21ویں پارے کا خلاصہ

اس پارے میں سورہ عنکبوت کی بقیہ آیات، سورہ روم، سورہ لقمان اور سورہ سجدہ مکمل، اور سورہ احزاب کا ابتدائی حصہ ہے۔
پارے کا آغاز قرآن مجید کے تلاوت اور اقامت صلاة کے حکم ہوا۔ بتایا گیا کہ نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔
پھر اہل کتاب کا ذکر ہوا، کہا گیا کہ ان سے مجادلہ احسن طریقے سے کرو۔ یہ کتاب اللہ نے نازل کی اس کا انکار صرف ک اف ر و ظ ال م ہی کرتے ہیں۔ یہ بھی فرمایا کہ اس سے پہلے آپ نہ کسی کتاب کی تلاوت کرتے تھے نہ لکھتے تھے جو یہ کفار شک میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ یہ اللہ کی واضح نشانیاں ہیں جو اہل علم کے سینوں میں محفوظ ہیں۔
ک ف ار نبی کریم سے ہمہ وقت نشانی یا کسی محیر العقل معجزہ کا مطالبہ کرتے تھے۔ چناچہ جواب دیا کہ کیا یہ کتاب جو آپ پر نازل کی گئی ہے کافی نہیں ہے۔ اس سے بڑی نشانی کیا ہوسکتی بے۔ یہ ایمان والوں کے لیے باعث ہدایت و رحمت ہے۔
ک ف ار عذاب کی بھی جلدی کرتے تھے۔ اس پہ فرمایا گیا جھنم ک اف ر وں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ہر نفس کو موت کا مزا چکھنا ہے، سب لوٹ کر اللہ کی طرف ہی جائیں گے، مومنین کے لیے وہاں جنت تیار ہے۔
پھر کفار سے متعلق یہ بتایا کہ یہ اللہ کو خالق کائنات مانتے ہیں، لیکن پھر بھی توحید پر ایمان نہیں لاتے۔ کیونکہ عقل استعمال نہیں کرتے۔ یہ دنیا کی زندگی تو محض کھیل تماشا ہے، اصل زندگی تو آخرت کی ہے۔ پھر کفار کو ملامت کی گئی کہ اللہ نے ان کے لیے حرم کو امن والا بنایا، لیکن یہ ناشکرے ہیں۔ اللہ پر جھوٹ باندھنے والے سے زیادہ ظالم کون ہوسکتا ہے، ایسوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ البتہ *اللہ کی معرفت اور قربت کی خاطر جہاد اور کوشش جاری رکھنے والوں کو اللہ تعالی ضرور اپنے راستہ کی ہدایت دیتے ہیں۔* بے شک *اللہ محسنین کے ساتھ* ہیں۔
*سورہ روم:*
اس سورت کی ابتداء روم کی فارس پر فتح کی پیشن گوئی سے ہوئی، ساتھ ہی مسلمانوں کو یہ خوشخبری سنائی گئی کہ اس دن مسلمانوں کو بھی فتح کی خوشی ملے گی۔
پھر ک ف ار کا ذکر ہوا کہ یہ دنیا کی زندگی کے بارے میں تھوڑا بہت جانتے ہیں اور آخرت سے غافل ہیں۔ ان کو چاہئیے کہ غور و فکر کریں اور زمین میں پھر کر پچھلوں کے انجام سے عبرت حاصل کریں۔
پھر قیامت کا ذکر ہوا کہ اس دن ک ف ار کے شرکاء ان کے کام نہیں آئیں گے۔ اس دن لوگ دو حصوں میں بٹ جائیں گے، مسلمان جنت میں اور کفار عذاب میں داخل کیے جائیں گے۔
اس کے بعد اللہ کی قدرت کی بعض نشانیاں ذکر کی گئیں: مردہ کو زندہ سے اور زندہ کو مردہ سے نکالنا، انسان کو مٹی سے بنانا، انسانوں کے جوڑے بنانا اور ان کے درمیان باہمی محبت و مودت ڈالنا، آسمان و زمین، انسانوں کے درمیان اختلاف رنگ و زبان، دن اور رات، بجلی اور بارش اور اس سے مردہ زمین کا زندہ ہونا وغیرہ۔ یہ سب دیکھنے سننے اور عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
فرمایا کہ کائنات میں سب اللہ کے فرمانبردار ہیں، اسی نے ایک مرتبہ پیدا کیا وہی دوبارہ بھی کرے گا، یہ کام اس کے لیے بہت آسان ہے۔
پھر حکم ہوا کہ خالص اللہ کی عبادت کرو، نماز قائم کرو، اور مشرکین کے زمرے میں شامل نہ ہو۔ یعنی نماز فرق ہے مومن اور کافر میں۔ اسی لئے تمام اعمال میں صرف اسی کا ذکر ہوا۔ یہ بھی بتایا کہ *انسان پر جب مشکل پیش آتی ہے تو اللہ کو پکارتا ہے لیکن جب اللہ مشکل دور کردیتا ہے تو وہ اس سے پھر منہ موڑ لیتا ہے۔*
اس کے بعد *قرابت داروں، مسکینوں، اور مسافروں کا حق ادا کرنے کا حکم ہوا۔* ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا کہ سود کی اللہ کے ہاں کوئی حیثیت نہیں البتہ زكاة سے مال بڑھتا ہے۔ یہ بھی مراد ہوسکتا ہے کہ اجر کو بڑھاتی ہے۔
اللہ ہی خالق ہے، وہی رازق ہے، وہی موت کے بعد دوبارہ زندہ بھی کرے گا۔ تمھارے معبودوں میں سے یہ کام کوئی کرسکتا ہے؟
پھر بتایا کہ انسانوں کے اعمال کے سبب زمین میں فساد برپا ہوگیا ہے۔
حکم ہوا کہ اپنے آپ کو سیدھے دین پر قائم کرلو اس سے پہلے کہ وقت گزر جائے۔ نبی کو تسلی دی کہ آپ سے پہلے بھی ہم نے رسول بھیجے اور مجرمین سے بدلہ لیا۔ نیز یہ تسلی بھی دی کہ آپ مردوں، بہروں اور اندھوں کو ہدایت نہیں دے سکتے۔
پھر قیامت کا ذکر ہوا کہ اس دن مجرم کہیں گے ہم تو محض ایک گھنٹہ قبروں میں رہے، لیکن اہل علم و ایمان کہیں گے کہ تم روز حشر تک رہے، اور آج وہ دن آگیا ہے جس کا وعدہ تھا۔ اس دن کسی کی معذرت کام نہیں آئے گی۔ پس صبر کریں اللہ کا وعدہ سچا ہے۔
*سورہ لقمان:*
اس کا آغاز قرآن مجید کے ذکر سے ہوا جو *محسنین کے لیے ہدایت و رحمت* ہے۔ *محسنین کی صفات* یہ بتائیں کہ *نماز قائم کرتے ہیں، زكاة دیتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔* چناچہ وہی لوگ ہدایت یافتہ اور کامیاب ہیں جو ان کا اہتمام کرتے ہین۔
پھر اللہ کی قدرت کا ذکر کیا کہ اس نے آسمان بغیر ستون کے بنائے، زمین کا توازن برقرار رکھنے کے لیے پہاڑ بنائے، آسمان سے پانی برسایا۔
اس کے بعد *حضرت لقمان کا ذکر* ہوا کہ ان کو اللہ نے حکمت کی دولت سے نوازا۔ ان کی اپنے *بیٹے کو کی گئی نصیحتیں* بیان کی گئیں جن میں سرفہرست *شرک سے اجتناب* کی تلقین تھی۔ اس کے بعد *والدین کے حقوق* کا ذکر ہے کہ *ان کا شکرگزار* ہونا چاہئیے، شرک اور اللہ کی نافرمانی کے علاوہ ان کی اطاعت کرنی چاہئیے، اگر مشرک بھی ہوں تو وہ دنیا میں اچھے سلوک کے حقدار ہیں۔
اس کے بعد پھر لقمان علیہ السلام کی بقیہ نصائح کا ذکر ہے کہ *نماز قائم کرو، نیکی کا حکم دو، برائی سے روکو، مصائب پر صبر کرو، زمین میں اکڑ کر نہ چلو بلکہ میانہ روی اختیار کرو، لوگوں کے ساتھ تکبر کا رویہ نہ رکھو، اور اپنی آواز پست رکھو۔*
پھر کفار کا ذکر کیا کہ یہ اللہ کے بارے میں بلا دلیل جھگڑا کرتے ہیں اور اللہ کے نازل کردہ احکام کی پیروی کے بجائے آباء و اجداد کی تقلید کو اہم سمجھتے ہیں۔ ساتھ یہ بھی بتادیا کہ شیطان ان کو عذاب کی دعوت دے رہا ہے۔
اللہ کے کلمات کی وسعت بیان کی گئی کہ زمین میں موجود تمام درخت اور سمندر بھی ان کو لکھنے سے قاصر ہیں۔ آخر میں اللہ اور روز آخرت سے ڈرنے کی تلقین کی گئی کہ اس دن کوئی کسی کے کام نہ آئے گا۔ نیز یہ بھی بتایا کہ اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش نازل کرتا ہے، جس جس کو اس دنیا میں آنا ہے اس کو بھی جانتا ہے۔ آنے والے وقت کا کسی کو علم نہیں۔ کسی کو نہیں معلوم کہ وہ کل کیا کمائے گا ہے نہ یہ معلوم ہے کہ وہ
کس جگہ وفات پائے گا۔ یہ سب اللہ کو ہی معلوم ہے۔ وہ خوب جاننے والا ہے۔
*سورہ سجدہ:*
اس کا آغاز بھی کتاب کے ذکر سے ہوا، نیز اللہ کی قدرت کی نشانیاں ذکر کی گئیں۔ فرمایا کہ اسی نے انسان کو بنایا اور *دل، دماغ آنکھیں اور کان دیے لیکن شکرگزار بہت کم* ہیں(یعنی ان آنکھوں دل اور دماغ کو حق کی پہچان اور اسکی پرچار کے لئے استعمال نہیں کرتے نہ ہی مخلوق کا درد محسوس کرتے ھوئے عاقبت کی تیاری کرتے ہیں)۔ پھر کفار کے اعتراض کا جواب دیا کہ تم مرنے کے بعد دوبارہ ضرور اٹھائے جاو گے اور اپنے رب کی طرف لوٹائے جاو گے۔
اس دن مجرم واپس دنیا میں جانا چاہین گے، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
*مومنین کی صفات* بتائی گئیں کہ وہ *اللہ کی آیات سن کر سجدہ ریز* ہوجاتے ہیں، راتوں کو بستر چھوڑ کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ ان کے لیے اللہ کے پاس وہ کچھ ہے جس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔
مومن اور ک اف ر ہرگز برابر نہیں ہوسکتے، مومن کا ٹھکانہ جنت ہے جبکہ ک اف ر کا جھنم ہے، جہاں سے وہ کبھی نہ نکل سکیں گے۔ اللہ تعالی روز قیامت تمام معاملات کا فیصلہ فرمائیں گے۔ کفار کو پہلوں پر نازل ہونے والے عذاب سے عبرت حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی۔ !آخر میں بتایا کہ کفار استہزاءا سوال کرتے ہیں کہ قیامت کب آئے گی، ان کو جواب دیا کہ اس دن کفار کا ایمان لانا کام آئے گا نہ ہی ان کو مہلت دی جائے گی۔
آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ آپ ان سے اعراض کریں اور انتظار کریں، وہ بھی انتظار کر رہے ہیں۔
*سورہ احزاب:*
یہ مدنی سورہ ہے، اس پارے میں اس کی تیس آیات ہیں۔ آغاز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے تقوی، ک ف ار و منافقین کی اطاعت نہ کرنے اور وحی کے اتباع کی تلقین سے ہوا۔
پھر حکم ہوا کہ متبنی (یعنی منہ بولا بیٹا) کو ان کے اصل آباء کے نام سے پکارو۔ وہ حقیقی بیٹے نہیں بن سکتے، ان کے ساتھ کسی اور کے نام نہ جوڑو۔ لہذا لے پالک اولاد کے ساتھ اپنا نام لگانے کی ممانعت ہے۔ نسب کسی حال میں نہیں بدلا جاسکتا۔ اسلام میں نسب کی حفاظت پہ بہت زور دیا گیا ہے۔ یہ حکم بھی اسی کے تحت آتا ہے۔
اس کے بعد بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مسلمانوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق ہے۔ امہات المؤمنین مسلمانوں کی مائیں ہیں۔ نیز ارحام کا بھی ایک دوسرے پر حق ہے (یعنی رشتہ داروں کا ایک دوسرے پر بہ نسبت عام مومنین و مہاجرین کے زیادہ حق ہے)۔
اس کے بعد غزوہ احزاب کا مفصل تذکرہ کیا گیا، کہ کس طرح اللہ تعالی نے مسلمانوں کو مشکل صورتحال سے بچایا، ایسا وقت آگیا تھا کہ جانوں کو خطرہ لاحق تھا، لیکن اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، کفار کے دلوں پر رعب طاری کیا اور ایسی آندھی بھیجی جس نے ان کو بھگا کر دم لیا۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم ہوا، بتایا گیا کہ ان کی ذات میں مسلمانوں کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ یہ بھی بتایا کہ اللہ تعالی صادقین کو ان کے صدق کا بہترین بدلہ دیں گے، البتہ منافقین کا معاملہ اللہ کی مرضی پر منحصر ہے چاہے تو معاف کردے چاہے تو عذاب دیدے۔
آخر میں نبی کو حکم ہوا کہ امہات المؤمنين سے کہیں کہ اگر وہ دنیاوی زندگی کا مال و متاع چاہتی ہیں تو میں آپ کو کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کردوں۔ اور اگر اللہ، رسول اور آخرت کا گھر چاہتی ہیں تو اللہ نے محسنات کے لیے بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔ پھر امہات المؤمنين کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اگر آپ میں سے کوئی بے حیائی کی مرتکب ہوئی تو اس کو دوگنا عذاب دیا جائے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply