• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا وائرس ، سکول مافیا نیکی کے لیکچر اور کھردرے حقائق ۔۔عامر عثمان عادل

کرونا وائرس ، سکول مافیا نیکی کے لیکچر اور کھردرے حقائق ۔۔عامر عثمان عادل

پوری دنیا کرونا کی لپیٹ میں ہے۔ انسانیت کو اپنی بقاء درپیش ہے ۔ وطن عزیز بھی اس وباء سے متاثر ہے۔ لاک ڈاؤن کے باعث کاروبار زندگی جزوی طور پر معطل ہے ۔
کافی دن سے دیکھ رہا ہوں سوشل میڈیا پر ایک بحث پرائیویٹ سکولز سے متعلق جاری ہے ۔ مہربان ایک لفظ تواتر سے استعمال کر رہے ہیں ” سکول مافیا ” جسے پڑھ کر پہلا تاثر یہ ابھرتا ہے جیسے یہ لوگ کوئی  ناجائز دھندہ کرتے ہیں یا خدا نخواستہ ہیروئن یا پاوڈر بیچنے میں ملوث ہیں،اور مزے کی بات ان لوگوں کے پیٹ میں والدین کی ہمدردی کے مروڑ اٹھ رہے ہیں جن کا اس سارے سلسلہ سے کچھ بھی لینا دینا نہیں۔
شور کس بات کا ہے ؟ مطالبہ کیا ہے؟
جی یہ سکولوں والے تین ماہ کی فیس معاف کر دیں

اس پر کچھ عرض کرنے سے پہلے ضروری ہے کچھ حقائق کو ایک نظر دیکھ لیا جائے تاکہ بات واضح ہو پائے
اس کے لئے دیکھنا ہو گا وطن عزیز میں نجی شعبہ میں جاری سکولز کس قبیل کے ہیں،ایلیٹ کلاس کے سکولز ، ارب پتی مالکان،پاکستان میں کچھ سکول سسٹم ہیں جن کے مالکان ارب پتی ہیں جن کا دارومدار صرف ان سکولز سے حاصل کمائی  پر نہیں ملک اور بیرون ملک ان کے کاروبار ‘ دولت کا شمار نہیں ۔ یہ وہ سکولز ہیں جہاں زیر تعلیم بچے بھی کھاتے پیتے گھرانوں سے ہیں جن کے بچے سکول کے سمر کیمپ میں شرکت کے لئے ہر سال یورپ کا سفر کرتے ہیں اور فی طالب علم 4 سے 5 لاکھ روپے فنڈز جمع کرواتے ہیں۔
ان کی فیسیس 15 ہزار سے 25 ہزار تک ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

فرنچائز سکول سسٹمز
انہی بڑے کاروباری خاندانوں نے درمیانے طبقے کی خاطر فرنچائز سکول سسٹم کا نظام متعارف کروا رکھا ہے
اب ان کی فرنچائز حاصل کرنے والے مہربان یا تو خود بھی کاروباری ہیں یا یورپ پلٹ ۔ ان کی فیسیس 4 ہزار سے 6 ہزار تک ہیں
کروڑ پتی مالکان کے ذاتی سکولز
ایک سروے کریں آپ کو اکثر پرائیویٹ سکولز ان مالکان کے ملیں گے جن کا اپنا تو تعلیم سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ھاں مگر ان نے سائیڈ بزنس کے طور پر سکولوں پر سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور ان سب پر رب کی خاص رحمت یہ یے کہ ان کا بھی دارومدار سکولز سے حاصل شدہ کمائ پر ہر گز نہیں ان کے ہاں والدین سے ماھانہ 3 سے 5 ہزار روپے فیس وصول کی جاتی ہے۔
سفید پوشوں کے سکول
اب اگلا مرحلہ ہے ان سکولز کا جن کے مالکان کا کسی نہ کسی طور تعلیم کے شعبہ سے تعلق یے ان لوگوں نے جیسے تیسے کر کے سکولز بنا لئے اور یہ سکولز آپ کو کرائے کی عمارات میں ملیں گے یہاں اوسط فیس ایک ہزار سے 2500 تک وصول کی جاتی ہے۔حاصل شدہ فیس سے سٹاف کی تنخواہ ، عمارت کا کرایہ یوٹیلیٹی بلز ادا کرنے کے بعد ان مالکان کے گھر کا چولہا سکول سے حاصل شدہ بچت پر موقوف ہے۔
500 سے ہزار روپے فیس والے سکولز
آخری درجے میں وہ چھوٹے چھوٹے سکولز ہیں جو زیادہ تر کرائے کی عمارات میں ملیں گے جہاں آج بھی فیس محض 500 سے 1000تک وصول وصول کی جاتی ہے۔اب آپ دیکھیے اگر ایسے کسی سکول میں 300 بچے زیر تعلیم ہیں اور اگر سو فیصد فیس وصول کی جائے تو حاصل شدہ رقم پانچ سو فی کس کے حساب سے بنی ڈیڑھ لاکھ روپے۔ سٹاف اگر بیس ٹیچرز پر مشتمل ہو تو کم سے کم پانچ ہزار رپوے تنخواہ بھی دی جائے تو بنا لاکھ روپیہ،اس میں کلاس فور ، کلرک آیا جی چوکیدار شامل نہیں،عمارت کا کرایہ دس سے بیس ہزار شامل کریں اور مجھے بتائیں سکول کے مالک کے حصے میں کیا آیا ؟
فیس کی وصولی اور مسائل
ایلیٹ کلاس کے سکولز میں فیس کی ادائیگی اور وصولی نہ والدین کے لئے مسئلہ ہے نہ سکول انتظامیہ کے لئے مجال ہے کوئی چوں چرا بھی کرے نہ کوئی رعایت مانگتا ہے نہ رعایت دی جاتی ہے۔فرنچائز مالکان ہر ماہ ہر سکول سے گراس آمدن پر 9 فیصس رائلٹی وصول کرتے ہیں انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ اس ماہ سکول کو کتنی فیس ملی۔کروڑ پتی مالکان کے سکولز کے کھاتے چیک کر لیجیے وہاں آپ کو فیس معاف یا کم فیس والے بچے گنتی کے برابر ملیں گے۔
سفید پوش طبقے کے سکول میں فیس کے مسائل
ہم باہر بیٹھے کسی سکول میں زیر تعلیم بچوں کی تعداد دیکھ کر یہ اندازے لگاتے ہیں کہ سکول والا اتنا کما گیا۔حقیقت یہ ہے ان سکولوں میں زیر تعلیم اکثر بچوں کی فیس سرے سے معاف یے ۔ ایک ہی فیملی سے تعلق کی بنیاد پر بیشتر بچوں کی فیس نصف ہے۔سب سے بڑا چیلنج جو ان سکولز کو درپیش ہے وہ فیس کی وصولی کا ہے اکثر والدین کی پورے سال کی فیسیس واجب الادا رہتی ہیں وہ پلٹ کے خبر نہیں لیتے کیسا ستم ہے کہ ماہانہ فیس کو یومیہ پر تقسیم کریں تو محض پچاس سے سو روپے بنے گی اور ان کے بچے اس سے دوگنی رقم ٹک شاپ پہ خرچ کر دیں گے لیکن سکول کو فیس نہیں دیں گے۔
کرونا کی آفت فیس معافی
جی جناب ہم اپ کے ہم آواز ہیں کہ قیامت کی اس گھڑی فیس معاف کر دینا چاہئے والدین پریشان ہیں۔
تو آئیے اوپر سے شروع کرتے ہیں۔۔۔
ایلیٹ کلاس کے سکولز جن کے مالکان ارب پتی ہیں وہ تین ماہ فیس نہ بھی لیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا وہ اپنے سٹاف کو تنخواہ دے سکتے ہیں۔
فرنچائز مالکان
اس کیٹیگری کے مالکان بھی تین ماہ کی رائلٹی نہ وصول کریں سٹاف کی تنخواہ کا بندوبست کر لیں تو فیس نہیں لی جا سکتی۔
کروڑ پتی مالکان کے سکولز
یہ لوگ بھی خوشخال ھیں اگر تین ماہ کی فیس وصول نہ بھی کریں تو جتنا یہ سکولز سے کماتے ہیں آرام سے اپنے سٹاف کو تین ماہ کی تنخواہ دے سکتے ہیں سکول کھلنے پر محض دو ماہ کی بچت ان کا خسارا پورا کرنے کو کافی ہو گی۔
سفید پوش مالکان کے سکولز
اب آ جا کے سارا مسئلہ اس کلاس کے سکولز کا ہے جن کا سارا دارومدار آ جا کے سکول سے حاصل شدہ کمائی پر ہے۔
ایک لمحے کو تصور کر لیا جائے کہ یہ سکول تین ماہ کی فیس وصول نہیں کرتے تو
1۔ یہ تین ماہ تک سٹاف کو تنخواہ کہاں سے دیں
2۔ عمارات کے کرائے کیسے ادا ہوں گے
3۔ یوٹیلیٹی بلز کیسے ادا ہوں
4۔ ان کے اپنے گھروں کا چولہا کیسے جلے
کیا سول سوسائیٹی آگے بڑھے گی ؟
جی تو ہم آگے بڑھتے ہیں چلیں یہ سفید پوش مالکان اپنے پیٹ پہ پتھر باندھ لیتے ہیں اور والدین سے فیس نہیں لیتے
لیکن
کیا ان کے پاس تیس ، 40 سٹاف ممبران جو انتہائی غریب گھرانوں سے ہیں جن کے ہزار مسائل ہیں جن کا چولہا بیٹی کی آٹھ دس ہزار تنخواہ کا مرہون منت ہے سول سوسائیٹی اپنے ذمہ لیتی ہے ؟ کیا دانشور آگے بڑھ کر ان تیس یا چالیس گھرانوں کی کفالت کا ذمہ اٹھاتے ہیں؟
کیا ان سکولز کی عمارات کے مالکان ایثار کا مظاہرہ کریں گے ؟ تین ماہ کا کرایہ معاف کردیں گے ؟
اگر ان دو مسائل کا ذمہ دانشور اٹھا لیں تو بہت سے سکول تیار ہو جائیں گےکہ وہ فیس معاف کر دیں
پیارے پڑھنے والو
پروپیگنڈہ تبصرہ قیاس آرائیں حقیقت سے تعلق نہیں رکھتیں
ہم آپ کے ساتھ ہیں
ایک بات یاد رکھیے گا ارب پتی ہوں یا کروڑ پتی ان کو کبھی خیال نہیں آتا
آ جا کے سفید پوش طبقہ ہی پستا ہے
سفارشات
حکومت اس ضمن میں آگے آئے
سکولز میں لی جانے والی فیس کی بنیاد پر درجہ بندی کرے
جن کی فیس خاطر خواہ یے جن کے مالکان خوشخال ہیں ان کو رضاکارانہ طور پر پابند کرے کہ وہ لاک ڈاون کے دوران فیس وصول نہ کریں
جو سکول پانچ سو سے 2 ہزار تک فیس وصول کرتے ہیں اور جن کے مالکان کا کوئی اور ذریعہ آمدن سکول کے علاوہ نہیں ان کو سٹاف کی تنخواہ کے ضمن میں سب سڈی دے پھر وہ والدین سے فیس وصول نہ کریں۔۔
اگر یہ ممکن نہیں تو پھر ہمیں مافیا کہنے والے آگے بڑھیں
سٹاف کی لسٹیں ہم مہیا کرتے ہیں تین ماہ کی تنخواہ کا ذمہ اپ اٹھا لیجیے بلڈنگز کا کرایہ معاف کرا دیجیے
ہم آج ہی تین ماہ کی فیس معاف کرنے کا اعلان کرتے ہیں!

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply