سیاسی مداری ، بندر عوام/محمد سعد مکی شاہ

لینن لکھتا ہے کہ

” لوگ سیاست میں ہمیشہ دھوکہ اور خود فریبی کا بے وقوفانہ شکار ہوتے رہے ہیں اور اس وقت تک ہوتے رہیں گے جب تک وہ تمام اخلاقی، مذہبی، سیاسی اور سماجی نعرے بازی، تحریکوں اور وابستگیوں کے پس ِ پشت مختلف طبقاتی مفادات کو شناخت کرنے کی صلاحیت حاصل نہیں کر لیتے۔“

ملک میں دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ عدم استحکام کا شکار معاشی صورتحال اور سیاسی غیر یقینی کی صورت حال میں الیکشن ہو بھی پاتے ہیں یا نہیں؟ سیاسی کھلاڑی الیکشن کمیشن میں اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروا کے میدان میں اُتر کھڑے ہوئے ہیں۔

روایتی انتخابی معرکہ مارنے کی وہی روایتی ہلچل اور کوششیں شروع ہو گئی ہیں۔ سابقہ پیشہ ور اور نئے پرانے شوقین چہرے عوامی نمائندگی کا گمراہ کن اور بوسیدہ نعرہ بلند کر کے عوامی رابطہ مہم شروع کر چکے ہیں۔جدت کا فقط یہ احوال ہے کہ سیاستدانوں کے ہرکارے، نمائندے، ٹاؤٹ، گماشتے اور مفاد پرست ان کے ہمنوا دھڑا دھڑ وٹس ایپ گروپ بناتے اور بے دریغ ان میں لوگوں کے فون نمبرز ایڈ کیے جاتے ہیں۔

ان وٹس ایپ گروپس میں فقط سیاستدان موصوف کی جملہ سرگرمیوں، ان کے ساتھ حامیوں کی سیلفیوں کی بھرمار اور لوگوں کی طرف سے واہ واہ اور مبارکبادوں کے میسیجز کی بھرمار اور تکرار ہے۔

اب آگے مزید کیا ہو گا کہ سیاستدانوں کی طرف سے جذباتی، سطحی مگر پُرکشش قسم کے چند جھوٹے سچے نعروں، وعدوں اور ارادوں کا اظہار ہو گا نالی، گلی، سولنگ وغیرہ کی تعمیر، بجلی کا کھمبا، درجہ ایک تا چہارم کی نوکری کے سبز باغ پر ہم اپنا بیش قیمتی ووٹ بیچ دیں گے۔یہاں نہ تو کسی سیاستدان کو علاقائی سطح کے عوامی مسائل کا حقیقی ادراک ہے اور نہ ہی کسی نے اپنی پارٹی پالیسی یا منشور سے قطع نظر اپنا کوئی تحریری منشور ہی پیش کرنے کی زحمت کی ہے۔

دوسری طرف ہم عوام ہیں کہ 75 سالہ مسلسل استحصال زدہ ہونے، نان ایشوز کو ایشو سمجھنے اور اشرافیہ کی طرف سے پروپیگنڈا کی بدولت لاشعوری طور پر عجیب قسم کی مرعوبیت اور ذہنی غلامی کا شکار ہیں۔

بقول شخصے ”بلاشبہ قحط زدہ قسم کے معاشروں میں نفسیاتی اور ذہنی طور پر صحت مند نسل کبھی پروان نہیں چڑھتی“

عوام کو بھی ہمارے حقیقی مسائل کا ہرگز ادراک نہیں ہے۔

سب سے پہلے تو عوام ذات، برادریوں، مذہب، مسلک، لسانیت، صوبائیت اور بہت سی دیگر قبیحات کی بدولت باہم تقسیم ہیں۔

ہمارا دوسرا مسئلہ آئین پاکستان میں مندرج ہمارے حقوق سے عدم واقفیت ہے۔ریاست ہمیں مفت تعلیم، صحت، روزگار، مکان، پبلک ٹرانسپورٹ فراہم کرنے کی پابند ہے مگر ہم نے ریاست، اشرافیہ اور سرمایہ داروں کے زر خرید میڈیا پر آئین کی مذکورہ شقوں کی بابت کبھی نہیں سنا۔

آئین کو فقط اشرافیہ کے حقوق کا محافظ بنا دیا گیا ہے۔

توشہ خانہ کی ہی مثال دیکھ لیں اس سے متعلق جملہ قوانین اشرافیہ نے اشرافیہ ہی کے لئے بنائے ہیں مجال ہے کہ کوئی عامی توشہ خانہ سے مستفید ہو پایا ہو۔کیا یہ اشرافیہ عوام کو آٹے کی حقیقی قیمت کے بدلے 20 فیصد قیمت پر فراہم کرنے کا قانون کبھی بنائے گی؟

منتخب نمائندوں ایم این ایز، ایم پی ایز کو ترقیاتی فنڈز دینے کی بدعت مرحوم جنرل ضیاء الحق نے اپنی آمریت کے تحفظ کے لئے بطور رشوت شروع کی۔ علاقے کے اسسٹنٹ کمشنر و ڈپٹی کمشنرز کو بھی ان کی ماتحتی میں دے دیا گیا اور انہیں نوکریوں کے کوٹے بھی دیے۔

تب سے ان سیاستدانوں نے گویا انہی ترقیاتی فنڈز سے اپنے سیاسی بزنس کو ترقی دینے کی بنیاد ڈالی۔

سدا سے محروم طبقات کے ووٹ ترقیاتی سکیموں کے عوض خریدے گئے، ہرکارے اور گماشتے بھرتی کیے گئے۔ اے سی اور ڈی سی سے سرکاری ملازمین کے تبادلوں کے بدلے بھی ووٹ لئے جاتے۔

اپنی سیاسی کمپین کے خرچے بھی ترقیاتی فنڈز سے ہی ہونے لگے اور یوں سیاست کا یہ کاروبار روز افزوں پھلتا پھولتا چلا گیا۔

اب انہیں انوسٹرز بھی ملنے لگے جو سیاستدان کی الیکشن مہم پر پانچ چار لاکھ روپے خرچہ کرتے اور بعد میں بدلے میں ان سے جائز نا جائز کام، ٹھیکے، آگے بیچنے کے لئے نوکریاں اور دیگر مراعات حاصل کرتے اور یہ سلسلہ پہلے سے کہیں زیادہ ترقی کر کے آج تک جاری و ساری ہے۔ آج وہی پیشہ ور سیاستدان اور نئے سرمایہ دار اپنے سماجی مقام و مرتبے اور دولت کو مزید بلند کرنے کے لئے ہی عوامی نمائندگی کا ڈھول پیٹ رہے ہیں اور عوام بدستور اپنی سابقہ روش نالی، گلی، سولنگ، نوکری کے جھوٹے سچے وعدوں پر ان کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر کاربند ہیں۔

لینن ہی نے کہا تھا

” محکوم عوام کو کچھ سالوں کے بعد یہ فیصلہ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے کہ ظالم طبقے کے کون سے نمائندے پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی کے نام پر مزید ظلم کریں گے۔“

تو اب بزعم خود عوامی نمائندوں ( سیاستدانوں ) کا اصل کام ہوتا کیا ہے؟ تو اس کا مختصر جواب ہے ”نبض شناسی“

محکوم، مظلوم اور مقہور عوام کے حقیقی مسائل کی دریافت، تعین اور ان کے حل تلاش کرنا، انہیں قابلِ عمل بنانے کے لئے ان کی آواز متعلقہ ریاستی اداروں تک پہنچانا اور اس بابت قانون سازی کو ممکن بنانے کی ہر ممکن کوشش کرنا ہی حقیقی سیاست اور سیاستدان کے فرائض میں شامل ہے۔

میں اسلامی جمہوریہ ایران میں کافی عرصہ قیام پذیر رہا ہوں وہاں یہ بات میرے مشاہدے میں آئی کہ منتخب نمائندوں کا ترقیاتی کاموں سے فقط اتنا ہی تعلق ہے کہ ریاستی ادارے ان سے مزید بہتری کی تجاویز طلب کرتے ہیں۔ ترقیاتی سکیمیں اداروں کے خودکار نظام کے تحت باری آنے پر شروع ہو جاتی ہیں۔ وہاں سیاستدان فقط قانون سازی سے متعلقہ امور سے ہی متعلق رہتے ہیں اور وہاں کی عوام ان سے کسی بھی طرح ہرگز مرعوب نظر نہیں آتی۔

یہاں اب   ہماری اس تحریر کا با مقصد ترین سوال یہ ہے کہ ہمارے حقیقی مسائل ہیں کیا اور ہمارا سیاستدانوں سے مطالبہ کیا ہونا چاہیے؟

اپنے متعلقہ سیاستدان سے پوچھیے کہ مہنگائی کا اس کے پاس کیا حل ہے؟
آٹا، گھی، چینی اور پٹرول پر عوام کے لئے بہرصورت 50 فیصد ریلیف درکار ہے۔

پوچھیے کہ ہمارے علاقے میں بیروزگاری بہت زیادہ ہے تو انڈسٹریل موبلائزیشن کے ذریعے وہ ہمارے علاقے میں کوئی بڑا صنعتی یونٹ، انڈسٹری لگوانے میں اپنا کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟ کہ جس سے بیروزگاری کی شرح میں کمی آئے، لوگ برسر روزگار ہونگے تو علاقے میں کاروبار کی فضا بہتر ہوگی اور عوام کی قوت خرید بڑھنے سے خوشحالی کے امکانات پیدا ہوں گے۔

پوچھیے کہ ہمارے علاقے میں بوائز اور گرلز کے لئے گورنمنٹ ٹیکنیکل ٹریننگ سنٹرز اور ووکیشنل ٹریننگ سنٹرز نہیں ہیں۔ جس سے نوجوان بچے اور بچیاں ہنرمند ہونگے۔ اس کے لئے آپ کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟

ان سے پوچھیے کہ مزدور کی کم از کم تنخواہ مہنگائی کے تناسب سے 50 ہزار روپے ماہانہ کروانے، قانون سازی کروانے اور اس پر عمل درآمد کروانے کے سلسلے میں آپ کیا کر سکتے ہیں؟

ان سے یہ بھی پوچھیے کہ تعلیم 100 فیصد مفت کرنے، بے زمین کاشتکاروں کو کاشت کے لئے سرکاری زمین 99 سالہ لیز پر دینے، بے گھروں کو 5 مرلہ سکیم میں مفت پلاٹ دینے کی بابت قانون سازی میں آپ کیا کردار ادا کر سکتے ہیں اور کس سطح پر آواز اٹھا سکتے ہیں؟

پوچھیے کہ ہمارے علاقے میں چوری، ڈکیتی کی وارداتیں بہت زیادہ ہو گئی ہیں، پولیس موبائل گشت اور علاقے میں سیف سٹی پراجیکٹ کیمرے لگوانے میں آپ کس قدر اثر و رسوخ استعمال کر سکتے ہیں؟

مختصراً یہ کہ یہ مسائل ڈسکس کریں جو کہ کسی سیاستدان کے وہم و گمان تک میں نہیں ہیں تو ان کے منشور میں کیسے ہو سکتے  ہیں؟ غضب تو یہ کہ ان کے پاس سِرے سے منشور نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔

مزے کی ایک اور بات یہ ہے کہ سیاستدانوں اور عوام دونوں کے ذہنوں میں بیک وقت فقط وہی نالی، گلی، سولنگ، بجلی کا کھمبا، زیادہ سے زیادہ درجہ چہارم تک کی ایک آدھ نوکری اور متعلقہ تھانے میں ایک آدھ سفارشی فون ہے۔

یہاں چالاک کون ہے؟ فیصلہ آپ پر چھوڑتے ہیں۔

بہرحال ایک حقیقت بتاتا چلوں کہ سیاستدانوں کے من گھڑت فلسفے اور چکنی چپڑی، جذباتی باتوں سے قطع نظر نوع انسانی کا اولین اور بنیادی مسئلہ بقاء کا ہے، جان و مال کا تحفظ، فوری انصاف کی فراہمی، بنیادی ضروریات زندگی بالخصوص خوراک، مکان، تعلیم، صحت کا حصول، قدرتی و سائنسی وسائل پہ یکساں حق، ذہنی و جسمانی اور نفسیاتی نشوونما و ترقی کے یکساں مواقع ہیں۔

جب ہم ان مسائل پر خود سوچیں گے تو ہمیں ہمارے مزید ضمنی مسائل کا ادراک بھی ہو گا وگرنہ یاد رکھیے
امیر شہر غریبوں کو لوٹ لیتا ہے
کبھی بہ حیلۂ مذہب، کبھی بنام وطن

ہمیں ان سیاستدانوں کی مرعوبیت سے نکل کر ان سے کھل کر بات کرنی ہوگی وگرنہ ان سے فائدہ پھر بھی ان کے ارد گرد موجود ہماری لوکل منی اشرافیہ، ان کے خوشامدی گماشتے اور ایجنٹ ہی اٹھائیں گے۔ مزدور، کسان، مڈل کلاس والے بدستور روتے پیٹتے رہ جائیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہاں اگر آپ یہ سب کچھ نہیں کر سکتے تو صاف، واشگاف انداز میں ان سے کم از کم 5 ہزار روپے فی ووٹ اور زیادہ سے زیادہ، جتنا زیادہ لے سکیں لے کر دیہاڑی بنا لیں مگر پھر کبھی اپنے مسائل کا رونا مت روئیے گا ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply