دہلی کی لڑائی (21)۔۔وہاراامباکر

“ہماری توپوں نے کام کر دیا تھا۔ اب فوجیوں کی باری تھی۔ پہلی رکاوٹ خندق تھی۔ بیس فٹ گہری اور پچیس فٹ چوڑی۔ اس کو پار کرنے کے لئے سیڑھیاں تھیں۔ اس میں دس منٹ لگے جس میں دشمن نے ہمارے جوان مار گرائے لیکن اس کے بعد ہم بڑھتے گئے۔ جیسے بھیڑیوں کا غول حملہ کر رہا ہو۔ دشمن دیواروں پر ویسے جمع تھا جیسے شہد کی مکھیاں چھتے پر۔ سیاہ چہرے اور سفید پگڑی والے تلواریں اور سنگینیں لہرا رہے تھے۔ وہ ہمیں دیکھ کر پریشان تھے۔ تین بار انہوں نے ہماری سیڑھیاں گرا دیں۔ شگاف تک پہنچنا آسان نہیں تھا۔ اس کے پیچھے انہوں نے دفاعی حصار بنایا تھا۔ میرے ہاتھ میں ریوالور تھا۔ بائیں ہاتھ سے سیڑھی پکڑ کر اور دائیں میں ریوالور فائر کرتے ہوئے میں چڑھتا گیا۔ تلوار بازو کے نیچے تھے۔ انہوں نے اینٹیں گرانا شروع کر دیں۔ میں اور فٹزجیرالڈ اکٹھے شگاف سے داخل ہو گئے تھے۔ میں کشمیری دروازے کی طرف مڑ گیا۔فٹزجیرالڈ اسی وقت گولی سے مارا گیا”۔ یہ رچرڈ بارٹر کی ڈائری سے لیا گیا اقتباس ہے جو وہ دہلی میں داخل ہوئے۔

کشمیری دروازے کا ایک حصہ بارود کے دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ برٹش دہلی میں داخل ہو گئے۔ اس کی قیادت ستائیس سالہ کیپٹن فلپ سالکیڈ کر رہے تھے جو اسی دروازے سے گیارہ مئی کو فرار ہوئے تھے۔ باقی دروازہ کھولنے کی کوشش میں کیپٹن ہلاک ہو گئے۔ ان میں سے ایک شدید زخمی فوجی اندر کی طرف بارود رکھ کر آگ دکھانے میں کامیاب ہو گئے۔ کشمیری دروازے کے دونوں پلو قبضے سے اکھڑ گئے۔ صبح کے پونے چھ بجے دہلی کے حفاظتی حصار توڑنے میں کامیابی کا بگل بجا دیا گیا۔ یہ کینڈال کوگ ہل کی قیادت میں تیسرے کالم کے لئے دہلی میں ہلا بولنے کے لئے اشارہ تھا۔ کینڈال کوگ ہل مہنیوں سے انتقام کی آگ میں جل رہے تھے۔ گیٹ پر دس منٹ تک لڑائی ہوئی جس کے پاس گیٹ برٹش کے پاس تھا۔ دہلی کے داخلی دروازے پر یونین جیک لہرا دیا گیا۔

لیکن اس سے آگے برٹش کو سخت مزاحمت کا سامنا تھا۔ دونوں طرف سے گولیوں کا تبادلہ جاری تھا۔ نکلسن کابل اور لاہور گیٹ پر قبضے کے لئے الگ ہو گئے جہاں میجر ریڈ کی قیادت میں چوتھا کالم ان سے ملنا تھا۔ جنرل ولسن کے پلان کے مطابق دہلی کے مغربی اور شمالی حصے پر قبضہ لنچ تک ہو جانا تھا۔

تھیو میٹکاف گورکھا فوج کو لے کر جامعہ مسجد کی طرف بڑھے۔ تیسرا کالم دہلی کالج کے راستہ لال قلعے کی طرف۔ سات بجے برٹش کے لئے معاملہ خراب ہونے لگا۔ برٹش کا خیال تھا کہ سب سے مشکل مرحلہ دیوار سے اندر جانا ہو گا اور یہ کام آسانی سے ہو گیا تھا۔ لیکن اگلا مرحلہ جس میں سڑکوں اور گلیوں میں آگے بڑھنا تھا، زیادہ مشکل ثابت ہوا۔ انقلابیوں نے بڑی قوت سے جوابی حملہ کیا اور برٹش فوج کو نکالنے میں تقریباً کامیاب ہو ہی گئے تھے۔ بخت خان اور مرزا مغل نے اچھی تیاری کی تھی۔ ہر دروازے اور کھڑکی سے گولیوں کا سلیوٹ ملا۔ کہیں سڑک کے موڑ پر سے گولا آ جاتا۔ افسر اور جوان گرتے گئے۔ لال قلعے کی طرف پیشقدمی کرنے والے پسپا ہو گئے۔

تھیو کے کالم کو جہادیوں نے آن لیا جن کے پاس ایک توپ، تلواریں اور گنڈاسے تھے۔ آدھے گھنٹے کی جھڑپ کے بعد اسے بھی پسپا ہو کر کشمیری گیٹ جانا پڑا۔ نکلسن کے دستے کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ نکلسن کو بغل کے قریب گولی لگی۔ زخمی نکلسن کو دو قلیوں نے اٹھا کر فیلڈ ہسپتال پہنچا دیا۔

کابل گیٹ پر حملے کو بخت خان کی بریلی بریگیڈ کے سامنے پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔

دوپہر بارہ بجے تک برٹش فوج کو روک دیا گیا تھا۔ برٹش فوج کا حوصلہ پست پڑ گئے تھے۔ اگرچہ ایک چوتھائی دہلی پر ان کا قبضہ تھا لیکن پوری جنگ میں اتنا بھاری نقصان پہلے نہیں ہوا تھا۔ حملہ کرنے والے ایک تہائی فوجی اس روز شام تک مارے گئے تھے۔ اس کا مطلب 1100 فوجی تھا جس میں 60 برٹش افسر بھی شامل تھے۔

دوپہر کے بعد برٹش کے لئے مزید بری خبر آئی۔ میجر ریڈ نہ صرف لاہور گیٹ پر کنٹرول نہیں حاصل کر سکے تھے بلکہ ان کا ساتھ دینے والے کشمیر سے آئے سپاہی بھاگ گئے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جنرل ولسن پریشان لگ رہے تھے۔ وہ غور کر رہے تھے کہ حملہ ختم کر دیا جائے اور دہلی کو خالی کر دیا جائے۔ لیکن دوسرے افسروں نے انہیں روک دیا۔ جب ہسپتال میں پڑے زخمی نکلسن کو پتا لگا کہ ولسن دہلی خالی کرنے کا سوچ رہے ہیں تو آگ بگولہ ہو گئے اور کہنے لگے کہ اگر میرے میں ہمت ہوتی تو اس وقت ولسن کو گولی مار آتا۔

دہلی کے جن علاقوں پر برٹش قابض ہو چکے تھے، وہاں کے ہر گھر کی تلاشی لی جا رہی تھی۔ لڑنے کی عمر والے کسی بھی مرد کو مارا جا رہا تھا۔ وہ دہلی والے جو چار مہینوں سے جاری انارکی ختم ہونے کی امید میں تھے کہ برٹش کی واپس سے سب کچھ نارمل ہو جائے گا، انہیں بڑا دھچکا لگنا تھا۔ کسی کو توقع نہیں تھی کہ برٹش قتل و غارت کریں گے۔ وہ لوگ بھی جو نہ صرف برٹش کے حق میں تھے بلکہ انگریز فوج کے لئے جاسوسی نیٹ ورک میں فعال تھے، محفوظ نہیں تھے۔ چارلس گرفتھ، جو کوئی امن پسند شخص نہیں تھے، لکھتے ہیں، “یہ خوفناک وقت تھا۔ ہمارے فوجی پاگل ہوئے ہوئے تھے۔ خاص طور پر وہ جن کے قریبی عزیز بغاوت میں مارے گئے تھے، ان کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔ جو کیا گیا، وہ کسی کرسچن کو زیب نہیں دیتا۔ کوئی رحم نہیں دکھایا گیا۔ کسی کو قیدی نہیں بنایا گیا۔ یہ صفایا تھا۔ عالمی تاریخ کا سب سے سفاکانہ وقت۔ کون لڑنے والا تھا اور کون نہیں؟ ان میں تمیز کرنے کی کوشش بھی نہیں کی گئی”۔

بومبے ٹیلی گراف میں ایک فوجی نے جنرل ولسن کے احکامات کو تنقید کا نشانہ بنایا، “بچوں اور خواتین کو قتل کرنے سے روکنے کا حکم غلطی تھی۔ ہمارے سامنے انسان نہیں شیطان تھے۔ جنگلی جانور جو کتے کی موت مرنے کے مستحق تھے۔ جو لوگ ہمارے لوگوں کے ہتھے چڑھے، وہ ہماری سنگینوں کا نشانہ بنے اور ان کی تعداد کم نہیں تھی۔ ایک گھر میں کئی بار چالیس سے پچاس لوگ چھپے ملتے تھے۔ یہ لڑاکا نہیں تھے لیکن ایسے شہر کے باسی تھے جن کا خیال تھا کہ ہم رحمدلی دکھانے والے لوگ ہیں۔ میں خوشی خوشی یہ بتانا چاہتا ہوں کہ انہیں مایوسی ہوئی تھی”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پندرہ اور سولہ ستمبر کو دہلی کی قسمت کا فیصلہ نہیں ہوا۔ انگریز فوج آگے نہیں بڑھ سکی۔ لیکن دہلی والوں میں بے چینی بڑھ رہی تھی۔ ایک اچھے جوابی حملے کی ضرورت تھی۔ دہلی والے انقلابی سپاہیوں کو برا بھلا کہہ رہے تھے کہ وہ ایسا کیوں نہیں کر رہے۔ ایک جگہ انہیں جوتے بھی پڑ گئے تھے۔

برٹش بمقابلہ انقلابی۔ دہلی میں یہ جوڑ ابھی مقابلے کا تھا۔ سولہ ستمبر کو اس جنگ کا اہم فیصلہ لیا جانا تھا۔ اور چار ماہ پہلے کے فیصلے کی طرف یہ فیصلہ بہادر شاہ ظفر کے پاس تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply