• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بیداری مِلّت – چھٹی قسط / مؤلف: علامہ نائینی/ مترجم: اعجاز نقوی

بیداری مِلّت – چھٹی قسط / مؤلف: علامہ نائینی/ مترجم: اعجاز نقوی

یہ ہم ایرانیوں(1)کی بدبختی ہے کہ ایرانی تاریخ میں سیاسی استبداد اور دینی استبداد ایک دوسرے کے محافظ ومددگار رہے ہیں۔ اور دونوں نے مل کر عوام الناس کو اپنی بندگی و غلامی پر مجبور کئےرکھا۔
اس کتاب میں ہم نے انہی باتوں کی وضاحت کریں گے کہ استبداد (Dictatorship)کے یہ دونوں شعبے کیسے ایک دوسرے کے محافظ و مددگار ہیں؟
اور یہ کہ دینی استبداد کا مقابلہ کتنا مشکل ہے ؟
اور یہ کہ دونوں شعبوں کی جڑت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سیاسی استبداد کا مقابلہ بھی بہت مشکل ہوجاتا ہے !
مزید برآں اسی کتاب کے آخری باب میں ہم استبداد کے اسباب و عوامل کی تشریح اور استبداد سے نجات کا طریقہ بیان کریں گے۔

گزشتہ کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ غیر آئینی جابر حکمران کے ارادوں کے سامنے سرتسلیم ہوجانا اوراس کی خواہشات کے آگے سرجھکا دینا، نہ صرف یہ کہ اپنی ذات پرظلم اور خود کو خداداد آزادی کی نعمت عظمی سے محروم کرنا ہے،
بلکہ قرآن، سنت پیامبر(ص) اور سنت آئمہ اہل بیت(ع) کی رو سے یہ حاکم وقت کی عبادت ہےاورذات وحدہ لاشریک کی صفات میں حکمران کو شریک ٹھہرانے کے مترادف ہے کیونکہ یہ صفت صرف خدا کے لئے ہے کہ وہ جوچاہے حکم دے، اور جو فعل چاہےانجام دے، کوئی اس سے جواب طلبی نہیں کرسکتا۔ لہذا کسی حکمران کی من مانی کی اطاعت اور اس سے جواب طلبی نہ کرنا دراصل شرکِ صفاتی ہے۔
اور ایسا من مانی کرنے والا جابر حکمران نہ صرف یہ کہ دوسرے انسانوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والا اور اس منصب کے حقیقی حقدار(امام برحق) کے حق کا غاصب ہے، بلکہ احادیث کی رو سے ذات مقدّس پرودگار پر ظلم کرنے والا اور ردائے کبریائی کا بھی غاصب ہے۔(2)
ایسے حکمران کی غلامی سے آزادی ، نہ صرف مقامِ نباتیت(گھانس پھونس کی طرح ہونا) اور مقامِ حیوانیت(جانوروں کی طرح ہونا) کی پستیوں سے ارتقاء پاکر شرفِ انسانیت کی بلندی پر فائز ہونا ہے بلکہ توحید صفاتی پر ایمان کا لازمہ بھی ہے۔
اور انسانوں کو اس غلامی سے نجات دلا کرخداداد آزادی سے بہرہ مند کرنا ، انبیاء الہی کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد تھا۔
قرآن مجید میں موسی (ع) و فرعون کے قصے پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ حضرت موسی (ع) اور حضرت ہارون(ع) کا تقاضا بھی صرف اور صرف بنی اسرائیل کو فرعون کی اذیت ناک غلامی سے نجات دلانے کا تھا۔ جیسا کہ اس آیت سے واضح ہوتا ہے
فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِی اِسْرَائِیلَ وَ لَاتُعَذِّبْھُم(3)
ترجمہ:
“تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کی اجازت دیجئے اور انہیں عذاب نہ کیجئے”۔
(ترجمہ از فتح محمد جالندھری)
یعنی ان کا فرعون سے مطالبہ صرف اتنا تھا کہ بنی اسرائیل کو آزاد کرکے ہمارے ساتھ بھیج دو تاکہ ہم انہیں سرزمین مقدس تک لے جائیں، جناب موسی و ہارون نے فرعون کی حکومت و سلطنت کے خاتمے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ لیکن جب ان کا مطالبہ قبول نہ ہوا تو وہ بنی اسرائیل کو لے کر ملک مصر سے چل پڑے، فرعون نے بھی ان کا تعاقب صرف اس لئے کیا تاکہ وہ انہیں دوبارہ اپنی غلامی میں رکھ سکے۔
انجامِ کار فرعون بمع لشکر غرق ہوا اور بنی اسرائیل اس کی غلامی سے آزاد ہوگئے۔
حضرت علی(ع) کے خطبہ قاصعہ -جس کا کچھ حصہ ہم پہلے نقل کرچکے ہیں- میں حضرت (ع) نے فرمایا تھا کہ ذریت اسماعیل اور اولاد اسرائیل کو قیصر و کسری کی غلامی سے نجات عطا کرنا حضرت خاتم النبیین(ص) کی بعثت کا ایک اہم اور بنیادی مقصد تھا۔
اس کے علاوہ دیگر تاریخی واقعات سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ آزادی و حریت انبیاء کے مقاصد میں بالاترین درجہ رکھتی ہے۔

ملت کے تمام افراد کا حاکم کے ساتھ تمام حقوق میں برابر ہونا اور سرکار ختمی مرتبت (ص) کا مساوات کی بنیاد کو محکم کرنا

Advertisements
julia rana solicitors london

اب آتے ہیں مساوات کی طرف ۔
مساوات/ برابری کے تین اہم اور بنیادی شعبے ہیں۔
انسانی حقوق میں برابری ، احکام میں برابری اورجزا و سزا میں برابری۔
بہتر ہوگا کہ ہم مساوات/ برابری کے ان تینوں شعبوں میں پیغمبر کی سیرت سے ایک ایک مثال ذکر کردیں۔
اول؛ رسول خدا(ص) کی لے پالک بیٹی حضرت زینب(4) کےشوہر ابوالعاص، جنگ بدر کے قیدیوں میں شامل تھے۔ ان جنگی قیدیوں کو دستور کے مطابق فدیے کےبدلے رہا کرنے کا اعلان کیا گیا۔ قریش نے قیدیوں کی رہائی کےلئے مختلف اموال بھیجے۔
جناب زینب نے بھی اپنےشوہر کی رہائی کے لئے ایک سونے کا ہار بھیجا، یہ ہار حضرت خدیجہ(س) نے جہیز میں جناب زینب کو دیا تھا۔
حضرت محمد مصطفی(ص) نے جب یہ ہار دیکھا تو جناب خدیجہ(س) کی یاد تازہ ہوگئی۔ اور آپ نے اس کو دیکھ کر بہت گریہ کیا۔
پھر آپ نے مسلمانوں سے کہا کہ فدیہ لینے کا حق سب مسلمانوں کا ہے لہذا آپ چاہو توفدیہ لے کر ابوالعاص کو آزاد کردو، چاہو تو فدیہ بھی واپس کردو اور قیدی کو بھی آزاد کردو۔
اس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بانی اسلام کی نظر میں حقوق کی برابری کی اس قدر اہمیت تھی
کہ پیغمبر اکرم(ص) نے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرنے کی بجائے سب مسلمانوں کو اختیار دے دیا کہ قیدیوں کا فدیہ لینے یا معاف کرنے کا فیصلہ خود کریں، کیونکہ آپ کے نزدیک فدیہ لینا تمام مسلمانوں کا عمومی حق تھا۔
دوم : احکام میں برابری:
جنگ بدر کے قیدیوں میں آپ کے چچا عباس اور چچازاد بھائی عقیل بھی شامل تھے۔(5)
جب قیدیوں کے ہاتھ باندھے گئے تو ان دونوں کے ہاتھ بھی باندھ دئیے گئے۔ اور رسول خدا(ص) نے اپنی رشتہ داری کے باوجود ان کے لئے کوئی الگ رعایت نہیں مانگی۔ بلکہ مساوات سے کام لیا۔
سوم: جزا و سزا کی برابری(انصاف کے حصول میں مساوات)
رسول گرامی اسلام(ص)کی آخری بیماری کا موقع تھا-جس بیماری کے سبب آپ کا وصال ہوا- آپ نے تمام مسلمانوں کو مسجد میں اکٹھا کیا اور آپ خود عمامہ سر پہ لئے، کمان سے تکیہ لگائے منبر پہ بیٹھے فرما رہے تھے کہ خدائے متعال اپنےبندوں کے حقوق معاف نہیں کرتا، میں تم لوگوں کو قسم دیتا ہوں کہ اگر کسی کا حق میری گردن پر ہو تو اسی دنیا میں مجھ سےاس کا بدلہ لے لے۔
اسی اثنا میں ایک صحابی سوادہ بن قیس اٹھا اور کہا کہ یارسول اللہ(ص) جب آپ طائف سے واپس آرہے تھے اور آپ اس وقت اپنی ناقہ “عضباء” پر سوار تھے، آپ نے اپنے عصا -جس کا نام “ممشوق” ذکر ہوا ہے- سے ناقہ کو مارنا چاہا وہ عصا میرے کندھے پر لگا۔ آج میں اس کا قصاص لینا چاہتا ہوں۔
آنحضرت (ص) نے بلال کو بھیجا کہ جاکر میری بیٹی فاطمہ(س) کے گھر سے وہی عصا “ممشوق” لے آو، حضرت بلال(رض) وہ عصا لے کر آئے اور آپ نے سوادہ بن قیس سے فرمایا کہ جس طرح چاہو آج قصاص لے لو۔ سوادہ نے عرض کی یارسول الله اس وقت میرا کندھا ننگا تھا۔ اس پر آپ نے اپنے کندھے سے کپڑا ہٹایا تو سوادہ نے فورا کندھے پہ بوسہ دیا۔ اور کہا میری خواہش تھی کہ آپ کے جسم مبارک سے مس ہونے والا آخری آدمی بنوں۔ حضرت(ص) نے پھر پوچھا کہ کیا تم بدلہ لینا چاہتےہو یا تم نےمعاف کردیا۔
تو سوادہ نے عرض کی یا رسول الله میں نے معاف کردیا۔
پیامبر(ص) نے آسمان کی طرف دست مبارک بلند فرمائے اور دعا کی اے الله سوادہ کے گناہ معاف فرما۔جس طرح اس نے تیرے رسول (ص) کو معاف کیا۔(6)
یہ تھی آپ کے نزدیک مساوات کی اہمیت۔
پیغمبر اسلام (ص) نے لوگوں میں مساوات کے فروغ اور طبقاتی تفریق کے خاتمے کے لئے جو سیرت قائم کی تھی، حضرت شاہ ولایت علی ابن ابی طالب(ع) نے بھی اپنے دور خلافت میں اسی سیرت کو جاری کیا۔ مساوات کو قائم کرنے اور طبقاتی تفریق کا خاتمہ کرنے کے لئے آپ نے جاگیرداری کا خاتمہ کیا اور جن فئوڈلز کے پاس زیادہ جاگیریں اکٹھی ہوچکی تھیں ان سے جاگیریں واپس لینے کا اعلان کیا۔ اسی وجہ سے آپ کے دور خلافت میں بہت زیادہ فتنے برپا ہوئے۔
ان حالات کے پیش نظر آپ کے کچھ قریبی ساتھیوں نے یہ سفارش بھی کی کہ مہاجرین اور انصار یا بدری اور غیر بدری کی جو تفریق پچھلے ادوارِ حکومت سے چلی آرہی ہے اس کو قائم رہنے دیا جائے،لیکن حضرت علی(ع) نے ان کو بہت سخت جواب دیا۔
آپ کے بھائی عقیل کی داستان تو بہت مشہور ہے کہ جب عقیل ابن ابی طالب نے-جواس وقت پریشان حالی کا شکار تھے- بیت المال سے گندم کا تقاضا کیا تو آپ نے گرم لوہا اٹھا کر ان کے ہاتھ پہ رکھنا چاہا (عقیل نے فورا ہاتھ پیچھے کرلیا۔ اس پر حضرت علی(ع) نے فرمایا کہ تم دنیا کی آگ سے ڈرتے ہو لیکن میں دوزخ کی آگ سے ڈرتا ہوں)
اسی طرح ایک مرتبہ آپ کے کسی بیٹے نے بیت المال سے شہد کا تقاضا کیا، جس پر حضرت علی(ع) بہت آشفتہ ہوئے-کہا جاتا ہے کہ امیر شام نے جب یہ واقعہ سنا تو بہت گریہ کیا۔
ایسی ہی ایک داستان میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایک مرتبہ آپ کی کسی بیٹی نے بیت المال سے عاریتا ہار کا تقاضا کیا۔ جس پر آپ نے فرمایا کہ ” تمھارے باپ کے لئے آسان ہے کہ ساری رات کانٹوں پہ گزار لے لیکن بروز قیامت اللہ اور اس کے رسول(ص) کے سامنے اس حال میں جانا گوارا نہیں کہ کسی بندے پر ذرہ برابر ظلم کیا ہو۔(7)
اس کے علاوہ بھی کئی داستانیں موجود ہیں جو آپ کی سیرت کی گواہ ہیں کہ آپ کو مساوات و عدالت سے کس قدر شدید محبت تھی۔
جاری  ہے
حواشی و توضیحات:
(1) عرض مترجم: علامہ میرزا نائینی نجف کے اعلی ترین دینی سکالرز(مجتہدین/مراجع) میں شمار ہوتے تھے۔لیکن چونکہ ان کی پیدائش اور ابتدائی زندگی ایران میں تھی۔اس لئے ان کو ایران کے حالات کی خصوصی فکر دامن گیر رہتی تھی۔
میرزا نائینی کے حالات زندگی جاننے کے لئے ہمارے مضمون”علامہ نائینی کی حیات و خدمات” کا مطالعہ فرمائیں جو کہ مکالمہ ویب سائٹ پر موجود ہے۔
(2): عرض مترجم: علامہ نائینی نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اطاعتِ غیر مشروط صرف خدا کا حق ہے۔ صرف اللہ کی ذات ایسی ہے جس سے کوئی پوچھ نہیں سکتا کہ تم نے ایسا کیوں کیا۔ کیونکہ وہ سب کا خالق و مالک ہے۔ اس لئے جب کوئی حکمران لوگوں سے غیر مشروط اطاعت کروائے تو وہ خدا کے اس خصوصی حق کا غاصب اور گویا خدائی میں شراکت کا دعویدار ہے۔ اسی طرح کسی حکمران کی غیر مشروط اطاعت کرنے والے بھی شرک کے مرتکب ہوتے ہیں۔
(3): سورہ طه آیت 47۔
(4):عرض مترجم: اہل سنت کی اکثریت کا خیال ہے کہ حضرت محمد(ص) کی چار بیٹیاں تھیں۔ جبکہ شیعہ کے نزدیک آنحضرت (ص) کی ایک ہی حقیقی بیٹی تھی یعنی حضرت فاطمہ(س)۔ جبکہ تین بیٹیاں لے پالک(ربائب) تھیں۔ جو غالبا حضرت خدیجہ کی بھانجیاں تھیں۔اور آپ کے ساتھ ہی آئی تھیں۔ انہیں اس لئے بنت رسول(ص) لکھا جاتا ہے کہ وہ حضور(ص) کے گھر میں پلی بڑھی تھیں۔
(5): عرض مترجم: جب جنگ بدر وقوع پذیر ہوئی تو اس وقت عباس بن عبدالمطلب اور عقیل بن ابی طالب مکہ میں تھے۔ بنی ہاشم کے کچھ اور افراد بھی اس وقت تک مکہ میں تھے۔ مکہ کے لوگوں نے جب ابوجہل کی قیادت میں بدر کی طرف کوچ کیا تو بنی ہاشم کے مردوں کو زبردستی اپنے ساتھ لے آئے۔ اگرچہ یہ لوگ جنگ سے دامن بچانے کی کوشش کرتے رہے اور لشکر کے پچھلے حصے میں رہے ۔لیکن جنگ کے خاتمے جب 70مکی افراد کو قیدی بنایا گیا تو ان قیدیوں میں عباس، عقیل اور نوفل بن حارث بن عبدالمطلب بھی تھے۔
حضور(ص) نے ان سے بھی فدیہ لیا تھا۔ تاریخی روایات کے مطابق یہ فدیہ عباس بن عبدالمطلب کے مال سے ادا کیا گیا۔
(6): عرض مترجم:
صحابہ کے طبقہ اول میں سوادہ بن قیس کا ذکر نہیں ملا۔
بعض تاریخی کتب میں سواده بن قیس کی بجائے سواد بن غزیہ کا نام لکھا ہے۔ کچھ مورخین نے اسید بن حضیر کا نام بھی لکھا ہے۔
ابن ہشام اور ابن کثیر نے یہ داستان جنگ بدر کے واقعات میں نقل
کی ہے۔ اور لکھا ہے کہ جنگ کے موقع پر آنحضرت (ص) ایک تیر( یا نیزے) کی مدد سے صفوں کو سیدھا کررہے تھے اس وقت سواد بن غزیہ صف سے آگے نکلا ہوا تھا۔ اس لئے تیر اس کے پیٹ میں لگا۔اور اسی کا قصاص اس نے مانگا تھا تاکہ اس بہانے وہ رسول خدا کے جسم مبارک سے مس ہوسکے۔
لیکن شیعہ کتب میں سے صرف امالی صدوق میں یہ روایت آئی ہے۔
بعض نقادوں نے اس کہانی کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اللہ کے نبی (ص) سےکوئی غلطی سرزد نہیں ہوتی۔
پھر یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ اگر اس کو نظم و ضبط کے لئے عصا مارا گیا تو نظم و ضبط کا قصاص نہیں بنتا اور اگر غلطی سے لگا تو بھی غلطی کا قصاص نہیں لیا جاتا۔ اور اللہ کے نبی(ص) جان بوجھ کر تو کسی پر ظلم نہیں کرسکتے۔ بہرحال چونکہ مصنف نے اس داستان کو نقل کیا ہے تو مترجم نے بھی اس کو بیان کردیا۔اور مصنف نے کندھے پر عصا لگنے کا ذکر کیا ہے۔ جبکہ ابن کثیر وغیرہ نے کندھے کی بجائے پیٹ کا ذکر کیا ہے۔
(7): عرض مترجم:
عقیل ابن ابی طالب کا واقعہ تو مشہور ہے۔ لیکن باقی دونوں واقعات
جو مصنف نے یہاں لکھے ہیں۔۔۔۔
ان کا من وعن ترجمہ کردیا گیا ہے۔ مترجم کو ان کا حوالہ کسی مستند کتاب سے نہیں مل سکا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply