زندگی کا مطلب کیا ہے؟۔۔وہارا امباکر

یہ وہ اہم ترین سوال ہے جو لوگ ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں۔ جب یہ سوال کیا جاتا ہے تو کوئی بھی اس کی توقع نہیں کرتا کہ اس کا کوئی مختصر اور تسلی بخش جواب ملے گا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سوال کے بارے میں بات نہ کی جائے۔ ایک چیز جو ہم فلسفے سے سیکھتے ہیں، وہ یہ کہ کسی بھی سوال کا پہلے تجزیہ کیسے کیا جائے۔ جواب دینے سے پہلے اس چیز کو واضح کر لیا جائے کہ دراصل پوچھا کیا جا رہا ہے۔ جب کوئی پوچھتا ہے کہ “فلاں چیز کا مطلب کیا ہے؟” تو کس طرح کا جواب اس کو مطمئن کر سکتا ہے۔

مطلب کی سب سے عام قسم کسی چیز کی تعریف دریافت کرنا ہے۔ “تبسم ہائی پنہانی کا مطلب کیا ہے؟” سے مراد یہ ہے کہ اس لفظ کو ایسے الفاظ میں بتا دیا جائے کہ جب پڑھیں تو سمجھ آ جائے۔ اس کے لئے میں لغت کی مدد لیتا ہوں اور پتا لگتا ہے کہ “یہ چھپی چھپی سی مسکراہٹ ہے جس کو چھپا بھی لیا جاتا ہے اور دکھا بھی دیا جاتا ہے”۔ اب اگر میں لغت سے زندگی کا مطلب دیکھتا ہوں تو اکیس مختلف قسم کے مطلب مل جاتے ہیں، “پیدائش سے موت کا وقفہ”، “وہ کوالٹی جو جاندار کو بے جان سے الگ کرتی ہے”۔ نہیں، اس سوال کو پوچھنے والا یہ نہیں پوچھنا چاہ رہا، سوال کچھ اور ہے۔

مطلب کی ایک اور قسم علامتی ہے۔ ایک شخص نے ایک جھنڈا پکڑا ہے۔ جب میں سوال کروں کہ “اس جھنڈے کا مطلب کیا ہے؟” تو میں جاننا چاہ رہا ہوں کہ یہ عمل کیوں کیا جا رہا ہے۔ اس کے پیچھے وہ گہرا خیال کیا ہے۔ یہ کس چیز کی علامت ہے اور کیا پیغام ہے۔ لیکن زندگی کے مطلب سے یہ مراد بھی نہیں۔ زندگی کسی چیز کی علامت نہیں، کسی چیز کی طرف اشارہ نہیں۔ سوال کرنے والا خود زندگی کے بارے میں استفسار کر رہا ہے۔

مطلب دریافت کرنے کا ایک تیسرا طریقہ بھی ہے۔ کوئی چیز سمجھ نہیں آ رہی، اس کے لئے مدد کا سوال ہے۔ فرض کریں کہ آپ ایک فلم دیکھنے گئے ہیں اور آدھا گھنٹہ لیٹ ہو گئے ہیں۔ سین میں ایک لڑکے نے ایک شخص کو اپنی طرف آتا دیکھا اور اپنے ساتھ کھڑے بچے کی طرف دیکھ کر آنکھ ماری ہے، “آنکھ مارنے کا مطلب کیا ہے؟” آپ کا خیال ہے کہ اس کا کوئی تعلق فلم کے پلاٹ سے ہے اور آپ کا خیال ہے کہ کچھ چیزوں کا اگر پتا لگ جائے گا تو آپ یہ سمجھ سکیں گے۔ شاید ابتدائی مناظر میں ان کے درمیان کچھ ہوا تھا۔ “آنکھ مارنے کا مطلب کیا ہے؟” کا سوال یہ پوچھ رہا ہے کہ “مجھے کن چیزوں کا جاننا ہے کہ میں آنکھ مارنے کے بارے میں سمجھ سکوں؟”۔

اب ہم کچھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ زندگی بھی کچھ ایسے ہی ہے۔ ایک بہت ہی طویل فلم کے ابتدائی مناظر تو بہت پہلے گزر چکے۔ ہم اس تھیٹر میں داخل ہوئے ہیں اور کہانی کے خاتمے سے بہت پہلے نکل جائیں گے۔ ہم اس سے بخوبی واقف ہیں کہ ہم نے اس دوران جو چند منٹ کنفیوژن کی حالت میں گزارنے ہیں، اس میں اس سب کو سمجھنے کے لئے بہت کچھ جاننا پڑے گا۔ ہمیں یہ بھی نہیں پتا کہ ہمیں کیا نہیں پتا۔ ہمیں یہ بھی پتا ہے کہ اس سوال کو ٹھیک فریم کرنا نہیں آتا۔ اس لئے جب کوئی یہ سوال کرتا ہے کہ “زندگی کا مطلب کیا ہے؟” تو وہ اس کے نتیجے میں سیدھے سے جواب کی توقع نہیں رکھتا کہ جس کو سن کر اس کو سب کچھ سمجھ میں آ جائے گا۔ صرف اس امید میں ہوتا ہے کہ کوئی بصیرت ملے گی، کوئی ایسی پتے کی بات، جس کو سن کر کچھ ایسا سوجھ جائے یا کسی ایسی چیز کی پہچان ہو جائے جو پہلے نظر سے اوجھل تھی اور جس سے اس سب کی کچھ تُک بننا شروع ہو جائے۔

اس سوال کو اگر سادہ طریقے سے دوبارہ فریم کیا جائے تو وہ یہ ہو گا، “زندگی کے بارے میں کوئی پتے کی بات بتائیں”۔ یہ سوال کرنے والے کو کوئی ایسا جواب مطمئن کرے گا جو کسی پہلو پر کوئی بصیرت دیتا ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب اس سوال کو اگر مزید توڑا جائے تو اس میں سے دو الگ حصے نکلتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ “ہم یہاں پر کیوں ہیں؟” دوسرا حصہ یہ کہ۔ “اب جب کہ ہم یہاں ہیں، ہمیں کرنا کیا ہے؟” یعنی کہ ایک اچھی، مطمئن، بامعنی زندگی کیسے گزاری جائے۔ یہ دونوں الگ سوال ہیں۔

بغیر مقصد اور ٹارگٹ کے انسان اپنی ڈیفالٹ میں کسی بھی اور جانور کی طرح زندگی گزار سکتا ہے لیکن انسانی ذہن میں ایک اور حصہ ہے جو ایبسٹریکٹ طریقے سے سوچتا ہے، ان جانوروں کے جھنڈ سے الگ ہو کر دیکھ سکتا ہے اور پوچھ لیتا ہے، “میں کیا کر رہا ہوں؟ کہاں جا رہا ہوں؟”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلا سوال زندگی کو باہر سے دیکھتا ہے۔ لوگوں کو، زمین کو اور ستاروں کو آبجیکٹ کے طور پر دیکھتا ہے۔ یہ تھیولوجی، فزکس اور بائیولوجی کا علاقہ ہے۔
دوسرا سوال زندگی کو اندر سے دیکھتا ہے۔ یعنی میں کیسے زندگی کے معنی اور مقصد پاوٗں؟۔ یہ تھیولوجی، فلاسفی اور سائیکلولوجی کا علاقہ ہے۔

دوسرا سوال ایمپیریکل ہے۔ آخر کیوں کچھ لوگ بڑی جوش بھری، کمٹ منٹ اور ولولے کے ساتھ اور بامعنی زندگی گزارتے ہیں جبکہ کچھ لوگ بے کار اور خالی زندگی گزار کر چلے جاتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب ایک کمپیوٹر ٹوٹ جاتا ہے تو یہ اپنے آپ کی مرمت نہیں کر سکتا۔ اس کو کھول کر کچھ کرنا پڑتا ہے۔ کمپیوٹر کا استعارہ ہماری سوچ پر اتنا گہرا نقش ہے کہ کچھ لوگ انسانوں کو کمپیوٹر کی طرح سمجھتے ہیں، جن کی مرمت کی جا سکتی ہے یا جن کو دوبارہ پروگرام کیا جا سکتا ہے لیکن انسان کمپیوٹر نہیں ہیں۔ یہ اپنی مرمت خود کرتے ہیں۔ ایک بہتر استعارہ پودے کا ہو گا۔ اگر پودا مکمل طور پر مر نہ گیا ہو نہ ہو تو یہ واپس ایک اچھی اور زبردست زندگی کی طرف لوٹ سکتا ہے اگر حالات موافق ہوں۔ اس کو ٹھیک نہیں کیا جا سکتا۔ مناسب حالات دئے جا سکتے ہیں۔۔ پانی، دھوپ اور مٹی ۔۔۔ اور پھر انتظار کیا جا سکتا ہے۔ باقی کام پودے کا ہے۔

یہ موافق حالات کیا ہیں؟ ان کا سب سے بڑا جزو محبت ہے۔ کوئی مرد، عورت یا بچہ تنہا جزیرہ نہیں ہے۔ ہم الٹرا سوشل ہیں۔ اپنے دوستوں اور ساتھیوں کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اس کا دوسرا جزو ٹھیک گول ہیں اور ایک فلو کی کیفیت ہے۔ وہ کام جس میں ڈوب کر دنیا کی خبر نہ رہے۔ یہ گول اور یہ فلو کسی بھی طریقے سے پیدا ہو سکتے ہیں لیکن جدید دنیا میں فلو کی کیفیت عام طور پر اپنے کام سے پیدا ہوتی ہے۔ کام کا مطلب ایک طالب علم اور ایک فُل ٹائم والدہ سمیت کوئی بھی ایسا کام ہے جو آپ کی زندگی کا بڑا حصہ ہو۔

انسانوں کے لئے محبت اور کام پودوں کے لئے دھوپ اور پانی کی طرح ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہارورڈ کے ماہرِ نفسیات رابرٹ وہائٹ نے سب سے پہلے 1959 میں یہ مشاہدہ کیا تھا کہ اس وقت کی رویوں کی تھیوری ایک بہت بڑا نکتے کی وضاحت نہیں کرتی تھیں۔ لوگ صرف کسی مقصد کے لئے کام نہیں کرتے بلکہ کام کرنا بھی ان کا مقصد ہوتا ہے اور یہ بچپن سے شروع ہو جاتا ہے۔ اپنے بازو سے گھنٹی بجا دینا یا پہیہ گھما دینا۔ بڑے بچے بھی پرابلم حل کرنے میں لطف محسوس کرتے ہیں۔ ایسی کھیلوں میں دلچسپی رکھتے ہیں جو ان کو چیلنج کریں۔ کام مجبوری نہیں، کام زندگی ہے۔

جب لوگ ریٹائر ہو جاتے ہیں یا بے روزگار ہو جاتے ہیں یا لاٹری جیت لیتے ہیں یا کوئی بھی اور واقعہ جس کی وجہ سے کام رک جائے اور کوئی متبادل مصروفیت نہ ملے تو ان پر بہت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ (فکرِ معاش یہاں پر مسئلہ نہیں)۔ وہائٹ اس کو ایک آرزو کا نام دیتے ہیں جو دنیا میں اپنا اثر اور اپنا حصہ ڈالنے کی ہے۔ ان کے نزدیک یہ پانی اور خوراک کی طرح ہماری بنیادی ضرورت ہے۔ اپنے سیٹ کئے گئے ٹارگٹ کی طرف بڑھنا ہمیں خوشی دیتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لوگ اپنے کام کو تین طرح سے دیکھتے ہیں۔ ایک جاب، ایک کیرئیر یا ایک مقصدِ زندگی۔ جب اس کو ایک جاب کی طرح دیکھا جاتا ہے تو اس کو پیسے کے لئے کیا جاتا ہے۔ گھڑی دیکھی جاتی ہے کہ جانے کا وقت ہو گیا یا نہیں، ویک اینڈ کا انتظار رہنتا ہے تا کہ کوئی اچھے مشاغل میں حصہ لیا جا سکے۔ اگر اس کو کیرئیر کی طرح دیکھا جائے تو پھر بڑے ٹارگٹ سیٹ کئے جا سکتے ہیں۔ ترقی اور عزت حاصل کرنے کی راہ دیکھنا۔ اس کے لئے کوشش کرنا۔ ان کے حصول کی لگن توانائی دیتی ہے۔ کئی بار کام کو گھر بھی لے جایا جاتا ہے۔ لیکن کئی بار پھر خیال بھی آتا ہے کہ کیوں؟ اگر اس کو مقصدِ زندگی کے طور پر دیکھا جائے جس میں اچھا کام کر دینا ہی مقصد ہو تو پھر ضمنی چیزوں کی اہمیت نہیں رہیتی۔ ایک دن میں ہی فلو کے مواقع آ سکتے ہیں۔ ہر وقت گھر جانے کا انتظار نہیں رہتا۔ اگر لاٹری بھی نکل آئے تو بھی یہ کام جاری رکھیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہو سکتا ہے کہ آپ کے ذہن میں آئے کہ کام کا مقصدِ زندگی تو صرف ڈاکٹر یا استاد وغیرہ جیسے پیشوں تک ہی محدود ہو گا لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ ہر پیشے پر ہو سکتا ہے۔ نیویارک یونیورسٹی کی سائیکولوجسٹ ایمی ورژینسکی نے ایک ہسپتال میں صفائی کے عملے پر اس کی سٹڈی کی۔ ان میں سے کچھ اپنے آپ کو شفایاب کرنے والی ٹیم کا حصہ سمجھتے تھے۔ صرف آرڈر کے انتظار میں نہیں ہوتے تھے۔ اپنی طرف سے بیمار کو آرام پہنچانا یا ڈاکٹر اور نرس کی ضرورت کا اندازہ لگا لینا، یہ ان کے لئے مقصدِ زندگی بن گیا تھا۔ یہ دوسروں سے زیادہ کام بھی کر لیتے تھے اور یہ ان کے لئے اطمینان کا ذریعہ بن گیا تھا۔

مثبت سائیکلوجی پر تحقیق بتاتی ہے کہ تقریباً ہر پیشے میں ہم فلو کے لمحات ڈھونڈ سکتے ہیں۔ اگر آپ کسی جگہ پر پھنس گئے ہیں تو ایک قدم پیچھے لیں اور دیکھیں کہ کیسے اپنے کام کو ری فریم کیا جا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے لئے کچھ اضافی کام بھی کرنا پڑے۔ نئے ذہن کے ساتھ اپنے آپ کو کسی بڑی تصویر کے ایک حصے کے طور پر دیکھنا آسان ہو جاتا ہے۔

زندگی میں خوشی اور اطمینان صرف اندر سے نہیں آتا، صرف باہر سے نہیں آتا۔ یہ ان کے بیچ سے نکلتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محبت اور کام کے ساتھ ایک اگلا بڑا تعلق اپنی ذات سے بڑی کسی چیز سے ہے۔ (اس کے لئے نیچے دی گئی پوسٹ)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

زندگی کا مطلب کیا ہے؟ اس کا کوئی ایک تشفی بخش جواب موجود نہیں ہے لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اطمینان اور خوشی کوئی ایسی شے نہیں جو کہیں سے مل جائے، کہیں سے حاصل کر لی جائے اور اس تک پہنچا جا سکے۔ اس کے لئے حالات ٹھیک کئے جا سکتے ہیں اور انتظار کیا جا سکتا ہے۔ کچھ چیزیں آپ کے اندر ہی ہیں جبکہ کچھ باہر۔ جس طرح پودوں کو سورج پانی اور اچھی مٹی کی ضرورت ہے، ویسے لوگوں کو محبت، کام اور اپنے سے بڑی چیز سے تعلق کی۔ اپنے اور دوسروں کی درمیان اچھے تعلق قائم کرنے کی کوشش، اپنے اور اپنے کام کے درمیان مثبت رشتہ بنانے کی سعی اور اپنے اور اپنی ذات سے بڑی چیز کے درمیان تعلق کی جستجو، یہ زندگی میں وہ چیزیں ہیں جو کرنے کے قابل ہیں۔ اگر ان کو ٹھیک کر لیں تو پھر انتظار کریں، ان مقصد اور معنی رفتہ رفتہ خود ہی ابھر آئے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply