• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • آخر وہ کیا ٹرینڈ تھا جس کے مطابق ووٹروں نے ایسے ووٹ دئیے؟-غیور شاہ ترمذی

آخر وہ کیا ٹرینڈ تھا جس کے مطابق ووٹروں نے ایسے ووٹ دئیے؟-غیور شاہ ترمذی

حالات اب کچھ یوں ہیں کہ کوئی بھی پارٹی خود سے مرکز میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔ یہ تحریر لکھنے تک قومی اسمبلی کی 265 نشستوں میں سے 230 نشستوں کے غیر حتمی نتائج کے مطابق آزاد امیدواروں نے 95 سیٹیں جیت لی ہیں۔ یہ تمام آزاد امیدوار عمران خاں کی تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے نہیں ہیں بلکہ ان میں 16 امیدوار جینوئن آزاد بھی ہیں اور جن کا تعلق کسی سیاسی پارٹی سے نہیں ہے۔ اس کے علاوہ نون لیگ نے 65 نشستیں حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور پیپلز پارٹی نے 52 نشستیں حاصل کیں۔

ان نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی نے دیہی سندھ سے تقریباً کلین سویپ کیا تو تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں نے خیبر پختونخوا  میں ایسی ہی سوپر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ صوبہ پنجاب اور بلوچستان میں ہر امیدوار کو اپنی نشستیں سخت مقابلہ کے بعد ہی جیتنی پڑیں۔ کراچی اور حیدر آباد کی شہری نشستوں میں ایم کیو ایم 13 نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی۔

وہ لوگ جنہیں کبھی صوبہ سندھ میں جانے اور سفر کرنے کا اتفاق نہیں ہوا اور اُن کی معلومات کا ذریعہ اردو میڈیا ہوتا ہے، اُن کو اب یہ ثابت ہو گیا ہو گا کہ پیپلز پارٹی نے سنہ 2008ء، سنہ 2013ء، سنہ 2018ء اور اب سنہ 2024ء کے انتخابات میں کامیابی ’’ہر گھر سے بھٹو نکلے گا‘‘ جیسے نعروں سے نہیں حاصل کی بلکہ یہ اُن کی کارکردگی کا ثبوت ہے کیونکہ بغیر کوئی کارکردگی دکھائے صرف نظریہ کی بنیاد پر کوئی بھی سیاسی جماعت مسلسل 4 دفعہ کامیابی حاصل نہیں کر سکتی۔ پیپلز پارٹی کی سندھ میں کامیابی کی بنیاد اُس کی صحت اور تعلیم کے شعبوں میں بےمثل کارکردگی اور بھٹو ازم کے فلسفہ کو قرار دیا جا سکتا ہے۔

خیبر پختونخوا  میں تحریک انصاف 2013ء اور سنہ 2018ء کے انتخابات کے بعد اب سنہ 2024ء میں بھی کامیاب ہوئی ہے اور اُس نے وہاں سے باقی تمام جماعتوں کو ناک آؤٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ کوئی اختلاف یا جھگڑے کی بات نہیں ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ کارکردگی کے نام پر تحریک انصاف کے پاس خیبر پختونخوا ، پنجاب اور مرکز میں کچھ بھی ایسا نہیں ہے جسے دکھا کر یہ کہا جا سکے کہ اُسے کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ ملے ہیں۔ یہ تحریک انصاف اور عمران خاں کے لئے وہاں کے ووٹروں میں بے انتہا مثالی محبت اور دوسری جماعتوں کے لئے نفرت کارفرما ہے۔ سادہ لفظوں میں یہ کہہ لیجیے کہ خیبر پختونخوا ہ میں کارکردگی نہیں نظریہ جیتا ہے اور وہاں کی عوام نے عمران خاں سے اپنی محبت کو قائم رکھا ہے۔

پنجاب میں نون لیگ اور تحریک انصاف کو ووٹروں نے تقریباً ایک دوسرے کے آگے پیچھے ہی نوازا ہے جس میں تحریک انصاف کا پلڑہ قدرے بھاری رہا ہے۔ یہاں کے ووٹروں نے نظریہ اور کارکردگی دونوں کو ہی ووٹ دیتے وقت ترجیح دی ہے۔ نون لیگ کو اُس کی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ ملے ہیں تو تحریک انصاف اس لئے پنجاب کے ووٹرز سے زیادہ شیئر حاصل کر سکی کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد قائم ہونے والی پی ڈی ایم حکومت کی 16 مہینوں کی بدترین کارکردگی نے لوگوں کے دلوں میں نفرت بھر دی تھی۔ یہ نون لیگ کی خوش قسمتی ہے کہ اپنی مدت پوری کرنے کے بعد انہیں عام انتخابات میں 3 مہینوں کے بعد نہیں بلکہ تقریباً 6 مہینوں کے بعد اترنا پڑا جس کی وجہ سے عوام کا غصہ اُن کی بدترین کارکردگی کے حوالہ سے کم ہو گیا تھا۔

بلوچستان میں انتخابات میں کامیابی کے لئے سرداری نظام، مذہبی ووٹ، قبائلی سسٹم جیسے عوامل اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہاں صرف وہی پارٹیاں کامیاب ہو سکتی ہیں جو اِن زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے موزوں امیدواروں کا انتخاب کرتی ہیں۔ اس لئے وہاں کے نتائج اسی حساب سے سامنے آئے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

انہی تمام عوامل کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستانی ووٹرز نے ایک ہنگ پارلیمنٹ بنوانے کا اپنا حقِ رائے دہی استعمال کر دیا ہے۔ عوام کے اس حقِ رائے دہی کا احترام کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنے کا ماحول بنانے کی کوشش کرنی چاہیے جس کی بنیاد ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا مکمل احترام کرنے اور سیاسی اختلاف کی بنیاد پر ہارنے والوں سے انتقام نہ لینے میں مضمر رہے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply