عمران آڈیو- ن لیگ کہنا کیا چاہتی ہے؟/آصف محمود

عمران خان کی تیسری آڈیو لیک سامنے آ چکی ہے ۔سوال یہ ہے کہ اس میں نیا کیا ہے اور اس میںحیرت کی کیا بات ہے اور اس پر اتنی اچھل کود کس لیے ہو رہی ہے؟اگر مقدمہ یہ ہے کہ دیکھیے عمران خان بے نقاب ہو گئے تو سوال یہ ہے کہ عمران صاحب کے پاس اب کون سا نقاب باقی رہ گیا ہے جو ان کے نامہ اعمال کو ڈھانپ سکے؟ وہ تو کسی جان ادا کی طرح اس سماج پر ایسے کھلے کہ ایسے کھلے۔ ان کے دعوے اور ان کا نامہ اعمال ، سب چوراہے میں پڑا ہے۔ نہ کوئی حسن ظن باقی ہے نہ کوئی امید۔ بائیس سال کی یہ ساری جدو جہد ایک ڈرائونا خواب بن کر رہ گئی ہے۔ خوود عمران خان غلطی ہائے مضامین کا مجموعہ بن چکے۔ کون سی خوش فہمی اب باقی رہ گئی تھی جو اس آڈیو لیک نے دور کرنا تھی؟ ان کے اعتبار کے موسم تو کب کے گزر چکے۔ اب خزاں رت کے ان نئے سندیسوں کا عنوان جو بھی ہو یہ ایک حادثہ رائیگاں کی راکھ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس میں اب نہ کوئی معنویت ہے نہ حیرت۔جو کہانی سارے شہر کو معلوم ہے یہ اسی کہانی کے مختلف عنوانات ہیں۔ ان سے اب کسی کو حیرت بھی نہیں ہوتی کیونکہ عمران خان ان مقامات آہ و فغاں سے کب کے گزرچکے جنہیں حیرت کہا جاتا ہے۔ ان سے منسوب اب کیسی ہی خبر کیوں نہ آ جائے اسے انہونی نہیں کہا جاسکتا۔ ڈاکٹر فاسٹس کی طرح انہوں نے اپنی قدروں کو پامال کیا۔ اب جب ان سے کوئی حسن ظن باقی ہی نہ رہا تو ان کے نامہ اعمال کی قوس قزح پر حیرت کیسی؟ سوال مگر یہ ہے کہ ن لیگ اور اس کے اہل دربار کس بات پر داد شجاعت دے رہے ہیں؟ کیا وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ عمران اس حد تک گر گئے کہ ن لیگ کے مقام پر آ کھڑے ہوئے؟ اور جو تیرگی ن لیگ کے نامہ اعمال میں چھانگا مانگا کی چھائوں میں لگی تھی ،بالآخر عمران کے دامن سے بھی لپٹ گئی؟ اگر مقدمہ یہی ہے کہ دیکھیے عمران خان اخلاقیات میں اب اس مقام پر آ گئے ہیں کہ بالکل ن لیگ کے ساتھ ہی کھڑے ہو گئے ہیں تو سوال یہ ہے کہ ا س سے ن لیگ کیسے سرخرو ہو سکتی ہے؟ اگر اس نا مبارک حرکت پر عمران خان پر تبرا کیا جا تا ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ اس حرکت کو فن کا درجہ دینے والی ن لیگ کی آرتی کیسے اتاری جا سکتی ہے؟ اگر اراکین کی خریدفروخت کے عزم سے عمران خان ابن الوقت سیاست دان ثابت ہوتے ہیں تو چھانگا مانگا کی میراث مانگ میں سجا کر ن لیگ عزیمت کی علم بردار کیسے بن سکتی ہے؟ عمران سے خوش گمانی رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد ان پر نقد بھی کرتی ہے اور میرے جیسے تو ان سے آخری درجے میں بے زار ہو چکے ہیں۔ میری یہ شعوری رائے ہے کہ عمران خان ہیجان کی سیاست کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔ تعمیر ان کے بس کی بات ہی نہیں۔ جب سے وہ سیاست میں آئے ہیں ملک اور معاشرے ک ایک ہیجان اور اضطراب سے دووچار کر رکھا ہے۔ ایک سیاسی رہنما کم اور ایک امتحان وہ زیادہ لگتے ہیں ، لیکن دوسری صف میں تو ایسی وابستگی ہے جیسے اس دھرتی کی پہلی اور آخری صداقت کا نام نواز شریف ہے۔ عمران خان نے مایوس کیا ہے ، اس میں کیا شک ہے لیکن لیگ نے کون سی مسیحائی کی ہے۔یہ کیسے دیانت ہے کہ جس نامہ اعمال پر عمران خان کو الزام دیا جائے اسی نامہ اعمال کے ساتھ ن لیگ کے سہرے کہے جائیں؟اراکین کی خرید و فروخت بلا شبہ ایک شرمناک چیز ہے لیکن کیا ن لیگ کا دامن اس سے صاف ہے؟ اب اگر خرابی کو پیمانہ بنایا جائے تو تنقیدتو پھرا س پیمانے پر ہونی چاہیے۔ ہمیں بھولنا نہیں چاہیے کہ اس سیاست میں خریدو فروخت کو ایک زمینی حقیقت کے طور پر کس نے متعارف کرایا؟ کوئی ہے جو ن لیگ سے یہ اعزاز چھین سکے۔ ذرا ایک فہرست توبنائیے کہ کتنے سیاسی خانوادوں کو کہاں کہاں ن لیگ کے دور میں نوے نوے سال کی لیز پر زمینیں الاٹ کی گئیں جن سے وہ آج تک فیض یاب ہو رہے ہیں اور کتنے تحصیلدار سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیے گئے جو آج ترقی پا کر کہاںکہاں پہنچ چکے۔ایک ایک ادارے کو کرپٹ کیا اور اپنے کارندوں کو سرفراز کیا۔اس کلچر سے آج اگر بے زاری اختیار کرنا ہے تو اس کلچر کے معمار سے کیسے صرف نظر کیا جا سکتا ہے؟ عمران خان پر شوق سے تنقید کیجیے کہ وہ گر گئے لیکن ساتھ بتائیے تو کہ کتنا گر گئے؟ کوئی ملک الشعراء یہ تو کہے کہ عزیز ہم وطنو ، دیکھو عمران خان تو اتنا گر گئے ، اتنا گر گئے کہ بالکل ہمارے ہی مقام پر آ کھڑے ہوئے اور بالکل ہمارے جیسے ہی ہو گئے۔ پھر کوئی خاک نشیں سوال پوچھ ہی لے گا کہ اگر دونوں ایک جیسی کھائی میں اوندھے گرے پڑے ہو تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اک کی ہجو کہی جائے اور دوسرے کا سہرا؟ کس سادگی سے کہا جاتا ہے دیکھیے عمران کو اپنی ایمانداری کا بڑا دعوی تھا ۔ہم نے تو کبھی ایسا دعوی نہیں کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ن لیگ یہ کہہ کر سیاست کرتی رہی کہ ہم آئیں گے تو چور بازاری اور کرپشن کریں گے اورہمارا تو نیک نامی کا نہ کوئی دعوی ہے نہ اس تکلف سے ہمارا کوئی واسطہ؟ عمران کے خلاف مقدمہ کیا ہے؟ یہی کہ اب اس میں اور دوسروں میں اخلاقی اعتبار سے کہیں بھی کوئی فرق نہیں رہا۔ سب ابن الوقت نکلے ، سب کے دامن سے جھوٹ لپٹاہے ، سب اپنے مفادات کے اسیر ہیں اور کسی کے پاس بھی ملک کی بہتری کے لیے سماجی ثقافتی ، تعلیمی یا معاشی کسی قسم کا کوئی ایجنڈا موجود نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس نتیجہ فکر کے ساتھ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک راندہ درگاہ قرار دیا جائے اور ایک سرخرو۔ہارس ٹریڈنگ اگر برائی ہے اور یقینا ہے تو اس فن کے امام اس ذمہ داری سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ کیا کسی کو یاد ہے کہ شاہد اورکزئی نے سپریم کورٹ جا کر کیا موقف اختیار کیا تھا؟ انہوں نے کہا تھا کہ نواز شریف صاحب نے انہیں فاٹا کے اراکین خریدنے کے لیے ایک خاص رقم کے عوض ذمہ داری سونپی اور اب وہ اس کی پوری ادائیگی نہیں کر رہے۔ہارس ٹریڈنگ کا یہ پہلا واقعہ ہے جو عدالت عظمی تک پہنچا۔ اور شاہد اورکزئی کون تھے؟ میاں صاحب کے پولیٹیکل ایڈوائزر تھے۔ حیرت ہوتی ہے کیسے کیسے بت تراشے جاتے ہیں۔ کیا یہی اسحاق ڈار نہ تھے جن کے آخری بجٹ میں بیرونی قرض کی ادائیگی کا حجم دفاعی بجٹ سے بھی بڑھ گیا تھا۔عمران حکومت کی نا اہلی کسی تعارف کی محتاج نہیں لیکن یہ نا اہلی مسلم لیگ ن کی کامرانی نہیںبن سکتی۔ ن لیگ کا نامہ اعمال اگر عمران کو سرخرو نہیں کر سکا تو عمران کی غلطیاں ن لیگ کو معتبر نہیں بنا سکتیں۔ کارکردگی پر توجہ دیجیے۔عین نوازش ہو گی۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply