کینسر (63) ۔ فتح یا شکست؟/وہارا امباکر

جان بیلار نے اپنا پہلا مضمون “کینسر کے خلاف ترقی؟” کے عنوان سے 1986 میں لکھا تھا۔ دوسرا مئی 1997 میں پہلے آرٹیکل کے گیارہ سال بعد۔
ان کا مضمون Cancer Undefeated کے عنوان سے تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے مضمون میں بیلار نے چالیس سال کا ڈیٹا اکٹھا کیا تھا اور دکھایا تھا کہ چالیس سال کی تحقیق کا کینسر پر ہونے والا اثر بہت کم ہے۔ دوسرے میں 1970 کے بعد ہونے والے نتائج کا۔ یہ مدت کینسر ایکٹ کے بعد کے وقت کی تھی۔ سٹڈی کے لئے طریقہ کار وہی استعمال کیا گیا جو پچھلی میں کیا تھا۔
جو پیٹرن ابھرا، وہ یہ کہ اس دوران میں کینسر سے ہونے والی اموات میں چھ فیصد اضافہ ہوا تھا۔ لیکن ان سے پچھلے دس برس میں یہ اضافہ رک گیا تھا۔ لیکن اگر صرف ایک گراف کی صورت میں دیکھا جائے یہ بہت کچھ نہیں بتاتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم فزکس میں جانتے ہیں کہ سٹیٹک اور ڈائنامک ایکولبریم ایک سے نہیں ہوتے۔ سیدھی لکیر جمود نہیں تھی۔ دو مخالف قوتوں کا نتیجہ تھی۔
بیلار اور گورنک نے اپنے ڈیٹا میں مزید گہری چھلانگ لگائی اور ان قوتوں کو الگ کرنا شروع کیا۔
پچپن سال سے زائد عمر مرد و خواتین میں کینسر سے اموات کی شرح میں اضافہ ہوا تھا جبکہ اس سے کم میں کمی۔
اسی طرح کا معاملہ کینسر کی قسم کے ساتھ تھا۔ کئی اقسام کے کینسر سے اموات میں کمی ہوئی تھی، کچھ میں فرق نہیں آیا تھا، کچھ میں اضافہ ہوا تھا۔ بڑی آنت کے کینسر سے ہونے والی اموات میں تیس فیصد کمی تھی۔ سرویکل کینسر اور یوٹرس کے کینسر میں بیس فیصد کمی۔ ان دونوں کے سکریننگ ٹیسٹ بھی دستیاب تھے (کولونوسکوپی اور پیپ سمئیر) اور جلد معلوم ہو جانے سے علاج بہتر نتائج کی ایک وجہ تھا۔
بچوں کے کینسر کی شرح میں ہونے والی کمی ہر دہائی میں مسلسل تھی۔ ہوجکن اور خصیے کے کینسر میں بھی ایسا ہی تھا۔
جبکہ الٹ سمت میں ہونے والا سب سے بڑا مسئلہ ایک ہی تھا۔ یہ پھیپھڑے کا تھا۔ یہ تمام کینسرز میں سے سب سے بڑا قاتل تھا۔ تمام کینسرز میں سے ایک چوتھائی اموات اس کی وجہ سے ہوئی تھیں۔ مردوں میں اس سے ہونے والی اموات کی بلند ترین شرح 1980 کی دہائی کے وسط میں پہنچ گئی تھی اور پھر اضافہ نہیں ہوا تھا۔ لیکن خواتین میں یہ بڑھ رہا تھا۔ خواتین میں ان میں ہونے والا اضافہ اس سٹڈی کے دوران چار گنا تھا! یہ پیٹرن ویسا ہی تھا جیسے سگریٹ نوشی کا۔ خواتین نے یہ عادت مرودوں کے بعد میں شروع کی تھی۔ اور اس نے کینسر کی سٹڈی کے اعداد و شمار تہس نہس کر دئے تھے۔ میڈیکل سائنس کی وجہ سے ہونے والی تمام کامیابیوں کا صفایا اس ایک سبب نے کر دیا تھا۔ اور پھیپھڑوں کے کینسر سے اموات پچپن سال کی عمر میں سب سے زیادہ تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شماریات کا یہ پیپر موت و زیست کا کانٹے کا مقابلہ دکھاتا تھا۔ بیلار خود یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ کینسر کے خلاف جنگ جمود کا شکار ہے۔ لیکن ان کے تحقیقی پیپر نے ثابت کر دیا تھا کہ یہ انسان اور بیماری کا جاری مسلسل اور ہمہ جہتی مقابلہ ہے۔
اور بیلار، جو اس جنگ کے سخت نقاد تھے، اس کے موثر ہونے کا انکار نہیں کر سکے۔ جب ان سے ٹی وی اس پر سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا۔ “میرے خیال میں ہم اتفاق کر سکتے ہیں کہ یہ گلاس نصف بھرا ہوا ہے اور نصف خالی ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کینسر سے بچنے کی کوئی ایک حکمتِ عملی نہیں تھی جو بہت کامیاب تھی۔ لیکن نصف بھرے ہوئے گلاس کے پیچھے بہت کچھ تھا۔
ابتدائی دہائیوں کی امید اور پھر اگلی دہائی کی مشکلات سے اس وقت تک حقیقت پسندی آ چکی تھی اور اس حقیقت پسندی کے ساتھ اپنی امید بھی تھی۔
رچرڈ کلاسنر نے اس رپورٹ پر تبصرہ کیا۔
“حقیقت یہ ہے کہ کینسر بیماریوں کی ایک ورائٹی ہے۔ اس کو ایک بیماری کے طور پر تصور کرنا ویسا ہی جیسے تمام ذہنی عوارض کو ایک بیماری کہہ دیا جائے جن کے لئے ایک ہی حکمتِ عملی درکار ہوتی ہے۔ ایسا ہونے کا امکان تو نہیں کہ ہم جلد ہی کوئی جادو کی گولی پا لیں گے اور کینسر ختم کر دیں گے۔ لیکن ہر قسم کے کینسر سے بچنے اور ابتدا میں پکڑنے کے لئے کوئی جادو کی گولی ہے ہی نہیں۔
ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ لیکن یہ دعویٰ کرنا سادہ لوحی پر مبنی ہو گا کہ آگے بڑھنے کی موجودہ رفتار کی وجہ ناقص پالیسیاں یا غلط ترجیحات ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اونکولوجی کا ایک عہد ختم ہو رہا تھا۔ یہ شعبہ اپنی بلوغت کو پہنچ رہا تھا۔ ایک آفاقی علاج کی امید ترک کی جا چکی تھی۔ کسی ریڈیکل علاج سے ہونے والے معجزے کی توقع باقی نہیں رہی تھی۔ اب توجہ بنیادی سوالات کی طرف مبذول ہونے لگی تھی۔ کسی خاص قسم کے کینسر کی جڑ میں کارفرما اصول کیا ہیں؟ ہر کینسر میں مشترک کیا ہے؟ چھاتی کے کینسر اور پھیپھڑے کے کینسر اور پروسٹیٹ کے کینسر مختلف کیوں ہیں؟ کیا مشترک پاتھ وے ہیں؟ کیا مختلف پاتھ وے ہیں؟ کیا علاج اور بچاوٗ کے لئے نئے نقشے تیار کئے جا سکتے ہیں؟
کینسر کے خلاف جاری مہم اندر کی طرف رخ کر رہی تھی۔ بنیادی بائیولوجی کی سمت اور بنیادی میکانیکی وضاحتوں کی طرف۔
اور ان سوالات کے جواب کے لئے ہم بھی اندر کی طرف چلتے ہیں۔ واپس، کینسر کے خلیے کی جانب۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply