لاہور توجہ چاہتا ہے/انجینئر ظفر اقبال وٹو

سنہ 2015 میں لاہور میں انجینئرز نے قذافی اسٹیڈیم کے اطراف میں ایک نہایت دلچسپ تجربہ کیا۔ انہوں نے اپنی ریسرچ سے ایک ایسا ماحول دوست حل دیا کہ جس پر عمل کرنے سے لاہور میں ایک بڑے فلائی اوور بنانے سے بھی کم لاگت میں پورے شہر لاہور کی سڑکوں کو مون سون کی بارشوں میں تالاب بننے سے بچایا جا سکتا تھا۔ اس حل کا اضافی فائدہ یہ تھا کہ لاہور کے زمینی پانی کی تیزی سے گرتی ہوئی سطح بھی ہمیشہ کے لئے مکمل بحال ہو سکتی تھی۔ یہ ریسرچ انٹرنیشنل جرنل میں شائع ہوئی۔

اپنی ریسرچ کے لئے انجینئرز نے شہر لاہور کی سڑکوں پر 43 ایسی نشیبی جگہوں کی نشاندہی کی جو مون سون میں بارش کے بعد تالاب کی شکل اختیار کر لیتی تھیں۔ ان کا اندازہ تھا کہ سڑکوں پرصرف ان 43 مقامات پر ہی 1000 ایکڑ فٹ حجم کا پانی کھڑا ہوجاتا ہے جس کا بہت سا حصہ پانی چوس کنویں بنا کر زیر زمین اتارا جاسکتا ہے۔

اپنی اندازے کی سچائی جانچنے کے لئے انجینئرز نے قذافی اسٹیڈیم کے ساتھ والی نشیبی سڑکوں پر دو پانی چوس کنویں بنائے۔ ہر ایک کنواں 6x9x8 فُٹ کا تھا جس کی سطح پر انہوں نے 2 فُٹ موٹے پتھر اور ایک ایک فٹ بجری اور ریت کی تہہ جما دی جس کے نیچے ایک فٹ گولائی والا سوراخ دار پائپ زیر زمین پانی تک پہنچا دیا۔

حیرت انگیز طور پر پہلی ہی بارش میں سڑک پر کھڑا ہونے والا ایک لاکھ لِٹر پانی صرف تین گھنٹوں میں کنوؤں نے چوس لیا تھا اور بارش میں ہر دفعہ بند رہنے والی سڑک پر تھوڑی دیر بعد ہی ٹریفک رواں دواں تھا۔

مزید تسلی کے لئے انجینئرز نے سڑک پر اکٹھا ہونے والے بارشی پانی اور کنوؤں میں فلٹر ہو کر جانے والے پانی کی کوالٹی کے مختلف ٹیسٹ مستند لیبارٹریوں سے کرائے تو پتہ چلا کہ کنوؤں نے فلٹر کے عمل میں بارشی پانی سے آلودگی بھی صاف کردی تھی اور زیرِ زمین جانے والا پانی انتہائی صاف ستھرا تھا۔ سب اہم بات یہ تھی کہ ایک ہی بارش کے ریچارج نے زیر زمین پانی کی سطح 3.5 فٹ بلند کر دی تھی۔

یہ فوائد صرف 15 لاکھ کی لاگت سے بنے دو کنوؤں سے حاصل ہو گئے تھے۔ اگر اس حساب سے پورے لاہور میں بھی پانی چوس کنویں بنا دئیے جاتے تو ان کی مجموعی لاگت صرف ایک بڑا فلائی اوور بنانے سے کم ہوتی۔

انجینئرز نے تخمینہ لگایا کہ 1800 اسکوائر کلومیٹر سے زیادہ رقبے پر پھیلے لاہور شہر سے مون سون میں پڑنے والی بارشوں سے ایک کروڑ سے زائد لاہوریوں کے لئے پورے سال کا پینے کاپانی اور ہر قسم کے صنعتی استعمال کا پانی زیر زمین ذخیرہ کروایا جاسکتا ہے۔ اس سے شہر کی سڑکیں برسات میں تالاب یا جوہڑ نہیں بنیں گی نہ ہی بارشوں میں سڑکوں پر ٹریفک پھنسے گا اور سڑکوں کی مرمت یا تعمیر نو پر اضافی خرچ بھی بچے گا۔

لاہور کا زیرِ زمین پانی جو کبھی 10 سے 15 فٹ گہرائی پر مل جاتا تھا آج کل 150 فٹ سے نیچے جا چکا۔ پرانے شہر میں تو یہ 600 فٹ گہرائی ہر بھی مشکل سے ملتا ہے۔ زیر زمین پانی کی سطح ہر سال تین فٹ کے حساب نیچےگرتی جارہی ہے کیونکہ شہر کے دو ہزار ٹیوب ویلوں سے روزانہ 3500 ایکڑ فٹ پانی زمین سے کھینچ لیا جاتا ہے۔

لاہور کو اپنے زمینی پانی کی سطح بحال رکھنے کے لئے سالانہ ایک لاکھ ایکڑ فٹ سے زیادہ حجم کے پانی کے خسارے کا سامنا ہے جب کہ انجینیئرز کا تخمینہ ہے کہ ہر سال صرف مون سون کے موسم میں لاہور شہر سے کئی لاکھ ایکڑ فٹ پانی ریچارج کروایا جا سکتا ہے۔

لاہور میں زیرِ زمین پانی کر ریچارج کرنے کے لئے جدید طرز کا، چھپڑ، سسٹم بحال کرنا ہوگا جس نے ماضی میں صدیوں تک اس شہر کے زیر زمین پانی کو میٹھا اور پانی کی سطح کو برقرار رکھا۔ چھپڑ کی طرز پر لاہور شہر کے پارکوں اور کھلی جگہوں پر کثیر تعداد میں ڈونگی گروانڈز کا قیام عمل میں لایا جائے جن کے اطراف میں ریچارج کنویں بنے ہوں۔

سکولوں کالجوں یونیورسٹیوں دفاتر فیکٹریوں الغرض تمام کھلی جگہوں پر ریچارج کنویں بنا کر ری سائیکل پانی سے زیر زمین پانی کو مون سون کے دوران ہی پورے سال کے استعمال کے لئے ریچارج کیا جائے۔ اس کام کو پھر تمام چھوٹے بڑے شہروں تک پہنچانا ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمیں فی الفور ریچارج لاہور اتھارٹی بناکر کام شروع کرنا ہوگا کیونکہ 2015 کے بعد بھی کئی برساتیں گزر چکی ہیں لیکن لاہور کی سڑکیں ابھی بھی تالاب بنی ہوتی ہیں۔ ایل ڈی اے، واسا، پنجاب اریگیشن، جماعت اسلامیWWF، PCRWR، IWMI، یو ای ٹی لاہور اور چند سوسائٹیوں اور انفرادی لوگوں کے پائلٹ ریچارج پراجیکٹس کے علاوہ انجینئرز کے دلچسپ تجربے سے بڑے اسکیل پر آج تک فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply