ماہ الحزن و یوم مسرت…۔۔مہر ساجد شاد

دسمبر آتے ہی نئے سال کی تیاریاں دنیا بھر میں شروع ہو جاتی ہیں نیا سال نیا عزم نئی خوشیاں لیکن ہمارے ہاں دسمبر آتا ہے تو شاعری کا باربی کیو شروع ہو جاتا ہے، دکھ غم ہجر اداسی میں کچھ جلی کچھ پکی کچھ نرم کچھ سخت کچھ تیز مرچوں والی شاعری سینکنے کیلئے خلقت تیار ہو بیٹھتی ہے۔ بھیگا بھیگا سا دسمبر ڈھونڈنے والوں کو نہ ملے تو وہ ہجر کا مارا غم زدہ تاریکی میں ڈوبا دسمبر ڈھونڈ نکالتے ہیں، تاریکی سے یاد آیا کہ سال کی سب سے تاریک اور طویل رات بھی اسی دسمبر میں آتی ہے۔
حیرت کی بات ہی ہے کہ اس مہینے میں اس بڑی تعداد میں شادیاں ہوتی ہیں جیسے اس مہینے میں شادی کرنے پر کوئی خاص بشارت ہے لیکن شاعروں کو ان کی خوشیاں نظر نہیں آتیں ناکام عاشقوں کا غم مناتے رہتے ہیں، لیکن اگر غم زدہ شاعری شادی شدگان کے غموں دکھوں کی ترجمانی کیلئے ہے ،تے فیر ٹھیک اے۔ کیونکہ شادی کے بعد مظلومیت والی حالت اضطراب اور دوسری شادی کی خواہش کی حالت اضطراب کیلئے شاعری ہی شاید واحد محفوظ ذریعہ کلام و اعلان ہے۔
چلیں کچھ تاریخ میں خجل خواری کر لیتے ہیں،
اس مہینے میں 16دسمبر آتا ہے اور ہمیں گھسیٹ کر ڈھاکہ کے بخشی اسٹیڈیم میں لے جاتا ہے جہاں سخت سردی کے موسم میں جذبات کی اتنی گرمی تھی کہ خیر چھوڑیں۔
یہ بنگالی تھے ہی عجلت پسند ہر کام ہر ترقی فوراًچاہتے تھے بہتیرا سمجھایا تمہاری باری بھی آئے گی، مگر اچھا ہوا یہ الگ ہوئے جان چھوٹی،
اخے اتنی جلدی ہے ترقی کی تو کر لو خود ہی ترقی،ویسے بھی جو رہنا ہی نہیں چاہتا تھا اس سے جان چھڑانا ہی بہتر تھا
دُکھ کاہے کا، ہیں جی !
بس وہ ہمارے 93 ہزار فوجی جوان اور افسران اکرام کا بھارتی جیلوں میں مہمان بننا یاد آتا ہے تو طبیعت میں اضطراب پیدا ہوتا ہے۔
پھر اللہ کی مرضی سے ہمیں 16 دسمبر کو ہی ایک اور غم مل گیا، ہمارے بہادر بچے بزدل دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو گئے، اب ہم اس دن بہادر بچوں کی یاد میں تقریبات منعقد کرتے ہیں شمعیں جلاتے ہیں، تقاریر کرتے ہیں بچوں کی لازوال قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، انکی یاد میں جاری شدہ نغمہ بھی گاتے ہیں جو ہماری محبت جاریہ کا اعلان ہے۔
بس خیر سے دن گزر جاتا ہے اور وہ ڈھاکہ والا منحوس دن ، غدار بنگالیوں والا دکھ ، ہمیں اب یاد نہیں آتا۔
بس اس سانحے والے سال ساری قوم غمزدہ تھی اور اُس وقت کی گستاخ اور غدار حکومت نے اگلے ہی دن میٹنگ بیٹھا دی کہ پتہ کرو یہ سانحہ کیوں ہوا ،
اس حرکت نے دُکھی غمگین دلوں کو مزید اضطراب میں مبتلا کیا تھا لیکن یہ سیاسی شعبدہ باز کیا سمجھیں حب الوطنی۔
دسمبر میں ہی ایک اور قومی غم بی بی بینظیر کی سرعام پراسرار ہلاکت کے نتیجے میں ہمیں ملا، اس دن جیالے “فلسفہ زندہ ہے “ کے نعرے لگاتے ہیں اور لوگوں کو “بھٹو زندہ ہے” سنائی دیتا ہے۔
اس سال دسمبر کے غموں میں کچھ اور اضافہ ہو گیا، پہلے تو وکیل اُٹھے اور ساڈا حق ایتھے رکھ کا قانونی مقدمہ لڑنے دل کے ہسپتال جا پہنچے،
اخے دل پر قبضہ کرنا ہے۔ محبت سے دل جیتنے کی باتیں پرانی ہوئیں اب تو جس کا قانون اس کا دل، ہیں جی !
ابھی یہ رونق دل جاری تھی کہ ایک دماغی مریض منصف نے ہمارے بہادر کمانڈو جس نے جنگیں لڑیں جس سپہ سالار نے ۹ سال تک ملک کی تقدیر بدلنے کیلئے نظام حکومت اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھائے رکھا اس کے بارے میں کوئی کیسے سوچ سکتا ہے کہ وہ کبھی غدار بھی ہو سکتا ہے یہ سوچنا بھی گناہ ہے اور ایسا سوچنے والے گناہ گار کو پھانسی کی سزا ملنا چاہیئے لیکن ظلم دیکھیے کہ ایک کاغذ کے ٹکرے کو آئین کہہ کر ایک محب وطن کمانڈو پر لاگو کر دیا گیا عاقبت نااندیشوں نے موت کی سزا سنا دی،
پھر ڈی چوک میں لاش لٹکانے کا حکم بھی دے دیا یہاں ایک طرف ترازو لٹکا ہوا ہے، دوسری دیوار پر عوام نے شلواریں لٹکائی تھیں، یہیں پارلیمنٹ کی عمارت ہے جس میں حکومت لٹکی ہوتی ہے اب اتنی لٹکتی چیزوں میں ایک لاش کو لٹکا کر بھلا کیا فائدہ، ہیں جی!
البتہ اس مہینے میں ایک دن ایسا ہے جب ہم خوشی منا سکتے ہیں، یہ یوم مسرت 25 دسمبر ہے۔
اس دن عیسائی برادری کرسمس مناتی ہے لیکن شاید دسمبر کا ہی اثر ہے کہ یہ تہوار بھی متنازعہ ہو گیا ہے اس میں مسلمان کا ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے، البتہ اسی تاریخ کو قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش بھی ہے خوش قسمتی سے قائد اعظم کا جنم دن منانے پر ابھی تک پابندی نہیں لگی کیونکہ ابھی قائد اعظم کافر یا غدار قرار نہیں دئیے گئے،
ویسے انبیاء علیہ السلام پر ایمان ہمارے ایمان کا لازمی جزو ہے تو کرسمس نہ منائیے اس ماہ الحزن میں
یوم ولادت حضرت عیسی علیہ السلام اور
یوم ولادت قائداعظم محمد علی جناح منا لیجیے،
یوم مسرت منائیے جب تک میسر ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply