ابن مسعود فرمایا کرتے تھے کہ “مجھے سب سے زیادہ ندامت اس وقت ہوتی جب سورج غروب ہو جاتا ، میری زندگی کا وقت کم ہو جاتا لیکن میرے عمل میں اضافہ نہ ہو پاتا”
ماہ و سال اور شب و روز کا آنا جانا تسلسل کے ساتھ جاری ہے کبھی کسی شخص کی سالگرہ ، کبھی کسی ملک کی سالگرہ ، کبھی کسی ادارے کی سالگرہ تو کبھی ہم سال گرنے کی سالگرہ منا رہے ہوتے ہیں۔۔ ۔
حالانکہ زاویہِ نظر کو ذرا درست کیا جائے تو احساس ہو جاتا ہے کہ ماہ و سال کے تیزی سے گزر جانے اور شب و روز کے بغیر تھمے چلتے جانے میں ہمارے لئے بہت بڑا سبق ہے کہ یہ ماہ و سال اور شب و روز کی گنتی تو جاری رہے گی لیکن نقصان ہمارا ہے جو رک رک کر ان کے آنے جانے کے منتظر رہتے ہیں اور خود کے انجام کو بھول جاتے ہیں۔۔۔۔
ہماری زندگی کا ایک سال کم ہو رہا کے ، جس میں ہم نے جو کچھ کھویا وہ بہت زیادہ تھا اور جو کچھ ہم حاصل کر سکے وہ بہت کم تھا ، ہم نے جتنی محنت ، عبادت اور جد و جہد کی اس سے بہت زیادہ ہم کر سکتے تھے۔
آج ہم ایک بار پھر گرمی کا شکوہ کرتے ، خزاں کی اداسی دیکھتے ، بہار کی خوبصورتی سے دل لبھاتے اور سردی کا مزہ لیتے ہوئے اپنی زندگی کا ایک سال کم ہونے کا جشن منانے کی تیاری کر رہے ہیں کیونکہ ہم نے بے مقصد زندگی گزارنی شروع کر دی ہے ، ہمیں چاند کی چمک ، ستاروں کی دمک اور سورج کی روشنی تو یاد رہ جاتی ہے لیکن اس چمک ، دمک اور روشنی کے بعد کے زوال اور اختتام کو ہم بھول جاتے ہیں ، اور پھر ہم اپنے مقاصد و منازل سے کوسوں دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔
آج ہم خوشیاں اور جشن منائیں گے ،
کس بات کا جشن؟
فلسطین پر ٹوٹنے والے مظالم کا جشن یا اپنی بے حسی کا جشن؟
ڈوبتی ہوئی معیشت کا جشن یا اپنی بے حسی کا جشن؟
اخلاقیات کے نکلتے ہوئے جنازے کا جشن یا تربیت کے فقدان کا جشن؟
دین بیزاری کے پھیلتے ہوئے فتنے کا جشن یا اپنی ذمے داریاں نہ ادا کرنے کا جشن؟
ملک مخالف نعرے بازی کا جشن یا مخالفت پر اکسانے والے اقدامات کا جشن؟
آخر ہم کس بات کا جشن منانے نکلے ہیں؟
اور نکلے ہیں تو کیوں نکلے ہیں؟
کوئی تو بتائے۔۔۔۔کوئی تو جواب دے۔۔۔۔
اور اگر جواب نہیں تو پھر تیاری کریں ، ایک نئی صبحِ روشن کے ساتھ منور ہونے کی ، ایک نئی مید کے ساتھ آگے بڑھنے کی اور ایک نئے جذبے کے ساتھ اپنے حصے کی ذمے داریاں ادا کرنے کی۔۔۔نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں