مولویت نہیں دینداری۔امیر جان حقانی

مولویت درس نظامی سے فراغت کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ذہنیت ہے جو استحصالی ہے۔ مولویت زدہ استحصالی ذہنیت پر مشتمل افراد بہت قلیل ہیں لیکن جو ہیں وہ بااختیار ہیں۔اس بااختیار استحصالی ذہنیت سے ان کی برادری کے افراد ہی متاثر ہورہے ہیں۔ اور انہی کے ادارے برباد ہورہے ہیں۔ یہ ایک ایسی ذہنیت ہے جو کوئی کام ڈھنگ سے کرنے نہیں دیتی۔ میرا ایک دوست ہے جو عصری تعلیم یافتہ ہے لیکن کامل دیندار ہے۔ وہ ایک ادارہ چلاتا ہے۔ اس نے مجھے اپنے ادارے کی پوری تفصیلات بتائی کہ کس کسمپرسی میں کام شروع کیا تھا(لیکن وژن کے ساتھ)۔ چند سالوں میں اس کے ادارے نے بہت ترقی کی۔ کئی کیمپس قائم کیے۔ آج ایک چھوٹے سے شہر میں اس کے دستخط سے ماہانہ اٹھائیس لاکھ روپے  کی رقم  تنخواہ کے طور پر  ملازمین کو ادا کی جاتی ہے۔کئی غریب بچوں کو  مفت   تعلیم بھی دے رہے ہیں۔ اس کی ذہنیت میں استحصالی سوچ نہیں دینداری غالب ہے۔ اس کے تمام معاملات بھی دینی احکام کے مطابق ہیں۔اس کے ملازمین اس سے مطمئن ہیں۔

میں کئی ایسے اداروں کو جانتا ہوں، جن سے میری بے شمار عقیدت ہے۔ میں ان کے لیے کبھی کبھار فری میں خدمات بھی انجام دیتا رہتا ہوں بعض معاملات میں۔وہ این جی اوز(خیراتی) ادارے ہیں یعنی ان کو بڑا تعاون بھی حاصل ہے۔ اس طرح کے اور بھی بہت سارے ادارے ہیں جن کے متعلق مکمل آگاہی رکھتا ہوں کیونکہ ان میں میرے قریبی احباب کام کرتے ہیں۔مجھے ان اداروں سے محبت ہے۔میری چاہت ہے کہ وہ ترقی کی  منازل طے کرے لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ مجھے لکھنا پڑتا ہے کہ ان اداروں میں مولویت یعنی استحصالیت غالب ہے۔یہ ادارے اسی استحصالی ذہنیت کے لوگوں کے نرغے میں ہیں اس لیے پھلنے پھولنے کے بجائے سکڑتے جارہے ہیں۔ دین کے نام کی وجہ سے عام الناس بھی اعتماد کرتے ہیں لیکن چندبااختیار افراد پر مشتمل یہ استحصالی ذہنیت ان اداروں کو ترقی و عروج پر لے جانے کی بجائے تنزلی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ان اداروں کے کارپردازوں میں یہی ذہنیت پائی جاتی ہے اس لیے ان کا عملہ ان سے بہت شاکی ہے اور مناسب جگہ ملنے پر وہاں ایک گھنٹہ بھی رہنے کو تیار نہیں۔

ہمدردی کی وجہ سے میں نے ان استحصالی ذہنوں سے بیسویں دفعہ گزارش کی کہ آپ اپنے عملے کے ساتھ فسلیٹیٹر (تعاون کرنے والا) بن جائیں نہ کہ ڈکٹیٹر بن کر ادارے  کا بیڑہ غرق کریں۔ دین کے نام پر خود تو مزے کرو لیکن اپنے عملے کو جائز حق دینے پر بھی تیار نہ ہو، اس سے بڑا ظلم کیا ہوسکتا ہے۔کراچی میں  ایک صاحب  جاننے والے ہیں ۔ انتہائی دیندار اور دینی و عصری علوم سے مزین لائق ترین انسان۔ انہیں بیکن ہاوس جیسے تعلیمی اداروں میں پڑھانے کی آفر ہے لیکن ذہنی طمانیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ وہاں اچھی تنخواہ کے باجود جوائن نہیں کرتے۔ ا ن کے تدین اور جذبے کو دیکھ کر میں نے کہا کہ پھر آپ کو فلاں (دینی وفلاحی اسکول) جوائن کرنا چاہیے تو ان کا جو رسپونس تھا وہ انتہائی حیران کن اورافسوسناک تھا۔ کہا کہ میرے اندر بھی یہ جذبہ غالب تھا تو میں نے وہ اسکول جوائن کیا۔ عربی  ٹیچر کے طور پر سیلکشن ہوئی تھی، لیکن جب اس ادارے کے ذمہ دار کو معلوم ہوا کہ میں یونیورسٹی سے ڈگری ہولڈر ہوں تو پھر انہوں نے مجھے عربی کی بجائے انگلش، جنرل سائنس، اردو پڑھانے پر لگا دیا۔ دو ماہ تک میں خاموشی سے پڑھاتا رہا۔ دو ماہ بعد میں نے عرض کیا کہ میری اپائمنٹ عربی  کے لیے ہوئی تھی۔ میں کوئی جانور نہیں کہ آپ اپنی مرضی سے یہ سارے مضامین پڑھوا لیں۔ اس تنخواہ پر میں اتنے مضامین نہیں پڑھا سکتا۔میں عربی  ہی پڑھاؤں گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

تو  جواب ملا، اگرآپ نے اس تنخواہ(چھ ہزار) پر یہ سارے مضامین نہیں پڑھانے ہیں تو آپ  جا سکتے ہیں ۔ میں آرام سے اپنا سامان سمیٹا اور گھر کی راہ لی۔اور اگلے دن  دوسرا  اسکول جوائن کیا جہاں میری تنخواہ اٹھارہ ہزار ہے۔ تاہم پہلے والے ادارے نے دو ماہ اتنا سخت کام لینے کے باوجود بھی میری تنخواہ(بارہ  ہزار) ادا نہیں کی بلکہ آج تک نہیں کی، اللہ ان کے ساتھ نمٹ لے گا۔وہاں تنخواہیں بھی وقت پر نہیں ملتی تھیں حالانکہ ان کے اکاؤنٹ  میں  بڑا پیسہ ہوتا ہے  اور طلبہ و طالبات فیسیں بھی وقت پر ہی ادا کرتے ہیں۔یہ ہے وہ استحصالی ذہنیت جو اس طرح کے عوامی ودینی بااعتماد اداروں کو تنزلی کا شکار بنالیتی ہے۔میرے پاس   اس قسم کی استحصالیت کے درجنوں واقعات آپ کے گوش گزار کرنے کو موجود ہیں ، جو کسی مناسب وقت پر  ضرور بیان کروں گا۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔

Facebook Comments

امیر جان حقانی
امیرجان حقانیؔ نے جامعہ فاروقیہ کراچی سےدرس نظامی کے علاوہ کراچی یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس اور جامعہ اردو سے ماس کمیونیکشن میں ماسٹر کیا ہے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ اسلامی فکر، تاریخ و ثقافت کے ایم فل اسکالر ہیں۔ پولیٹیکل سائنس کے لیکچرار ہیں۔ ریڈیو پاکستان کے لیے2010 سے مقالے اور تحریریں لکھ رہے ہیں۔اس کے ساتھ ہی گلگت بلتستان کے تمام اخبارات و میگزین اور ملک بھر کی کئی آن لائن ویب سائٹس کے باقاعدہ مقالہ نگار ہیں۔سیمینارز اور ورکشاپس میں لیکچر بھی دیتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply