اجتماعی شعور/ابو جون رضا

میرا کزن جرمنی میں رہتا ہے۔ وہ بتارہا تھا کہ وہاں ہر چیز کی انشورنس لینا پڑتی ہے۔ گاڑی ، صحت، وغیرہ کی انشورنس لازمی ہے۔ اس کے بغیر مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں۔

جرمنی منتقل ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا کہ میرا کزن اپنی بیوی بچے کے ساتھ دوسرے شہر گیا۔ وہاں گاڑی سے اُترتے ہوئے بے دھیانی میں اس کی بیگم نے دروازہ کھولا جو برابر میں کھڑی گاڑی کے دروازے پر معمولی سا نشان ڈال گیا۔وہاں آس پاس کوئی نہیں تھا۔ گاڑی والا بھی موجود نہیں تھا۔ میرے کزن نے اپنا رابطہ نمبر ایک پرچہ پر لکھا اور گاڑی کے وائپر میں پھنسا دیا۔ اس پر لکھ دیا کہ ہماری غلطی کی وجہ سے آپ کی گاڑی کے دروازے پر نشان پڑ گیا ہے۔ آپ  کاغذ پر درج فون نمبر پر رابطہ کرسکتے ہیں۔

کچھ دن بعد دوسرے شہر سے فون آیا۔ گاڑی کے مالک نے پوچھا آپ کے پاس لائبیلٹی انشورنس ہے؟ ہم اس سے پیسے تلافی کرلیں گے کیونکہ دروازہ پورا پینٹ ہوگا۔ میرے کزن نے کہا کہ میرے پاس یہ سہولت نہیں ہے ۔ گاڑی کے مالک نے افسوس کا اظہار کیا اور مشورہ دیا کہ لازمی یہ انشورنس لیجیے ۔ اگر آپ کی سائیکل سے بھی کسی کی گاڑی پر نشان پڑ جائے تو نقصان بھرنا پڑجاتا ہے۔ آپ کے پاس انشورنس نہیں ہے  تو رہنے دیجیے، ہم خود پینٹ کا خرچہ برداشت کرلیں گے۔

میرے کزن نے ان سے کہا کہ آپ پینٹ کروائیے، میں پورا خرچہ ادا کروں گا۔ گاڑی کے ایک دروازے پر کلر ہوا اور پاکستانی حساب سے ایک خطیر رقم، یورو میں میرے کزن کو بھرنی پڑی۔

ذرا غور کیجیے، پاکستان میں رہتے ہوئے آپ توقع کرسکتے ہیں کہ آپ کی گاڑی پر کوئی نشان ڈال دے اور پھر اپنا نمبر چھوڑ کر جائے کہ مجھ سے رابطہ کیجیے گا، یہ میری غلطی ہے؟

کچھ ہفتے پہلے ہمارے علاقے کے قریب فلیٹس کے نیچے دکانوں میں شارٹ سرکٹ کی وجہ سے آگ بھڑک اٹھی جس کو چوبیس گھنٹے میں بجھایا جاسکا۔ دکانیں اور ان میں رکھا سامان اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے اوپر بنے فلیٹس جل کر راکھ کا ڈھیر بن گئے۔

کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ ان دکانوں اور فلیٹس والوں نے انشورنس کروا رکھی ہوگی؟

یہاں تو شعور کا یہ حال ہے کہ میرا دوست انجکشن لگوا کر ہسپتال سے نکلا، راستے میں غنودگی کی وجہ سے اس نے اپنی کار آگے والی گاڑی سے ٹکرا دی۔ اگلی گاڑی اگرچہ امیر کبیر لوگوں کی تھی مگر انہوں نے بتایا کہ ہم انشورنس نہیں کرواتے۔ یہ جائز نہیں ہے۔ آپ گاڑی بنوا دیں، جو خرچہ آئے وہ ادا کردیجیے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مذہبی تعلیمات کی وجہ سے بیرون ملک رہنے والے لوگوں کا شعور بلند ہے؟

70  سال سے مذہب پڑھنے پڑھانے کے باوجود یہاں لوگ نئی گاڑی پر جان بوجھ کر چابی سے نشان ڈال کر چلے جاتے ہیں، ایسا کیوں ہے؟

بیچ روڈ پر گاڑی کھڑی کردی جاتی ہے چاہے گزرنے والے لوگوں کو کتنی ہی تکلیف کیوں نہ ہو۔ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں؟

اصل بات یہ ہے کہ ہمارا اجتماعی شعور ہے جس نے اس ریاست میں جاہل، بے حس اور نکمے لوگوں کے ہاتھوں میں ہماری باگ دوڑ تھما دی ہے۔ یہ سب لوگ ہمارے درمیان سے ہی اٹھ کر ایوانوں میں جاکر بیٹھے ہیں۔ ان کا شعور بھی ہماری سوچ جیسا ہے۔ اس وجہ سے ہر کوئی اپنی نبیڑنے میں لگا ہوا ہے۔

آگسٹائن کہتا ہے کہ “وہ جزو باعث شرم ہے جو کل کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے۔”

اجتماعی خیر کی پذیرائی کرنا اور اسے آگے بڑھانا کسی ایک شخص کے خیر کو تقویت دینے سے زیادہ الوہی اور بہتر ہے۔آپ لاکھ مسجد میں نماز کے بعد ہزاروں سال پرانے مقدس لوگوں کے قصے عوام کو سنائیں، کوئی فائدہ نہیں ہوگا جب تک ان کا شعور بلند نہیں ہوگا۔

آپ لاکھ فتویٰ  دیں، کوئی بے ہودہ کام اس وقت تک آپ کے معاشرے سے ختم نہیں ہوپائے گا جب تک لوگوں کا ذہن اس بُرے کام کو حقیقت میں بُرا نہ سمجھنے لگے۔

مرنے کے بعد آپ کا شعور ہی زندہ رہے گا بشرطیکہ آپ نے اس کو بلند کیا ہو اور آنے والی نسلوں کے لیے عقل و خرد کی آبیاری کی ہو۔

نکھرنا عقل و خرد کا اگر ضروری ہے
جنوں کی راہبری میں سفر ضروری ہے

حقیقتوں سے جو ہوتا ہے آشنا اے دوست
تو اس کے واسطے راہ خطر ضروری ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

عبیدؔ دوسروں کو کر چکے بہت تلقین
اب اپنے آپ پہ بھی اک نظر ضروری ہے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply