکشن تھا اور پولنگ ایجنٹ کے طور پر میری ڈیوٹی ایک دور دراز بار میں لگی۔ یہ تحصیل بار ایسوسی ایشن تھی جو لگ بھگ چھ سو وکلاء پر مشتمل تھی۔ اس لئے ہمارے گروپ نے فیصلہ کیا کہ اس کم پریشر والی جگہ پر مجھ جیسا غیر ذمہ دار بندہ ہی کافی ہے۔
پولنگ کا وقت صبح آٹھ بجے سے لے کر شام پانچ بجے تک تھا۔ اور اس کے بعد ہی ووٹوں کی گنتی ہونا تھی۔ لیکن میں صبح دس بجے ہی نہا دھو کے، شیو بنا کر متعلقہ بار میں پہنچ گیا اور اپنے امیدوار کی کمپین کرنے لگا۔
زندگی میں پہلی دفعہ یہاں آنا ہوا تھا۔ تحصیل سطح کی ایک چھوٹی سی بار ہونے کے ناطے، یہاں صرف دو پولنگ بوتھ ہی بنائے گئے۔ اور الیکشن کی وجہ سے سکیورٹی کی صورتحال کے پیش نظر، داخلے کے لئے صرف ایک گیٹ ہی کھلا رکھا گیا۔ اور تمام وکلاء اسی مرکزی دروازے پر کھڑے، آنے والے ووٹرز کو ویلکم کرنے لگے۔
دوپہر ایک بجے کا وقت تھا۔ پولنگ کا زور بھی ٹوٹ چکا تھا اور بہت سے دوسرے ساتھی وکلاء، امیدواروں کی طرف سے دیئے گئے لنچ سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ استقبالیہ پر رش بھی قدرے کم ہو چکا تھا۔ لیکن مجھ جیسے دنیا کی نعمتوں سے بیزار کئی ایک مہا سپوت اور سُپوتریاں ابھی بھی وہیں کھڑے، آنے والے مہمانوں کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔
اسی اثناء میں بار کے ایک سینئر ممبر مرکزی دروازے سے داخل ہوئے اور میرے قریب ہی کھڑی ایک خوبرو دوشیزہ کو مخاطب کر کے طنز کرنے لگے۔
“اخے، تم آج بھی ووٹ ہی مانگ رہی ہو”
اور وہ حسینہ ماہ جبین بھی کوئی انتہائی قسم کی منہ پھٹ واقع ہوئی تھیں۔ لیکن ان کی حاضر جواب توپوں کا رخ بجائے بوڑھے وکیل صاحب کے، میری طرف تھا۔ کہنے لگیں،
“اگر ان جیسے سوہنے ووٹ مانگ سکتے ہیں، تو پھر ہم کیوں نہیں مانگ سکتیں”
اب چونکہ میری تو ان محترمہ سے کوئی شناسائی نہیں تھی کہ بات کو آگے بڑھاتا، سو مسکراتے ہوئے اور صرف دل ہی میں یہ کہنا مناسب سمجھا۔
“جا اے شوخیئے”
لیکن آپ دوست میرے اس جواب پر کہیں یہ نہ سمجھیے گا کہ میں کوئی بڑا پرہیز گار اور زاہد واقع ہوا ہوں یا اپنے آپ کو پوتر پاک ہستی سمجھتا ہوں۔ بلکہ اس وقت میرے بھی کم و بیش وہی جذبات تھے جو کسی بھی جوان جہان آتش کے ہو سکتے تھے۔
میں نے تو دل ہی دل میں جذبات سے مغلوب ہو کر ان محترمہ سے گلہ کیا تھا،
” اے جان بہاراں ! بھلا یہ کوئی جگہ تھی کسی کے حسن کرشمہ ساز کی تعریف کرنے کی، اور وہ بھی یوں سب کے سامنے”
وہ بیرسٹر اقبال یاد آ گئے ہیں جو بال جبریل میں کہہ گئے تھے۔
یہ تو نے کیا غضب کیا، مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں
سو اے میری دو دو انچ کی زلفوں کی اسیر شہزادی ! ایسی باتیں تو راز و نیاز میں کرنے کی ہوتی ہیں نہ کہ سر بازار کرنے کی۔
دوستو ! اب آپ ہی میرے وکیل ہیں، میں مقدمہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
دیکھیے نا، آج ہم ٹیکنالوجی کے عہد میں زندہ ہیں۔ فائیو جی انٹرنیٹ ہماری زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ رابطے کے ذرائع انتہائی آسان اور ہر ایک کی پہنچ میں ہیں۔ یہاں اب ہر بندے اور بندی کے پاس اینڈرائیڈ اور آئی او ایس ٹیکنالوجی موجود ہے۔ اس کے علاوہ انباکسز اور مسنجرز کا ایک جہاں آباد ہوا پڑا ہے۔ تو ایسے میں اچھا طریقہ تو یہی تھا کہ وہ اپنے دل کی بات بھرے چوک میں کہنے کی بجائے مجھ غریب کے انباکس میں کہہ دیتیں۔ ہو سکتا ہے پھر جواباً میں بھی ان کے حسن ہوش ربا پر کوئی غزل لکھ مارتا جو بے شک ان کے منہ پر ہی جا کے لگتی۔
اب آپ ہی بتائیں، بھلا ان کی رابطہ کرنے کی ایسی کسی کوشش پر میں نے کوئی برا محسوس کرنا تھا۔ آپ کو تو پتا ہے میں عورتوں کی کتنی عزت کرتا ہوں۔ اور جی جان سے کرتا ہوں بلکہ بعض اوقات تو انہیں اپنی جان بنانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ تو وہ یہ بات مجھے درون خانہ بھی تو کہہ سکتی تھیں نا۔ نہ جانے ان ناریوں کو کب عقل آئے گی۔
دوستو ! میں تو ایک شرمیلی طبیعت کا آدمی ہوں۔ لیکن آپ کے ساتھ کبھی ایسا واقعہ پیش آئے تو آپ نے گھبرانا نہیں ہے بلکہ صرف دل کی بات ماننی ہے اور یہ بالکل بھی نہیں دیکھنا کہ موقع تھا بھی کہ نہیں۔
لیکن ایک بات یہ بھی یاد رکھیے گا کہ نہ گھبرانے کا انجام بحیثیت پاکستانی آپ پہلے بھی بھگت رہے ہیں۔ اس لئے میرے مشورے پر عمل کرنے سے پہلے سوچ بھی لیجیے گا اور مناسب سمجھیں تو گھبرانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
Facebook Comments