مکالمہ۔۔۔ کاشف رفیق محسن

شاگرد : یہ ہے ہمارا پیارا پاکستان ہم اس کو ایک پپی یہاں اور ایک وہاں کیا کرتے تھے پھر وہاں والے ہماری ان پپیوں سے اتنے عاجز آئے کہ وہ چھوٹے قد کے مفلوک الحال بزدل پاکستان ہی چھوڑ کر بھاگ گئے۔ اب مسئلہ بڑا سنگین تھا۔ پپیاں دو تھیں اور پاکستان ایک اور ہم اپنی فطرت سے مجبور، سو ہم نے کبھی ایک پپی کراچی میں کی تو ایک بلوچستان میں، جب یہاں سے کچھ دل اچاٹ ہوا تو فاٹا و سرحد کی جانب نظر کرم کی بس ہمارے دماغ میں ہی کچھ ٹیڑھ ہے ہم ایک طرف دونوں پپیاں کر ہی نہیں سکتے اور یہ کمبخت بلوچستان ، فاٹا سرحد اور کراچی والے تو بڑے ہی ڈھیٹ نکلے یہ ہماری پپیوں سے عاجز ہی نہیں آ رہے ۔
استاد : کیا بات ہے؟ تمہاری طبعیت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی ۔
شاگرد : نہیں ہم بالکل ٹھیک ہیں جناب ۔
استاد : کوئی الجھن ۔
شاگرد : درجنوں ۔
استاد : چھوڑو سب باتیں ،یہ بتاو کیا کبھی محبت کی ہے مطلب عشق ۔
شاگرد : جی تین سچے عشق ۔
استاد : یہ ممکن نہیں۔۔۔ سچا تو ان میں کوئی ایک ہی ہوگا ۔
شاگرد : سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تینوں سچے تھے ۔ بالکل سچے عشق اور ان تینوں نے ہمارے عشق مجازی سے متعلق مادی مفروضات کو عملی طور پر ثابت کر کے ہمیں توانائی پہنچائی اور ہم عشق حقیقی کی جانب راغب ہوئے اور سچ تو یہ ہے کہ مجازی بنا حقیقی کی پہچان ہی ممکن نہیں ۔
استاد : چلو حقیقی پر پھر کبھی بات کریں گے، ایک ایک کر کے تینوں کا حال سناو پہلے سے شروع ہو جاو ۔۔۔۔۔۔ چلو شاباش ۔
شاگرد : یہ سن 85 کی بات ہے میٹرک کلاس میں، ایک کلاس فیلو سے دوستی تھی یہ بڑا ہی کیمیائی قسم کا عشق تھا ۔
استاد : کیمیائی عشق ؟؟کچھ سمجھا نہیں ۔
شاگرد : سمجھاتا ہوں پورے اسکول کے در و دیوار پر ہمارے چاہنے والوں نے KS ( پوٹاشیم سلفیٹ ) کی چاکنگ کی ہوئی تھی جو اپنی ساخت کے کارن اسکول انتظامیہ کی طرف سے قابل گرفت نہیں تھی ہمارا نام K سے آتا تھا سو ہم پوٹاشیم ٹھہرے اور محترمہ کا نام S سے آتا تھا سو وہ سلفر قرار پائیں اور جب ہم نے اس کے خالق سے اعتراض کیا کہ سلفیٹ سے O یعنی آکسیجن کہاں گیا تو انھوں نے نہایت مدبرانہ انداز میں جواب دیا کہ تم دونوں کیا سانس نہیں لیتے ؟آکسیجن سانس لینے میں ختم ہوگئی اس طرح پوٹاشیم سلفیٹ کا ایک نیا فارمولہ معرض وجود میں آیا ۔
استاد : اور یہ نیا فارمولہ کتنے عرصے مستعمل رہا ۔
شاگرد : یہی کوئی پانچ برس ۔ہوا کچھ یوں کہ ہم نے میٹرک کے بعد ایف ایس سی پری انجینئرنگ میں داخلہ لیا اس لیئے نہیں کہ محترمہ کو حیاتیات اور ڈاکٹروں سے خدا واسطے کا بیر تھا اور انجینئرنگ انکی پسند بلکہ اس لیئے کہ خود ہمیں ریاضی سے عشق تھا مگر ایف ایس سی کے بعد ہم این ای ڈی میں داخلہ لینے میں ناکام رہے اور پھر حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ دن میں تارے نظر آ گئے ہمیں عملی میدان میں قدم رکھنا پڑا ایک سیکنڈری اسکول اور ایک کوچنگ سینٹر میں ہم نے باقاعدہ ٹیچنگ کا آغاز کیا اور کوشش کی کہ بی ایس سی کر لیں مگر ریگولر نہ ہو پائے جاب اور سیاست سے جو کچھ وقت بچا اس میں بی اے ہی ممکن تھا اسکے بعد کہیں جا کر پتہ چلا کہ ہم محترمہ سے عشق فرما رہے تھے اور وہ مستقبل کے ایک کامیاب انجینئر سے سو انکے سپنے ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوگئے اور یوں ہمارا پہلا سچا عشق 89 میں اسکی شادی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا ۔
استاد : رکو نہیں جاری رکھو دوسرا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سچا ۔۔۔۔۔۔ عشق ۔
شاگرد : دوسرے کی ٹائمنگ بڑی ٹف تھیں یہ بانوے کی بات ہے اس وقت بھی ہم ٹیچنگ ہی کر رہے تھے اور نائٹ کالج کیلئے بمشکل وقت نکال پائے تھے سو ایس ایم لاء کالج میں داخلہ لے لیا تھا یقین مانیں اس لیئے نہیں کہ ہمیں وکالت سے کوئی ذرا برابر بھی دلچسپی تھی محض اس لیئے کہ ہم اپنے قانون کو جاننا چاہتے تھے ،سیاسی فعالیت میں بے پناہ اضافہ ہوچکا تھا لکھنے لکھانے کا شوق اب باقاعدہ ہو چکا تھا گو کہ ہمارا پہلا کالم سن 87 میں ضیا کے دور میں روزنامہ امن میں شائع ہو چکا تھا اور ہم نے جونیجو حکومت کے اسپیکر فخرامام رضوی کو غیر اصولی طور پر ہٹائے جانے پر جنرل ضیا کو شدید ترین تنقید کا نشانہ بنایا تھا یہ وہ وقت تھا جب اجمل دہلوی صف اول کے جیالے ایڈیٹر تھے مگر لکھنے کہ اس سلسلے میں تسلسل نہیں تھا ،پھر ایسا وقت بھی آیا جب اجمل دہلوی ایم کیوایم کے سینیٹر بن گئے اور ہم آپریشن کے خلاف دل کھول کر تنقیدی مضامین لکھنے لگے دہلوی صاحب جانتے تھے کہ ہمارا کوئی تعلق ایم کیو ایم سے نہیں وہ ہمیں جب سے جانتے تھے جب وہ خود بھی جیالے تھے سو کبھی کبھار اپنی گول گول آنکھیں ہمارے چہرے پر جما کر کہتے عبداللہ دیوانے ( اشارہ غیر کی شادی میں عبداللہ دیوانہ والی مثل کی طرف ہوتا ) ہلکا ہاتھ رکھو، ہارڈ لائننگ مت کرو ایم کیو ایم تمہارے لیئے کچھ نہیں کر پائے گی اور تم جو کر رہے ہو اس کیلئے تمہاری اپنی جماعت بھی تمہارے لیئے کوئی اسٹینڈ نہیں لے گی ۔اور آنے والے وقتوں میں انکی ہر بات صد فیصد درست ثابت ہوئی اور ہمیں اپنی دیوانگی کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
استاد : مسٹر ۔۔۔۔ کہاں کھو گئے؟ میں نے تم سے دوسرے سچے عشق کی روداد سنانے کو کہا تھا تم پر بہکنے لگے ۔
شاگرد : وہی بتا رہے تھے بیانوے میں ایک ساتھی ٹیچر سے دوسرا سچا عشق فرمایا ۔۔دوران عشق ہی لانگ مارچ کی کال آئی اور ہم اسلام آباد کیلئے روانہ ہوگئے پنڈی اسٹیشن پر باجماعت گرفتار ہوئے پہلے بی کلاس میں این ڈی خان اور میاں رضا ربانی کے ساتھ اڈیالہ جیل میں رکھے گئے پھر سی کلاس میں دھکیل دیا گیا اور کوئی دو ماہ سولہ ایم پی او بغاوت کے کیس میں بند رہنے کے بعد جب ہم ضمانت پر واپس تشریف لائے تو محترمہ تو اپنی جگہ قائم تھیں مگر انکے اہل خانہ ہم سے بدظن ہو گئے بڑا سمجھایا کہ ہم منشیات فروشی کے جرم میں قید نہیں تھے بغاوت کے الزام میں بند تھے اور اگر کچھ عرصہ اور رہ جاتے ایک عدد کتاب وغیرہ جیل سے شائع کروا دیتے تو لیڈر ہی بن کر آتے، مگر بے سود پھر بات اس وقت بالکل ہی بگڑ گئی جب ایل ایل بی کا رزلٹ آنے کے بعد بھی ہم نے پریکٹس کرنے سے صاف انکار کر دیا اور ایک اخبار میں سب ایڈیٹر کی باقاعدہ نوکری کر لی یہ دوسرا موقع تھا جب ہم پر یہ انکشاف ہوا کہ ہم محترمہ سے عشق فرما رہے تھے اور وہ مستقبل کے ایک کامیاب وکیل سے سو انکے خوابوں کو بھی ریزہ ریزہ کر کے ہم نے اپنے دوسرے سچے عشق کو ناکامی سے دو چار کیا اور سن ستانوے میں انکی شادی ہوگئی ۔
استاد : آ جاو اب اپنے تیسرے اور آخری سچے عشق کی جانب ۔
شاگرد : سن 2000 ضیا شاہد نے رونامہ خبریں کراچی سے لانچ کرنے کی ٹھانی ہمیں خبر ملی کہ نادر شاہ عادل صاحب اسے ریذیڈنٹ ایڈیٹر کے طور پر جوائن کر چکے ہیں اور باقی کی بھرتیاں بھی وہی کر رہے ہیں نہایت سینئر صحافی ہیں سو ہم بھی وہاں پہنچ گئے انھوں نے کراچی کے دونوں صفحات ہمارے حوالے کر دیئے اور ڈمی کے دنوں سے 2005 تک ہم یہیں سٹی ایڈیٹر کے طور پر کام کرتے رہے لکھتے بھی رہے مگر یہاں لکھنا ذرا مشکل تھا کہ ضیا شاھد صاحب ٹھہرے جہادی سو انکی اشاعتی پالیسی کو مدنظر رکھ کر لکھنا ہمارے بس کی بات ہی نہیں تھی سو پہلی بار یہ غیر اخلاقی حرکت بھی سر زد ہوئی کہ ہم کام خبریں میں کرتے رہے اور لکھتے امن میں رہے، یہاں ایک لیڈی رپورٹر سے تیسرا سچا عشق فرمایا جو 2003میں خبریں چھوڑ گئیں اور نادر شاہ عادل صاحب بھی ایکسپریس میں چلے گئے تاحال وہیں ہیں ۔ پھر خاتون نے تین مختلف اخبارات کی ادارت ہمیں دلوانے کی کوشش کی مگر کچھ اصولی اختلافات کی وجہ سے ہم نے ہر بار انکار ہی کیا 2005 میں جب ہم نے خبریں بھی چھوڑ دیا تو انھوں نے فتویٰ جاری کیا کہ تم کبھی بھی ایک کامیاب صحافی نہیں بن سکتے تم نے بہت مواقع گنوا دیئے کامیابی کا انکا معیار کچھ اچھوتا نہیں تھا مگر ہم بہرطور اس معیار پر کبھی بھی پورے نہیں اتر سکتے تھے ،سو ہمیں تیسری اور آخری بار اس انکشاف کا سامنا کرنا پڑا کہ ہم خاتون سے عشق فرما رہے تھے اور وہ مستقبل کے ایک کامیاب صحافی سے، یوں ہم نے تیسری بار کسی کے خوابوں کو ریزہ ریزہ کرنےکے بعد خود سے یہ عہد کیا کہ دوبارہ کسی کے سپنوں کو تاراج کرنے کا گناہ نہ کیا جائے اور اس پر مستقیم ہوگئے ۔
استاد : کوئی پچھتاوا ۔
شاگرد : قطعی نہیں ۔
استاد : 2005 کے بعد کیا کرتے رہے ۔
شاگرد : امور خانہ داری ، بریانی ، قورمہ ، کڑاھی ، سبزی دال ، کڑی ، ایسٹو کچھ بھی بنوا سکتے ہیں آپ بس روٹی نہیں وہ گول نہیں ہوتی نقشہ بن جاتا ہے ۔
استاد : 2005 تو شائد تمھاری والدہ کی وفات کا سن ہے ۔
شاگرد : جی بالکل جو کچھ انھیں پکانا آتا تھا وہ سب ہم پکا سکتے ہیں اور پکاتے رہے ہیں انہی سے سیکھا ہے ۔
استاد : میرا مطلب کام سے تھا ۔
شاگرد : مختلف اوقات میں مختلف کام کرتے رہے ہیں دوبارہ ٹیچنگ بھی کی مگر دو چار سال بعد چھوڑ دی ۔
استاد : دوبارہ صحافت کا آغاز کیوں نہیں کیا اخبار یا چینل ۔
شاگرد : سال بھر پہلے ارادہ کیا تھا کوئی ایک درجن کے قریب دوستوں نے جو مختلف اخبارات اور چینل پر ہیں، سی وی لی مگر اب سال بعد اندازہ ہوا کہ ان درجن بھر اداروں میں اگر ہم سال پہلے خود چلے جاتے تو شائد کام ہو جاتا ہمارے کسی ایک دوست نے اس ادارے میں ہماری انٹری کی کوشش نہیں کی جس میں وہ خود موجود ہو ہاں یہ میسیج ملتے رہے کہ فلاں ادارے میں فلاں سے مل لو مگر ہم نے کبھی ایسے کسی میسیج پر رسپانس نہیں دیا ۔
استاد : زندگی کے بارے میں کیا تمہارا یہ طرز عمل صحیح ہے ۔
شاگرد : کسی ایسے شخص سے واقف ہیں جو خود کو غلط سمجھتا ہو ۔
استاد : پی پی کب چھوڑی ۔
شاگرد : شائد 96 میں ۔
استاد : اس کے بعد کوئی سیاسی جماعت کیوں جوائن نہیں کی ۔
شاگرد : صحافت ، کا عملی آغاز کیا تو سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی جس پر تاحال قائم ہیں ۔
استاد : ایم کیو ایم یا پی پی سے کبھی کوئی فائدہ مطلب جاب وغیرہ کے حوالے سے اٹھانے کی کوشش نہیں کی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

 


شاگرد : پی پی میں تو بالکل بھی نہیں ہاں ایم کیوایم میں یاد پڑتا ہے کہ 97 کے الیکشن کے بعد کچھ دوستوں نے بے حد اصرار کیا کہ کچھ گریڈ 16 کی جاب ہیں، بندہ نہیں مل رہا اپنی سی وی دو ہم نے انکار کردیا تب انھوں نے کچھ ایسے لوگوں کو بیچ میں ڈال دیا جن کو انکار کی گنجائش نہیں بنتی تھی ،سو ہم نے سی وی دے دی پھر جب نائن زیرو پر تنظیمی کمیٹی اور سیکٹر کی مشترکہ میٹنگ ہوئی تو ہماری فائل پر ایک دوست نے ہاتھ رکھ دیا اور حکم صادر کیا کہ اسے رہنے دو اس کمرے میں ہمارے کم و بیش پانچ نہایت قریبی دوست موجود تھے ،جن میں سے چار نے خاموشی اختیار کی مگر پانچویں نے اسی رات ہمیں کمرے میں ہونے والی کارروائی سے آگاہ کر دیا کہ فلاں نے تمہاری فائل پر ہاتھ رکھا اور اعتراض کیا کہ یہ شخص پی پی سے تعلق رکھتا تھا اور ہمارا کارکن نہیں اور خود کو مہاجر کہتا ہے مگر نجیب الطرفین مہاجر بھی نہیں ۔ ہم نے اس سے خاموشی اختیار کرنے کا وعدہ لیا اور آج بیس برس بعد بھی وہ شخص جس نے ہماری فائل پر اعتراض اٹھایا تھا ہمارا ویسے ہی دوست ہے جیسا بیس سال پہلے تھا اور ان بیس برس میں ہم نے ایک بار اشارے کنایے میں بھی اس سے نہیں پوچھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا، وجہ اسکی یہ ہے کہ اول تو اس کے اعتراض بجا تھے دوئم یہ کہ وہاں ہمارے پانچ بچپن کے دوست موجود تھے اگر انھوں نے اس وقت خاموشی اختیار کر لی تو ہمیں آ کر اطلاع دینے والے نے قطعی طور پر زیادتی کی ۔
استاد : یہ نجیب الطرفین والی بات تو میرے لئے بھی سرپرائز ہے اس کی کیا حقیقت ہے ۔
شاگرد : کوئی خاص نہیں قصہ مختصر کہ ہماری والدہ کا تعلق سہارن پور کے ضلع ڈیرہ دون سے تھا ہجرت کے بعد انھوں نے سکھر میں جس شخص سے شادی کی وہ اریینج میرج نہیں تھی کورٹ میرج تھی سو انھوں نے اپنا تمام خاندان ایک ایسے شخص کیلئے چھوڑ دیا جس کا تعلق ہزارہ سے تھا شائد حسن ابدال سے، بہرحال یہ محبت ایسی ہی بلا ہے والدہ کو لیکر وہ بلوچستان کے ضلع مستونگ چلے گئے جہاں انکی سرکاری نوکری تھی اور ہم سب بہن بھائی مستونگ ہی کی پیدائش ہیں بعد ازاں یہ انکشاف ہوا کہ وہ پہلے سے شادی شدہ ہیں اور انکے جوان بچے ہیں بیوی اور بچے کوئٹہ میں مقیم ہیں والد کی نوکری ختم ہوگئی تو وہ کوئٹہ چلے گئے اور والدہ ہمیں لیکر کراچی آگئیں ،اس وقت ہماری عمر 6 سال تھی یعنی 40 سال پہلے اس کے بعد ہماری والدہ کی جدوجہد کی ایک طویل داستان ہے والد کے کچھ رشتے دار کراچی میں بھی مقیم تھے مگر انھوں نے کبھی ہماری والدہ کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا سو ہماری ان سے کبھی نہیں بنی اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب ہم خبریں میں تھے ہمارے والد کو انکے بڑے بیٹے کمشنر کوئٹہ نے گھر سے نکال دیا اس حال میں کہ انھیں فورتھ اسٹیج کینسر تھا وہ یہاں کراچی آئے تو ان کے سگے بھائیوں نے انھیں منہ نہیں لگایا مگر ہماری والدہ کا اصرار تھا کہ تمہارا باپ ہے جس حد تک ہو اسکی خدمت کرو سو ہم انھیں گھر لے آئے اور جو علاج انکا ممکن تھا کروایا ،مگر وہ جانبر نہ ہوسکے کوئٹہ میں حالات بدلے بلوچوں نے دوسری قومیتوں کو نشانہ بنانا شروع کیا تو وہاں انکا خاندان بکھر گیا ۔۔کوئی لاہور چلا گیا کوئی حسن ابدال اور کمشنر صاحب ٹرانسفر کروا کر خیبر پختونخوا چلے گئے جہاں آخری اطلاعات آنے تک وہ چیف سیکریٹری تھے طارق رفیق ۔
استاد : ویری سیڈ ،تو کیا تم لوگوں کا ان سے کوئی رابطہ نہیں ۔
شاگرد : قطعی نہیں ان سے کوئی تعلق تھا تو باپ کی وجہ سے جب وہ اس کے مرنے پر بھی نہیں آئے تو ہمارا ان سے کیا تعلق
استاد : پھر تم مہاجر ہو ۔
شاگرد : سو فیصد کسی نجیب الطرفین مہاجر کی نسبت ہمارے لئے اپنی پہچان کو تسلیم کروانا زیادہ دشوار ہے ۔
استاد : مجھے اندازہ ہو رہا ہے تم نے ایک بار ذکر کیا تھا کہ تمھیں بلوچستان کے ڈومیسائل کی ضرورت تھی پھر بنوایا کیوں نہیں۔۔
شاگرد : اس وقت وہ ایسے شخص کے دستخط اور اسٹمپ سے بنتا جس نے اپنے بیمار باپ کو گھر سے نکال دیا تھا، باوجود اسکے کہ ہم صرف ڈاک کے ذریعے اپنے کاغذات بھیج دیتے تو وہ بنا کر بھیج دیتا ہم نے نہیں بنوایا ۔
استاد : چلو چھوڑو یہ تمہارے پانچ پانچ سالہ جو تین عدد سچے عشق ہیں ان سے کیا نتیجہ نکالا ؟؟یہی کہ عشق مجازی میں مادیت کا پہلو حاوی ہے ۔
شاگرد : قطعی اول تا آخر مادیت ہے ۔
استاد : ارے ہاں وہ تم ایک پپی ادھر اور ایک ادھر کی کچھ بات کر رہے تھے ۔
شاگرد : آپ استاد ہیں جناب ہمیں تسلیم ہے ۔
استاد : ( ایک بلند قہقہہ ) ۔۔۔۔۔۔۔۔ احتیاط کرو ۔۔۔۔ تم غلط نہیں ہو مگر جہاں سوال کرنا غیر اعلانیہ جرم قرار پائے وہاں کسی آدرش کیلئے کی جانے والی جدوجہد میں مرنا نہیں ہر حال میں جینا شرط اولین ہوتا ہے یہ جنگ کا محاذ نہیں جہاں جیت گئے تو غازی اور مارے گئے تو شہید ۔۔یہ ایک نصب العین کی جدوجہد ہے جو اسی صورت جاری رہ سکتی ہے .

Facebook Comments

کاشف رفیق محسن
اسلام انسانیت کا مذہب ہے ،انسانیت ہی میرا مذہب ہے اور انسانیت ہی اسلام کا اصل چہرہ ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply