دیریلش ارطغرل کی مخالفت کے اسباب۔۔۔اظہر احمد

کچھ عرصہ قبل وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب نے اپنی ایک تقریر میں ترکی کے مشہورِ زمانہ ڈرامے “دیریلش ارطغرل” کی تعریف کی تھی اور پاکستان میں اس طرز کے ڈرامے بنانے کی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا۔ وزیراعظم کی اس تقریر کے بعد پاکستان میں اس ڈرامے کے شائقین کی تعداد میں ریکارڈڈ اضافہ دیکھنے میں سامنے آیا۔
ترکی کے صدر جناب رجب طیّب اردوان نے جب رواں سال 12 فروری کو پاکستان کا دورہ کیا تھا تو جہاں تجارتی اُمور سے متعلق کئی معاہدوں پر دستخط کئے تھے، وہیں دونوں ممالک کے سرکاری چینلز (پاکستان کے سرکاری چینل PTV اور ترکی کے سرکاری چینل TRT )کے مابین باہمی تعاون کا معاہدہ بھی طے پایا گیا۔ دونوں ممالک نے اس تعاون کو ڈیجیٹل دنیا میں بھی آگے بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا اور اسی موقع پر یہ بھی اعلان کیا گیا کہ ترکی کے شہرۂ آفاق ڈرامہ سیریز “دیریلش ارطغرل” کو بہت جلد اردو زبان میں پاکستانی ناظرین کیلئے پیش کیا جائے گا۔
کافی انتظار کے بعد یہ خبر یقیناً بہت خوش آئیند ہے کہ “ارتغرل غازی” کے پہلے سیزن کی ابتدا PTV home سے ہو گئی ہے۔
جب سے یہ ڈرامہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں مقبول و معروف ہورہا ہے اور اسکے مداحوں میں اضافہ در اضافہ ہوتا جارہا ہے، وہیں اس ڈرامے کی مخالفت میں بھی کوئی کمی نہیں رہی۔ بلکہ بیش بہا مخالفین کے اعتراضات اور تنقید بھی سر اٹھا چکے ہیں۔ جہاں کچھ لبرل حلقوں کو اس ڈرامے سے تکلیف ہو رہی ہے وہیں کچھ مذہبی طبقوں کی جانب سے بھی اس ڈرامے کے خلاف فتوے سامنے آرہے ہیں۔ جہاں پاکستان میں کچھ مذہبی حلقوں کی جانب سے اس ڈرامے پر فتوے لگائے جارہے ہیں وہیں اس سے قبل ترکی کے کٹر سیاسی مخالف سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر کی حکومتوں کی جانب سے رواں سال فروری کے مہینے میں اس ڈرامے پر پابندی لگادی گئی۔ جس کے بعد ان ممالک کے بعض علماء کی جانب سے اس ڈرامے کے متعلق تفصیلی فتوے بھی جاری ہوئے ہیں تاکہ اس ڈرامے کی مقبولیت کو کم یا پھر ختم کیا جا سکے۔ مصر کے فتویٰ دینے والے سب سے بڑے ادارے ”دارالافتاء“ نے ارطغرل کے خلاف فتویٰ دیا کہ یہ ڈرامہ کسی بھی صورت میں نہ دیکھا جائے۔ اتنا ہی کافی نہ تھا کہ مذکورہ بالا فتوے میں ترک صدر رجب طیب ایردوان کو بھی ہدفِ تنقید بنایا گیا اور کہا گیا کہ طیب اردوان عثمانی خلافت کی بحالی اور عرب دنیا پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان فتووں سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عرب ممالک میں اس ڈرامے پر فتوے کی وجہ مذہبی نہیں بلکہ صراحتاً سیاسی ہے۔ دراصل یہ ممالک اس ڈرامے کو عرب قومیت کے خلاف گردانتے ہیں اور اس کی مقبولیت سے خائف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مصر، تیونس اور متحدہ عرب امارات نے ”دیریلش ارطغل“ کے اب تک سامنے آنے والے نتائج سے تنگ آکر اس ڈرامے کے مقابلے میں ایک ڈرامہ ”ممالک النار“ تیار کیا لیکن پُھوٹی قسمت یہ کہ اسے کچھ خاص پذیرائی نہیں مل سکی، اُس ڈرامہ کا موضوع عثمانیوں اور مملوکوں کی مشرقِ وسطیٰ پر قبضے کے لئے لڑائیاں تھیں۔
اِن تمام ہتھکنڈوں کے باوجود دیکھنے میں یہ آیا کہ عرب ممالک میں بھی “دیریلش ارتغل” ڈرامے کی مخالفت کے بجائے مقبولیت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔
البتہ پاکستان اور عالمِ اسلام کے وہ علماء جو عصرِ حاضر کے الحاد پر گہری نظر رکھتے ہیں، اس ڈرامے کو الحادی نظریات کے سامنے نہ صرف ایک بند سمجھتے ہیں بلکہ میڈیا وار فئیر میں اسے اسلام کی پہلی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔
یہ ڈرامہ ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی ان تمام فلموں، ڈراموں، سیریلز، کا بِلا واسطہ جواب ہے جو ہمارے معاشرے میں عُریانیت، فحاشی اور جھوٹ کے پھیلاؤ کا سبب رہے اور اب بھی بن رہے ہیں اور جن کو مسلمان نوجوان تقریباً سو سال سے دیکھتا آرہا تھا۔ یہ ڈرامہ بس ایک متبادل ہے، جس نے اسلام کے کچھ اَقدار کو اپنی مرکزیت میں رکھا ہے. اس میں موسیقی کے نام پر قدیم ترکی شاعری کا سہارا لیا گیا اور رقص سے مکمل اجتناب کیا گیا ہے. شروعات اور بوقتِ ضرورت جنگی میوزک اور پرانی دھن وغیرہ کا استعمال ہوا ہے. تمام مسلمان مرد و خواتین کے کردار کو، چاہے مثبت کردار میں ہوں یا منفی کردار میں، شرعی طور مناسب لباس میں پیش کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ اس ڈرامے میں بہادری، انصاف پسندی، مشکل حالات میں بھی دین اور اصول پر قائم رہنا، عشق و معاشقہ میں بھی ایک حد کو برقرار رکھنا، بڑوں کی عزت کرنا، علماء و اللّٰہ والوں کی قربت حاصل کرنا، ان کی قدر کرنا اور قرآن و سیرتِ رسول ﷺ سے اپنا دلی لگاؤ اور مشکل حالات میں بھی راہنمائی لینا جیسی چیزوں کو بہترین انداز میں فلمایا گیا ہے۔
اس ڈرامے میں شرعی نقطہ نظر سے یقیناً بہت سی چیزیں درست نہیں ہیں لیکن اس میں بھی دو رائے نہیں ہے کہ میڈیا، فلم اور سیرئیلز عوام کی آراء کو ہموار کرنے یا ان کو مخالف سمت میں بدلنے میں اس وقت دنیا بھر میں سب سے زیادہ کارگر اور مؤثر ذریعہ ہیں اور پھر اس ڈرامے کے تناظر میں یہ بات بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ یہ سیرئیل اُس خطے میں فلمایا گیا ہے جہاں ایک صدی قبل جب خلافت ٹوٹی تھی تو جدید ترکی کے بانی اَتاتُرک نے ترکی کو سیکولر بنیادوں پر استوار کیا تھا۔ پورے ملک کا معاشی اور سیاسی نظام مغربی ممالک کو دیکھتے ہوئے بنایا گیا، تمام عربی لباس جو ترکی میں تھے جلا دیے گئے، عربی زبان سے اس قدر نفرت آمیز رویہ اپنایا گیا کہ اذان بھی ترکی زبان میں دی جاتی تھی اور نماز بھی ترکی زبان میں پڑھی جاتی تھی، ترکی زبان کا رسم الخط تک لاطینی کر دیا گیا تھا۔ وہ ترکی جو اسلام کی عظمت کے پاسباں سمجھے جاتے تھے، جنہوں نے 5 صدیاں اسلام کا دفاع کیا وہ پوری قوم سیکولر ازم اور مذہب مخالف نظریات کی زد میں آ گئی تھی۔ اس قوم کو جس خوبصورتی سے رجب طیّب اردوان سیکولر نظریات سے اسلام کی طرف لا رہے ہیں وہ نہ صرف قابلِ تعریف ہے بلکہ دیگر مسلم ممالک کے لئے قابلِ تقلید بھی ہے اور یہ تاریخی ڈرامہ اسی سلسلے کی ایک مضبوط کڑی ہے۔
یہ ایک ناول طرز کا تاریخی ڈرامہ ہے جس میں کچھ خیالی کردار بھی تشکیل دیے جاتے ہیں اور واقعات کو جوڑنے کے لئے کچھ کہانی کو کھینچا بھی جاتا ہے۔ کچھ نوجوانوں کی کہانی میں دلچسپی برقرار رکھنے کے لئے کچھ رومانوی سِین بھی رکھنے پڑتے ہیں اور یہی سب آپ کو پاکستان کے اسلامی تاریخی ناولز میں ملتا ہے۔ نسیم حجازی ، التمش اور عنایت اللہ‎ اسکی جاندار مثالیں ہیں۔ جن کو تمام مدارس میں ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ اس ڈرامے کو PTV پر دکھانے کے بارے میں اہلِ دانش کی آراء ہے کہ دیریلش ارتغل تیس سالوں بعد پی ٹی وی کو اپنا کھویا ہوا مقام واپس دلا دےگا۔ المختصر اسلامی رنگ سے بھرپور، جہادِ زندگی کی عظیم داستان ، عشقِ الٰہی، ثنائے محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور روایت و ثقافت کی پاسداری پر بنا یہ بہترین ڈرامہ ہماری زندگیوں میں بہتری کے اسباب لاسکتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply