نسیم بیگم ،ایک عہد ساز گلوگارہ۔۔۔۔اسلم ملک

* اے راہِ حق کے شہیدو (مادرِ وطن) * سو بار چمن مہکا، سو بار بہار آئی ( شام ڈھلے) * اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو (شہید) * چندا توری چاندنی میں (باجی)* نگاہیں ہوگئیں پرنم (لٹیرا) * دیساں دا راجا، میرے بابل دا پیارا (کرتار سنگھہ)* ہم بھول گئے ہر بات(سہیلی) * نام لے لے کے تیرا ہم توجئے جائیں گے(اولاد) * کہیں دو دل جو مل جاتے(سہیلی) * میرا بچھڑا بلم گھر آگیا (حویلی)* چھن چھن چھن میری پائل کی دھن (گھونگھٹ) * اے دل کسی کی یاد میں( اک تیرا سہارا)* سانوں وی لے چل نال وے (چن پتر) * میں پھول بیچنے آئی (زرقا)

یہ نغمے تو آپ نہ بھولے ہوں گے لیکن شاید اس جواں مرگ گلوکارہ نسیم بیگم کو بھول گئے ہوں جس کی سریلی آواز 29 ستمبر 1971 کو ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی، انہیں رخصت ہوئے آج 47 برس ہوگئے۔

نسیم بیگم 24 فروری 1936 کو امرتسر میں ایک مغنیہ بدھاں کے گھر پیدا ہوئیں ۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان لاہور منتقل ہوگیا۔ نسیم بیگم کو بچپن ہی سے گانے کا شوق تھا۔ وہ نو عمری ہی میں گلوکارہ فریدہ خانم کی بڑی بہن مختار بیگم ( آغا حشر کی اہلیہ) سے کلاسیکل موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے لگیں۔ نسیم بیگم نے فطری صلاحیت اور محنت اور لگن سے کلاسیکی موسیقی اور راگ داری پر عبور حاصل کیا،

پہلے انہوں نے ریڈیو کیلئے گایا .1957 میں نوجوان موسیقار میاں شہریار نے انہیں فلم ’’بے گناہ‘‘ میں موقع دیا ’’نینوں میں جل بھر آئے، مورکھہ من تڑپائے، روٹھہ گیا مورا پیار‘‘ سمیت اس فلم کے تمام گانے میاں شہریار نے سید عاشور کاظمی سے لکھوائے۔’’نینوں میں جل بھر آئے‘‘ اتنا مقبول ہوا کہ پھر نسیم بیگم فلمی صنعت کی ضرورت بن گئیں۔ نسیم بیگم کی آواز ملکہ ترنم نور جہاں اور سمن کلیان پور سے ملتی تھی۔ اس کا انھیں نقصان ہوا کہ ان کے گانے لوگ ملکہ ترنم یا سمن کلیان پور کے سمجھتے رہے۔
نسیم بیگم کی آواز کی ملکہ ترنم نورجہاں سےمشابہت کو محسوس کرتے ہوئے موسیقار رشید عطرے نے فلم ’’نیند‘‘ کے دو نغمات ’’اکیلی کہیں مت جانا زمانہ نازک ہے‘‘اور ’’جیا دھڑکے سکھی ری جور سے جی آئی مل کے بلم چت چور سے‘‘ میں نور جہاں اور نسیم بیگم کی آوازوں کو یک جا کیا۔ لیکن اس کے بعد دونوں کے مابین نہ جانے کیوں خلیج حائل ہوگئی اور یہ سریلی آوازیں کسی دوگانے میں سنائی نہ دے سکیں۔ بہرکیف دونوں سنگیت پر ساتھہ ساتھہ راج کرتی رہیں ۔ نسیم بیگم کے عروج کا زمانہ 1955 سے 1964 تک کا ہے۔

نسیم بیگم کی آواز میں اداسی، کرب اور تڑپ تھی لیکن انہوں نے بعض شوخ گیت بھی گائے۔ موسیقاروں کی ترجیح رہی کہ نسیم بیگم کی منجھی ہوئی آواز سے ہلکے پھلکے اور کلاسیکل نغمات کے سلسلے میں استفادہ کریں۔ موسیقار صفدر حسین نے فلم گل بکاؤلی میں نسیم بیگم سے ایک کلاسیکل گیت گوایا، جو پری بکاؤلی کا رول کرنے والی حسین و جمیل اداکارہ جمیلہ رزاق پر فلمایا گیا۔ یہ گانا تھا ’’چلے مور کی چال، کرے سب دنیا کو پامال، جوانی دیوانی۔‘‘ اسی فلم کا ایک دو گانا نسیم بیگم اور زبیدہ خانم نے پشتو دھن پر گایا جو اسٹریٹ سانگ بن گیا ’’جوانی مسکرائے گنگنائے گائے تیرے میرے پیار کے دن آئے ‘‘

نسیم بیگم کو پہلا بریک تھرو موسیقار اے حمید نے ایس ایم یوسف کی 1960 میں بننے والی فلم ’’سہیلی‘‘ سے دلایا جس کے سارے گیت نسیم بیگم نے گائے جو بہت مقبول ہوئے۔

’’ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے‘‘،’’کہیں دو دل جو مل جاتے بگڑتا کیا زمانے کا‘‘ (سلیم رضا کے ساتھہ دو گانا) ’’ہم نے جو پھول چنے دل میں چبھے جاتے ہیں‘‘،’’مکھڑے پہ سہرا ڈالے آجا او آنے والے‘‘ (کورس)۔ 1962 میں اسی ٹیم کی فلم ’’اولاد‘‘ کے بھی سبھی گیت جن کی موسیقی اے حمید نے دی، نسیم بیگم کو فلمی کیریئر کے اوج پر لے گئے۔۔۔’’تم ملے پیار ملا اب کوئی ارمان نہیں‘‘ منیر حسین کے ساتھہ) ’’نام لے لے کے تیرا ہم تو جیے جائیں گے‘‘،’’تم قوم کی ماں ہو سوچو ذرا ،عورت سے ہمیں یہ کہنا ہے۔‘‘

اسی سال ریاض شاہد نے فلم ’’شہید‘‘ تخلیق کی، جس کے نغمات نسیم بیگم نے گائے اور بے حد مقبول ہوئے۔ یہ گانے تھے ’’اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو!‘‘، ’’نقاب جب اٹھایا، شباب رنگ لایا، حبیبی ہیا ہیا‘‘،’’میری نظریں ہیں تلوار، کس کا دل ہے روکے وار، توبہ توبہ استغفار‘‘،’’جب سانولی شام ڈھلے اور رات کی شمع جلے۔‘‘ فلم شہید کا موضوع فلسطین تھا۔ اسی لیے موسیقار رشید عطرے نے نغمات کی طرزیں عربی موسیقی کے انداز میں بنائی تھیں۔

فلسطین پر ریاض کی آخری فلم ’’زرقا‘‘ میں نسیم بیگم کی آواز میں صرف ایک گیت تھا: ’’میں پھول بیچنے آئی۔‘‘ فلم ’’باجی‘‘ 1963 میں بنی۔ سلیم اقبال کی موسیقی میں نسیم بیگم نے دو گیت گائے، ’’چندا توری چاندنی میں جیا جلا جائے رے‘‘ اور ’’سانوریا نے ہائے دیا بڑا دکھ دینو پیہروا نے ہائے‘‘ خواجہ خورشید انور کی کمپوزیشن میں فلم ’’گھونگٹ‘‘ کا گیت ’’چھن چھن چھن موری پائل کی دھن‘‘ گائے تیرا ہی ترانہ کبھی آکے سن‘‘ اور فلم ’’حویلی‘‘ کا گانا ’’میرا بچھڑا بلم گھر آگیا، ’’دھوپ چھائوں ‘‘ کا ’’ آئے سجن ، موری پائل باجے چھم چھم چھم چھنن‘‘ یہ گانے نسیم بیگم کی کلاسیکی گیتوں پر مہارت اور دسترس کا احساس دلاتے ہیں۔ نسیم بیگم کا گیت ’’ ہم بھول گئے ہر بات‘‘ لتا منگیشکر نے بھی بھارتی فلم ’’سوتن‘ کیلئے گایا۔

نسیم بیگم نے پنجابی فلموں کے گیت بھی کچھہ کم نہیں گائے، تاہم ان کے نمائندہ گانے اردو ہی میں ہیں۔ پنجابی میں پہلی فلم گڈی گڈا کے علاوہ کرتار سنگھہ، تیس مار خان، میرا ویر چن ویر جی دار، مکھڑا چن ورگا وغیرہ کے گیت شامل ہیں۔

برصغیر کی تقسیم کے موضوع پر 1956 میں سیف نے فلم ’’کرتار سنگھہ‘‘ بنائی۔ اس فلم میں علاؤالدین نے یادگار مرکزی کردار ادا کرکے عوامی اداکار کا خطاب حاصل کیا۔ نسیم بیگم نے شادی کا ایک گیت ’’دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا، ویر میرا گھوڑی چڑھیا‘‘ گا کر اسے عوامی گیت بنادیا۔ زبیدہ خانم اور نسیم بیگم کا گایا ہوا دو گانا ’’پیریں بیڑیا پنجھباں دیاں پاکے ماہی نے تینوں لے جانڑاں نی گوریے‘‘ مسرت نذیر اور بہار پر فلمایا گیا۔

اداکار و فلم ساز سید موسیٰ رضا (سنتوش کمار) کی فلم ’’شام ڈھلے‘‘ میں استاد شاعر صوفی غلام مصطفی تبسمؔ کی غزل :
سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی
دنیا کی وہی رونق دل کی وہی تنہائی
شامل کی گئی۔ رشید عطرے کی دھن پر نسیم بیگم نے اپنی پختہ گائیکی سے اسے لازوال بنادیا۔
آغا حشر کا کلام ‘‘غیر کی باتوں کا آخر اعتبار آہی گیا‘‘فلم ’’کنیز‘‘ میں شامل کیا گیا، ، نسیم بیگم نے اسے رقص گیت کے انداز میں گایا۔ ممتاز لوک فن کار طفیل نیازی کو بطور موسیقار اشفاق احمد کی فلم ’’دھوپ اور سائے‘‘ ملی، جس میں شامل منیر نیازی کی غزل ’’پھر ہری بیلوں کے نیچے بیٹھنا شام و سحر۔‘‘ کو نسیم بیگم نے خوبی سے گاکر حق ادا کردیا۔ غزل کو گیت کی طرز میں ادا کرنے کا فن نسیم بیگم کو خوب آتا تھا، جیسے ’’رنگ محفل ہے اور نہ تنہائی، زندگی کس طرف چلی آئی‘‘
نسیم بیگم کے گائے ہوئے چند اور مقبول گیت :
اب کہاں ان کی وفا ،یاد وفا باقی ہے
بہت پچھتائے دل کو لگا کے
نگاہیں ہوگئیں پرنم ذرا آواز دے لینا ، بانوریا نہ رو
نیناں روئیں چھم چھم، کیسے میں چھپاؤں غم
چھپ گئے ستارے ندیا کنارے
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھا نہ کیجیے
اے دل کسی کی یاد میں ہوتا ہے بے قرار کیوں
ڈولیں مرے پاؤں جھولیں میرے جھمکے

نسیم بیگم نے چار نگار ایوارڈ مسلسل چار سال جیتے اور پرائڈ آف پرفارمینس بھی حاصل کیا۔ نسیم بیگم کی آواز رہتی دنیا تک کانوں میں رس گھولتی رہے گی۔ ان کا گایا مشیر کاظمی کا ترانہ ’’اے راہِ حق کے شہیدو ‘‘ دل کو چھو لینے والے انتہائی پر اثر ترانوں میں سے ایک ہے۔

نسیم بیگم کوخود بھی شہادت کی موت نصیب ہوئی۔ان کی موت زچگی کے دوران ہوئی ۔
ان کی شادی لاہور کے معروف پبلشر دین محمد سے ہوئی تھی اور تین بیٹے اور تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔

[ انسائیکلوپیڈیا پاکستانیکا ، پاکستان کرونیکل، پاکستانی فلمی گیتوں پر فیاض احمد اشعر کی کتاب ، مختلف جرائد اور ایکسپریس ، ڈان سمیت کئی ویب سائٹس سے استفادہ کیا گیا ، برادر مظہر ترمذی اور جناب ظفر رباب کی رہنمائی کا بھی شکریہ]

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ:یہ تحریر اسلم ملک صاحب کی فیس بک وال سے لی گئی ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply