سال نو 2024 کیا رنگ لائے گا ؟-ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

یہ حقیقت خداوندی ہے کہ پہر سے گھنٹے ، گھنٹوں سے دن ، دنوں سے ہفتے ، ہفتوں سے سال اور سالوں سے صدیاں معرض وجود میں آتی ہیں۔روز اول سے یہ سلسلہ تواتر و تسلسل کے ساتھ جاری و ساری ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

انسان کی زندگی کی پرکار بچپن جوانی اور بڑھاپے کا دائرہ بنا کر ختم ہو جاتی ہے۔یہ حقیقت کسی ایک فرد ،معاشرے ، قوم یا ملک پر ختم نہیں ہوتی۔بلکہ یہ یکسانیت کا عنصر اقوام عالم کے منظر نامہ دکھانے میں اہم پیش رفت کرتا ہے۔انسان کی زندگی ایک مہمان کی طرح ہے۔ نہ جانے اس میں کتنے سال آئے اور کتنے چلے گئے۔ ہر سال کے اپنے اثرات ، ثمرات اور درپیش چیلنجز ہوتے ہیں۔
جن سے نمٹنے کے لیے قوت ارادی کی ضرورت ہوتی ہے۔ سیرت و بصیرت کا اہم کردار شامل ہوتا ہے۔
ذخائر اور وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ جن کی بدولت تعمیر و ترقی کی راہ گامزن ہوتی ہے۔کائنات کی وسعتوں میں انسان روز اول سے تا حال حالات پر قابو پانے کے لیے تگ و دو کرتا رہا ہے۔وہ معاشی منصوبہ بندی کے ذریعے بہتر سے بہتر اقدام کر کے اپنی تخلیقی، تحقیقی ، سائنسی ، طبی ، مہارتوں کی بدولت سرخرو ہوا ہے۔
سال نو شروع ہونے سے پہلے ہر انسان ، قوم اور معاشرہ تعمیر و ترقی کے اہداف متعین کرتا ہے۔اپنے حالات کا بے لاگ جائزہ لیتا ہے۔وسائل کی کمی کا احاطہ کرتا ہے۔وسائل کا تخمینہ لگا کر آگے بڑھنے کی جستجو کرتا ہے۔یہ ایک فطری ہم آہنگی ہے جو تحریک کو جنم دے کر آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔وقت خدا کے ہاتھ کی کاری گری ہے۔ وہ آتا اور چلا جاتا ہے۔نہ رکتا نہ ٹھہرتا نہ تھمتا ہے۔مگر زمانوں کی داغ بیل یعنی ماضی حال اور مستقبل کی بنیاد ڈال دیتا ہے۔آج اقوام عالم میں جتنی بھی تعمیر و ترقی ہوئی ہے۔اس میں خدا کی مرضی اور انسان کی مرضی کا عنصر شامل ہے۔زندگی کی رونقیں دوبالا کرنے کے لیے اس نے ایسے ایسے ہوش ربا کام کیے ہیں۔
جنہیں دیکھ کر رشک و تحسین جیسے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں۔ دل واہ واہ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
قسمت ناز کرنے لگتی ہے۔حوصلہ افزائی آگے بڑھنے کی تحریک دیتی ہے۔ جذبات میں شدت آ جاتی ہے۔
یہ انسانی فطرت کا قابل رشک جذبہ ہے کہ اس نے دنیا میں ایسے ایسے کارہائے سرانجام دیے ہیں۔جو قابل فخر اور قابل رشک ہیں۔چاند پر جانا ، ایٹم بم بنانا ، جنگی آلات بنانا، ادویات کی تسخیر ، زرعی مشینیں ، طبی تحقیق ، طبی اوزار، بجلی ، علاج معالجہ ، عمارتیں ، ہوائی جہاز ، بحری جہاز ، ریلوے کا انجن ، ریڈیو ،ٹیلی ویژن اور موبائل فون، ویڈیوز۔
تعمیر و ترقی کا یہ سلسلہ ایک دن میں ہی طے نہیں ہو جاتا بلکہ کامیابی کے لیے کئی کئی سال کا چلہ کاٹنا پڑتا ہے۔تب کہیں جا کر بہار کا موسم شروع ہوتا ہے۔اس ضمن میں انسان کے مددگار ساتھی محنت ، لگن، جستجو، تحقیق اور مصمم ارادہ ہے۔جو ہر مشکل پر قابو پا کر مقصد کا تعین کر لیتا ہے۔
اگر مقصد کا دیا جل جائے تو اس کی روشنی دور دور تک پھیل جاتی ہے۔یہ بات بھی سچ پر مبنی ہے کہ موجد روز روز پیدا نہیں ہوتے۔سائنس دانوں کا جنم بھی روز روز نہیں ہوتا۔انہیں بھی زمین پر اترتے اترتے صدیاں بیت جاتی ہیں۔اس لیے ایسے لوگوں کی قدر شناسی دلوں سے جدا نہیں ہوتی۔عموما ایسے لوگ تاریخ اور انسانیت کی نظر میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ان کی فتوحات نسلوں اور قوموں کے لیے مشعل راہ ہوتی ہیں۔قوموں کی تاریخ میں ایسے لوگوں کے نام آب زر کا درجہ رکھتے ہیں۔نسل در نسل زبان زد رہتے ہیں۔ نہ انہیں تاریخ بھول سکتی ہے اور نہ کوئی انہیں دل سے نکال سکتا ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے ہم کس جگہ کھڑے ہیں؟
ہماری ترجیحات کون سے زاویے پر کھڑی ہیں۔اس حقیقت پر سوچ بچار کا وقت ہے۔ وقت کے مطابق ہمیں مثبت اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
خالی نعروں سے تعبیر کا دروازہ نہیں کھلتا۔
کیونکہ حقیقت کا سورج روزانہ طلوع و غروب ہوتا ہے۔ کائنات قدرت کے رازوں کا خوبصورت شگوفہ ہے۔جس میں اس کی عجائبات ، معجزات ، کرشمات ، کرامات اور اجرام فلکی کے جھرمٹ موجود ہیں۔
جو ہماری سرشت میں رویا کی روح پھونک دیتے ہیں۔ہمیں کچھ نہ کچھ کرنے پر اکساتے ہیں۔ان کا مسلسل سفر بنی آدم کے لیے رحمت ایزدی ہے۔جہاں عقل و شعور کامیابیوں کی راہ ہموار کرتا ہے۔آج دنیا میں جتنی بھی ترقی ہوئی ہے۔مادیت کا بول بالا ہے۔کائنات کی خوبصورتی ہے۔ماحول اور معاشرے میں ہم آہنگی ہے۔وہ سب کچھ حالات ، وسائل اور ذخائر کی بدولت ممکن ہے۔
مذکورہ تمام حقائق کے باوجود اگر اس بات کا فکری اور تنقیدی جائزہ لیا جائے۔تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان نے بلا شبہ مادی ترقی تو بہت زیادہ کی ہے۔مگر حقیقت کا سورج ہمارے روحانی زوال کی داستان بھی رقم کرتا ہے۔ گناہ، ظلم و ستم، زلزلے ، آفات، ناراستی کے کام ، قتل و غارت ، رہزنی کے واقعات ، لوٹ مار ، برگشتگی ، چوری ، ڈکیٹی ، وارداتیں ، دوسروں کی راہ میں کانٹے بچھانا ہماری بیمار ذہنیت کی نشاندہی ضرور کرتے نظر آتے ہیں۔اخلاقی گراوٹ نے معاشرے کی روح کو داغ دار اور چہرے کو جھریوں سے بھر دیا ہے ۔ ہم اندر سے کتنے خوش اور کتنے ناخوش ہیں۔ اس کا اندازہ احساسات اور جذبات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
ہم اپنی حالت زار کا بخوبی تخمینا لگا سکتے ہیں۔اپنے کردار و پاکیزگی پر غور و خوض کر سکتے ہیں۔اطاعت اور نافرمانی کا کھوج لگا سکتے ہیں۔
ہم اپنی بیتی زندگی کو ماضی کے آئینے میں دیکھ سکتے ہیں۔
کیا کھویا اور کیا پایا ہے؟
رشتوں کو کتنا مضبوط کیا ہے؟
تعلیم و تربیت میں ہمارا معیار کیا رہا ہے؟
اپنے اندر اور وفاء کی کتنی روح رکھتے ہیں؟
ہمارا لب و لہجہ کیسا ہے؟
مالی ،جسمانی اور روحانی طور پر کتنے مضبوط ہیں؟
کتنی دریافتوں کا سہرا ہمارے سر باندھا ہے؟
منصوبوں کی شرح کامیابی کیا ہے؟
مذکورہ سوالات یقینا غور و خوض کا موقع فراہم کریں گے۔احتساب کا وقت دیں گے۔کیونکہ جب خود احتسابی کا وقت آتا ہے تو ہم ایک وکیل کا روپ اوڑھ لیتے ہیں۔دنیا میں وہی شخص بڑا ہوتا ہے جو اپنی غلطیوں، خطاؤں، جرموں اور گناہوں کا اقرار کر کے توبہ کرے۔اپنے جسمانی، روحانی، معاشی منصوبوں کو خدا کے ہاتھ دے۔ خدا کو اپنی امید گاہ بنائے۔
زندگی کو فطری اصولوں کے مطابق گزارے۔وقت کی منصوبہ بندی کرے۔محنت کا دامن تھام کر چلے۔
برکت کی دعا کرے۔ رشوت سے دستبردار ہو جائے۔ایمانداری کا مظاہرہ کریں۔ تعلقات و روابط فروغ دے۔
سچ کا نوالہ کھائے۔ حرام کے لقموں سے پرہیز کریں۔کیونکہ اس سے بد چلنی واقع ہوتی ہے۔جو زندگی کو بے برکت اور ناکام بنا دیتی ہے۔
آئیں کچھ کرنے سے پہلے اپنے رب سے دعا کریں۔آگے بڑھنا شروع کر دیں۔ماہوار اپنی تجزیاتی رپورٹ تیار کریں۔وقت موقع فراہم کرتا ہے۔لہذا موقع پرستوں کی طرح ہمیں بھی سال نو سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اگر ہم نے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے عزم اور لگن کا مظاہرہ نہ کیا۔تو پھر گزشتہ سالوں کی طرح ہمارے نصیبوں میں ناکامی کا لیبل لگا نظر آئے گا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply