• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • عمران خان کے اصل محسن کون ؟-ڈاکٹر چوہدری ابرار ماجد

عمران خان کے اصل محسن کون ؟-ڈاکٹر چوہدری ابرار ماجد

آج کل لوگ جسٹس اطہرمن اللہ کو عمران خان کو معصوم لکھنے پر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جو ٹھیک نہیں کیونکہ اگر واقعی مبینہ طور پر انکا عمران خان سے تعلق رہا ہے تو عمران خان میں کچھ تو ایسا دیکھا ہوگا جو وہ ہر ایک کی بات میں آجاتے ہیں اور اپنی معصومیت کی سادگی میں یہ پہچان نہیں سکتے کہ ان کے لئے کون مخلص ہے اور کون مفاد پرست۔ اس لئے میرے خیال میں ان کو سب سے زیادہ نقصان ان کے ساتھیوں نے دیا ہے جو ان کو ہر پل شاباش دیتے رہے جنہوں نے ان کی سوچوں کو تعریف کے خمار میں ڈبو کر ان کے نیک نامیوں سے بھرے ماضی کو کنگلا کر دیا جنہوں نے مفادات اور خواہشات کی خاطر خوشامدوں میں ان کو غلطیوں کا احساس نہیں ہونے دیا اور آج وہ جیل میں پہنچ چکے ہیں۔

وہ ان کے ساتھ قطعاً بھی مخلص نہیں تھے جو ان کو صادق و امین کے لقب سے نوازتے رہے اور بعد میں اسے مقدمے تک محدود کرنے کی وضاحتیں جاری کرتے رہے اور ان کے نام پر کروڑوں کی ٹکٹیں بیچ کر اپنی جیبیں بھرتے رہے۔ وہ ان کے لئے مخلص نہیں تھے جو انہیں بلا کر ان کے کندھے استعمال کرکے اپنے حسد اور دکھ پیٹتے رہے۔ کہتے ہیں کہ کسی کی پہچان کرنی ہوتو اس کے ماضی کو دیکھنا چاہیے کہ وہ ماضی میں اپنے دوستوں کے ساتھ مخلص رہا ہے یا نہیں۔ انہیں یہ سوچنا چاہیے تھا کہ جو اس کو اس عہدے تک پہنجانے والوں کے لئے مخلص نہیں نکلا وہ ان کو کیا فائدہ دے سکتا تھا۔ ویسے اگر عمران خان برا نہ منائیں تو دوست اپنی صحبت سے پہچانے جاتے ہیں اور یہ شکوہ ان کے پرانے دوستوں کو ان سے بھی رہا ہے۔

مخلص دوست تو وہ ہوتا ہے جو انسان کی غلطیوں کی نشاندہی کرے۔ میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کے سب سے مخلص دوست مخدوم جاوید ہاشمی تھے جنہوں نے خان کو سمجھانے کی کوشش کی اور جب وہ نہ مانا تو اپنی راہیں جدا کرلیں اپنے نظریات کو بھی بچا لیا اور جماعت کو بغیر چوں و چرا چھوڑ کر عمران خان سے دوستی کی بھی لاج رکھ لی اور اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ وہ آج بھی عمران خان کے لئے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں لیکن اچھے وقتوں میں عمران خان کی مقبولیت اور قبولیت سے فائدے اٹھانے والے بیچ چراہے چھوڑ کر آج نئی سیاسی جماعتیں بنا کر ان کے مد مقابل کھڑے ہیں۔ اور دوستوں سے بھی زیادہ انسان کی کامیابی اور ناکامی میں اس کی بیوی کا کردار ہوتا ہے جو اس کی کامیابی اور ناکامی میں اس کی ساتھی ہوتی ہے۔ مخلص بیوی تو کمزوریوں کو بھی حوصلوں میں بدل دیتی ہے۔ مگر دوستوں کی طرح شائد یہاں بھی وہ انتخاب کرتے ہوئے کہیں دھوکہ کھا گئے ہیں یا پھر یہ بھی مکافات عمل ہی ہے۔ بات تو بہت ہی سادہ سی ہے کہ جو اپنوں کے ساتھ بے وفائی کرتے ہوئے کسی کو وفاؤں کا یقین دلا رہے ہوں اور اس پر لوگ یقین کر رہے ہوں تو قصور دھوکہ کھانے والے کا بھی ہوتا ہے۔ وفادار تو جمائما خان ہے جو اب بھی اس کی اولاد کی کفالت کر رہی ہے اور اس کی ہر طرح سے حمائت بھی۔ خیر یہ ان کی ذاتی زندگی ہے۔

اپنی سیاسی زندگی کے بائیس سال محنت کے بعد وہ اپنے نظریات کو ہی کیا بھولے نصیب کو بھی داؤ پر لگا دیا جو انہیں ہیرو بنانے میں ایک منفرد مثال رکھتی ہے۔ ان کی مقبولیت کی بنیاد تو کرکٹ تھی جسے وہ خیر باد کہہ چکے تھے مگر نصیبوں نے انہیں پھر سے کرکٹ کا ایک جگمگاتا ستارہ بنا دیا اور وہ بھی صدر ضیاءالحق کی سپیشل بیٹی نے جو ان کی فین تھی اور اس نے صدر ضیاءالحق سے ضد کی وہ اس کی بات ٹالا نہیں کرتے تھے اور انہوں نے عمران خان کو دوبارہ کرکٹ کھیلنے پر مجبور کیا اور یوں ان کے ہیرو بننے کے سفر کا پھر سے آغاز ہوا جس میں کارکردگی سے زیادہ ان کے نصیبوں کا کمال ہے۔

ان کو اس پر غور ضرور کرنا چاہیے کہ آج بھی ان کے فین محبت ضرور کرتے ہونگے مگر سیاسی شعور میں وہ سپیشل چلڈرن ہی ہیں جن کے مشوروں نے انکو پارلیمان سے چوک چوراہوں تک اور اسمبلیوں کو چھین کر جیل میں پہنچا دیا۔ اس میں قصور کچھ آپ کا بھی ہے کہ آپ نے اپنی قسمت کو نظر انداز کرکے جادو ٹونوں پر بھروسہ کرنا شروع کر دیا اور اپنے محسنوں کو نظر انداز کرکے مفاد پرستوں کے پیچھے لگ گئے۔ آپ کے محسن تو وہ تھے جن کی محبت نے کرکٹ کی دنیا میں بلندیوں کی شہرت تک پہنچایا اور آپ نے اپنی اسی ٹیم کو نظر انداز کر کے خود نمائی کے دھوکے میں پڑ گئے، آپ نے شوکت خانم شروع کیا تو نواز شریف کا خاندان آپ کا مددگار بنا اور آج تک اس کا ذکر تک بھی نہیں کیا۔ آپ چندے کے لئے نکلے تو ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو ہدایات دی جاتی تھیں کہ آپکو پروٹوکول دیا جائے۔ قوم نے بھی ساتھ دیا تھا اور وہی قوم آپ کی گورننس کے ہاتھوں مشکلات کا شکار ہے مگر پھر بھی آپ سے محبت کو آنچ نہیں آنے دی۔

آپ نے 2014 میں دھرنوں کا پروگرام بنایا تو نواز شریف سمجھانے کے لئے بنی گالہ پہنچ گئے مگر آپ اپنے مخلص دوست کو پہچاننے میں پھر غلطی کھا گئے جو جمہوریت کے راہوں میں آپکا صحیح ہمسفر ثابت ہوسکتا تھا جس نے بے نظر کے ساتھ میثاق جمہوریت کرکے پاکستان کی جمہوری تاریخ کو پہلی بار اپنا وقت پورا کرتی ہوئی اسمبلیاں دیں مگر آپ نے مفاد پرستوں کے ہاتھوں اپنی بائیس سالہ جمہوری کوششوں کو داؤ پر لگا دیا۔ آپکو سوچنا چاہیے تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شائد آپ کا اس میں بھی قصور نہیں کیونکہ آپ نے بچپن سے ایسا سیکھا ہی نہیں تھا۔ آپ اپنے ماں باپ اور بہنوں کے لاڈلے تھے اس لئے ساری زندگی آپ کے نخرے ہی اٹھائے جاتے رہے جس سے آپ کو سوچنے کا کم اور ٹیڑھے میڑھے کام کرنے کا زیادہ موقع ملا تھا اور اس لاڈلے پن نے ہم جیسے مخلص مشورے دینے والوں کی طرف توجہ ہی نہیں ہونے دی جن کو پاکستان کا سیاسی اثاثہ ضائع ہونے کی فکر تھی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply