اٹھارویں ترمیم کے بارے ضروری معلومات ۔۔۔ پرویزبزدار


آج کل ذرائع ابلاغ پر ایک دفعہ پھر اٹھارہویں ترمیم کے چرچے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان اس ترمیم سے خوش نہیں ہیں جبکہ اپوزیشن کی خوشی اسی میں ہے۔آئیں دیکھیں اٹھارویں ترمیم کیا ہے اور اس کے کیا فوائد اور نقصانات ہیں۔

اپریل دو ہزار دس میں آئین پاکستان میں ایک ترمیم کی گئی جسے اٹھارہویں ترمیم کہتے ہیں۔اس ترمیم کے ذریعے آئین پاکستان کی ایک سو دو شقوں میں ردوبدل کیے گئے جن میں سے کچھ نمایاں تبدیلیاں یہ ہیں۔

ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کا اختیار صدر سے لے کر صوبائی اسمبلیوں کو دیا گیا۔

آئین کو توڑنے کے ساتھ اسے معطل رکھنے کو بھی سنگین غداری سے تعبیر کیا گیا اور اسے ناقابلِ معافی جرم قرار دیا گیا۔

صوبائی خود مختاری کو یقینی بنانے کے لیے آئین کے کئی آرٹیکلز میں رد و بدل کیا گیا، بجلی کی پیداوار صوبائی اختیار میں دی گئی۔

صوبوں کو فوجداری اور تعزیرات کے قوانین میں ترمیم کا اختیار دیا گیا۔

ملکی افواج کے سربراہان کی تقرری کے سلسلے میں صدر کو ملکی وزیر اعظم کے مشورے کا پابند بنا دیا گیا۔

صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخوا رکھا گیا۔

صدرمملکت یا صوبائی گورنر کے اسمبلیاں توڑنے کا اختیار وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ  کو منتقل کر دیا گیا۔

کسی بھی شخص کے تیسری بار وزیراعظم یا وزیراعلٰی بننے پر عائد پابندی ختم کر دی گئی۔

جہاں بھی آبی ذخیرہ  (ڈیم) تعمیر کیا جا رہا ہوگا وفاقی حکومت  کو اس صوبے سے مشاورت کا پابند بنایا گیا۔

صوبوں کا حصہ آخری این ایف سی ایوارڈ سے کم نہیں کیا جا سکے گا۔

صوبوں کو قومی مالیاتی کمشن کی مقرر کردہ حد کے اندر مقامی یا بین الاقوامی سطح پر قرضے حاصل کرنے کی اجازت ہوگی۔

یہ ترمیم منظور کیوں ہوئی؟

اس وقت ملک میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور اپوزیشن میں مسلم لیگ نون۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ حکومت میں قوم پرست عوامی نیشنل پارٹی بھی تھی۔ پیپلزپارٹی کو یہ بات معلوم تھی کہ ان کی اصل طاقت سندھ ہے اس لیے کسی صوبے کو جتنے اختیارات دیے جا سکتے ہیں دیے جائیں۔ خاص  طور پر مالی معاملات میں جتنی آزادی ہو اس قدر بہتر ہے۔مسلم لیگ نون کے میاں نواز شریف کے مستقبل میں وزیراعظم بننے کےلیے یہ ترمیم بہت ضروری تھی  کیونکہ اس سے پہلے آئین کے مطابق ایک ہی شخص تین مرتبہ وزیراعظم نہیں بن سکتا تھا۔عوامی نیشنل پارٹی کا بقا اسی میں تھا کہ وہ جتنا قوم پرستانہ پتے کھیل سکیں کھیل لیں، اور سب  سےاہم پتہ صوبے کا نام ہی پختونخواہ رکھنا تھا۔ اس لیے ان سب عوامل نے مل کر اس ترمیم کی راہ ہموار کر لی اور یہ ترمیم باآسانی دونوں ایوانوں سے پاس ہو کر آئین کا حصہ   بن گئی۔

اس ترمیم میں مسئلہ کیا تھا؟

اس ترمیم کے ذریعے صوبوں کو خود مختاری دیتے ہوئے بہت سی چیزیں صحیح طرح سے نہیں دیکھی گئیں۔صوبوں کو کچھ ایسے اختیارات بھی دیے گئے کہ جو اگر کسی ترقی یافتہ ملک کے صوبوں یا ریاستوں میں دی جائیں تو ان کے بس کی بات نہیں ہوگی۔ان میں سے سب سے اہم چیزیں یہ تھی کہ  صحت ،تعلیم اور معاشی نظام  کے اختیارات صوبوں کو دیے گئے۔ کسی ملک کے اصل نظام یہی ہیں اور وہ سب صوبوں کے پاس چلے گئے۔مالی معاملات میں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ وفاق کے پاس صوبوں سے بھی کم اختیارات رہ گئے۔ اس سے  یہ مسائل ہوئے کہ صوبوں سے مالی احداف حاصل کرنے میں ناکامی تو ہوئی ہی مگر اس سے کرپشن یا بدعنوانی کے بھی مسائل پیدا ہوئے۔ کرپشن میں اضافہ کی وجہ یہ ہے کہ صوبوں سے ہر قسم کی پوچھ گچھ ختم ہوگئی۔ وفاق کےلیے ایسے حالات میں اکانومی کو سنبھالنا بہت مشکل ہوگیا کیونکہ بیرونی قرضے وفاق نے ہی واپس کرنے ہوتے ہیں۔اختیارات کا صوبوں میں منتقلی کی وجہ سے بلدیاتی نظام بالکل غیرفعال ہو کر رہ گیا جس سے شہروں کی خود مختاری ختم ہوگئی۔اس ترمیم کو جمہوریت کی مضبوطی کہا جاتا ہے مگر وہ بات بھی بظاہر صحیح نہیں لگتی اس کی وجہ یہ ہے کہ چاہے صوبے جس قدر بھی خود مختار ہیں مگر ایسے قوانین موجود ہیں کہ وفاقی قوانین کو صوبائی قوانین پر فوقیت حاصل ہے۔اس لیے مقتدر طبقوں کےلیے یہ صوبائی خود مختاری کبھی بھی آڑے نہیں آ سکتی۔

پی ٹی آئی کیا چاہتی ہے؟

پی ٹی آئی کو بظاہر صرف صحت ، تعلیم اور معاشی نظام صوبوں کے حوالے کرنے سے اختلاف ہے۔ ان میں بھی سب سے زیادہ اہم شاید پی ٹی آئی کےلیے معاشی نظام ہے۔ پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ نہ تو صوبائی خودمختاری سے محصولات کا حصول ممکن ہے اور نہ ہی اس خود مختاری سے پیسہ وہاں لگ رہا جہاں اس کی ضرورت ہے۔ باقی ترامیم سے بظاہر پی ٹی آئی کو مسئلہ نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

کیا یہ ترمیم کو ختم کی جا سکتی ہے؟

اس ترمیم کو ختم کرنے کے بظاہر کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے پاس اسمبلی میں محدود نشستیں ہیں اور اپوزیشن کا ساتھ دینا بعید از قیاس ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ ویسے صوبوں اور وفاق کے درمیان یا سپریم کورٹ کے ذریعے تعلیم اور صحت کے معاملات وفاق کے حوالے کیے جائیں،مگر مالیاتی معاملات وفاق کی حوالگی کےلیے صوبوں کو کبھی بھی اتفاق نہیں ہوگا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر پرویز بزدار
مضمون نگار نے کائسٹ جنوبی کوریا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری کر رکھی ہے اور اب جنوبی کوریا میں مقیم ہیں۔ وہ موبائل اور کمپیوٹر کے پروسیسرز بنانے میں آرٹی فیشل انٹیلیجنس (مصنوعی ذہانت) کو استعمال کرنے کے طریقوں پر تحقیق کر رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply