• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • دُہائی ہے حضور دُہائی۔۔سیّد کلیم اللہ شاہ بخاری

دُہائی ہے حضور دُہائی۔۔سیّد کلیم اللہ شاہ بخاری

دُہائی ہے حضور دُہائی۔۔کلیم اللہ شاہ بخاری/پیٹرول کی قیمت کا موازنہ اگر ہمسایہ یا یورپی ممالک سے کیا جائے تو فوراً  اعتراض داغ دیا جاتا ہے، کہ وہاں کی فی کس آمدنی اور عوام کی قوتِ  خرید زیادہ ہے اس لیے یہ موازنہ غلط ہے۔ بندہ پوچھے کہ کیا تیل پیدا کرنے والے ممالک تیل بیچتے وقت فی کس آمدنی اور قوت خرید دیکھ کر تیل کی قیمت لگاتے ہیں ؟ اگر ایسا نہیں ہے اور تیل عالمی منڈی سے عالمی نرخ پر خریدا جا رہا ہے تو اس کو کوئی بھی حکومت سبسڈی دیے بغیر سستا نہیں کر سکتی۔ تو کیا موجودہ حکومت سبسڈی دینے کی پوزیشن میں ہے کہ  ایک لیٹر کے پیچھے تیس سے چالیس روپے سبسڈی دے کر تیل کی ملکی قیمت کو کم رکھے ؟
کیا عمران خان کو اس قوم کی “واٹ” لگا کر مقبول ترین سے غیر مقبول ہونے کا جنون سوار ہے؟

کہا جا رہا ہے اور بہت سے دانشور تواتر سے فرما رہے ہیں کہ حکومت نا اہل ہے اور کسی چیز کا کنٹرول ان کے ہاتھ میں نہیں آ رہا ۔ لیکن اعدادوشمار پر سرسری نظر ڈالنے سے ہی پتا چل رہا ہے کہ معیشت میں کتنے ہی ایسے اشاریے ہیں جو پاکستان کی حالیہ تاریخ میں کبھی مثبت نہیں ہوئے، 19 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ موجودہ حکومت نے کسی بھی پریشر کو بروئے کار لائے بغیر دو سال میں مثبت کر دکھایا۔ بیرون ملک پاکستانیوں کو آمادہ کیا کہ وہ ریکارڈ ڈالر ملک میں بھیجیں جس سے ملک کی مشکلات میں کمی ہو۔ ملک میں کاروبار، ایکسپورٹ، کارخانے، تعمیراتی کام سے جڑی صنعتیں ریکارڈ بنا رہی ہیں۔

اسی طرح کی کئی اور مثالیں ہیں جو روز روشن کی طرح واضح ہیں کہ یہ کام حکومت کی معیشت کی طرف انتہائی سنجیدگی کا نتیجہ ہیں۔

ہم نے بار ہا وہ کہانی سن یا پڑھ رکھی ہے کہ ایک گھر میں عیاشی اور پُر تعیش تفریحات کا دور دورہ تھا اور وہ عیاشی دراصل قرض لے لے کی  جارہی تھی۔ قرض اور سود کی واپسی کا وقت آتا تو کہیں اور سے سود در سود قرض لے لے کر آدھا ادائیگی میں اور آدھا مزید تعیشات کی فراہمی میں استعمال کیا جا رہا تھا۔ گھر کے عارضی سربراہوں نے گھر والوں کا بال بال قرضوں میں جکڑ کر پتلی گلی کی راہ لی اور اصل سربراہ کے آنے پر دیوالیہ ہونے کی نوبت سر پر تھی اور سارے علاقے میں کوئی قرض دینے کو آمادہ نہ تھا اور قرض خواہوں نے گھر کی عزت سمیت ہر کام کی چیز پر نظر رکھی ہوئی تھی۔ اب اصل سربراہ نے قرض کی واپسی کا اہتمام کرنا تھا جس میں سب سے پہلے تمام عیاشیوں اور فضول تفریحات پر پابندی، کھانا تین وقت کے بجائے دو وقت کر دیا۔ اور پھر گھر والے سارے محلے میں دہائیاں دینے لگے کہ اس نے ہمارا جینا حرام کر دیا۔

پاکستانی عوام کو یہ دہائیاں کئی دہائیاں قبل دینی چاہیے تھیں  کہ ہماری نسلوں کو قرضوں میں جکڑ کر اپنی نسلوں کے لیے دبئی اور انگلینڈمیں محلات اور بزنس ایمپائرز نہ کھڑی کرو ورنہ ہمیں ایک دن ان قرضوں اور ان کے سودی انبار کو واپس کرنے کی خاطر کار سے سائیکل پر آنا پڑے گا۔
تین وقت کی بجائے دو وقت کی روٹی کھانی پڑے گی۔

کیا کسی کو بھی اندازہ ہے کہ پاکستان نے کس ملک اور ادارے کے کتنے پیسے ایک سال میں ادا کرنے ہوتے ہیں۔ اور کیا کسی کو یہ بھی اندازہ ہے کہ پینتیس سال جن ظالموں کے نعرے لگائے اور قطاروں میں کھڑا ہو کر ان کو ووٹ دیا انھوں نے اس ملک کا کتنا پیسہ  لوٹا اور بیرون ملک ٹاور اور محلات کھڑے کیے۔ متحدہ عرب امارات میں ساری زندگی کمانے والے یہاں ایک چھوٹا سا فلیٹ نہیں خرید سکتے اور یہاں ان بدبختوں کی اس قدر مہنگی جائیدادوں کے انبار ہیں جن کو ہماری قوم نے ہر الیکشن پر نجات دہندہ سمجھ کر سر پر بٹھایا۔

ایک طعنہ مارا جاتا ہے کہ آپ چونکہ درہم اور ڈالر میں کما رہے ہو اس لیے آپ کو فرق نہیں پڑتا لیکن مسئلے کی اصل بنیاد کو کوئی نہیں دیکھتا۔
کچھ دانشوروں کو عمران خان سے پیدائی بغض ہے اور کچھ عوام میں مقبول بیانیے کو لے کر چلتے ہیں تا کہ ان کی مقبولیت میں فرق نہ آئے۔
پینتیس سال کا گند اور قرضوں کے انبار میں تین سال میں کوئی فرشتہ یا جالینوس بھی ہمیں دودھ کی نہریں نہیں بہا کے دے سکتا۔

کیا یہ وہی عمران خان نہیں ہے جس نے غریبوں کی خاطر اپنی زندگی کا قیمتی ترین وقت دے کر حکومت میں ہوئے بغیر عظیم الشان منصوبے مکمل کیے۔ تو کیا اس کو احساس نہیں کہ  غریب اور متوسط طبقہ کی زندگی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ کینسر کا علاج بہت لمبا اور صبر آزما ہوتا ہے لیکن مریض تکلیف کی حالت میں اپنے معالج پر بھی چلانا شروع کر دیتا ہے۔

اس معاملے کا ایک اور پہلو بھی ہے ، جس کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ دبئی میں چودہ سال پہلے تازہ دودھ 5 درہم فی لیٹر تھا۔ آج اس کی قیمت ساڑھے پانچ سے چھ درہم فی لیٹر ہے ۔ جبکہ پیٹرول کی مثال دوں کہ ایک سال پہلے میری گاڑی میں ستر لیٹر پیٹرول 125 درہم کا بھرتا تھا ۔ اب وہی ستر لیٹر 175 درہم کا بھرتا ہے۔ پیٹرول کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافے کے باوجود بنیادی ضروریات کی اشیاء جیسے دودھ وغیرہ میں کوئی زیادہ فرق نہیں پڑا۔ لیکن قوم صالح علیہ السلام کی خصوصیات رکھنے والی میری پیاری پاکستانی قوم میں مافیاز اس قدر طاقتور ہیں کہ تیل کی دو روپے قیمت بڑھنے سے ہر چیز میں حد سے زیادہ منافع خوری کا ایک دور شروع ہو جاتا ہے۔ ہم میں ہر ایک اپنی جگہ پر منافع خور اور مجبوری کا فائدہ اٹھانے میں کمال مہارت رکھتا ہے۔

آپ نے عمران خان کو ایک لولی لنگڑی حکومت دی ہے۔ پینتیس چالیس سال کی ذلالت کے بعد بھی سادہ اکثریت نہ دے پائے اسے۔ ایسی حکومت جس میں ہر اتحادی اپنی لمبی زبان نکال کے بلیک میل کر رہا ہے ۔ جس میں ایک وزیر کو ایک وزارت سے فارغ کر کے اسے دوسری وزارت تھمانا عمران خان کی مجبوری بن گئی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایسی حکومت کے باوجود ملک کو خان نے دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے۔ سارے معاشی اشاریے ترقی کے راستے کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ کسی کو اگر دیوالیہ کا مطلب دیکھنا ہے تو تیل کی دولت سے مالا مال لیکن معاشی طور پر دیوالیہ ملک وینزویلا کے حالات یو ٹیوب پر دیکھ لیں اور صبر کریں۔ اچھے دن آئے نہیں لیکن دور بھی نہیں ،انشاء اللہ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply