• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا کرونا کے اگلے سِرے پر سوشلسٹ انقلاب کھڑا ہے؟۔۔سیّد علی نقوی

کیا کرونا کے اگلے سِرے پر سوشلسٹ انقلاب کھڑا ہے؟۔۔سیّد علی نقوی

یہ آرٹیکل میں آج سے دو ہفتے قبل لکھنا چاہتا تھا لیکن کچھ احباب کی رائے تھی کہ ابھی کچھ وقت مزید دیکھنا چاہیے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے لہذا رُک گیا ،اب جبکہ کئی جانب سے کرونا کی دوائی بننے اور بند ہوئی دنیا کے کھلنے کی اطلاعات آنی شروع ہوئی ہیں تو سوچا کہ کیوں نہ اس کرونا کے معاملے کو ایک اور نظر سے دیکھا جائے۔۔
(آج کے آرٹیکل میں جو بھی اعدادوشمار درج کیے جائیں گے وہ آج کی تاریخ تک اپ ڈیٹڈ ہیں)

اس وقت دنیا کی آبادی تقریباً “7 ارب 80 کروڑ” ہے اور آج کی تاریخ تک کرونا کی کُل مریضوں کی تعداد “3،663،760” ہے جو دنیا کی کل آبادی کا “0.04” فیصد بنتا ہے۔

آج کے آرٹیکل میں ہم اس بات پر اپنی توجہ مرکوز کریں گے کہ دنیا کی پہلی دس اور آخری دس اکانومی والے ملکوں میں کرونا نے کیا کیا؟؟

آئیے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دنیا کے سب سے غریب ترین دس ملکوں میں کرونا سے اب تک کی صورتحال کیا رہی، مشہور انگریزی جریدے The Economist کے مطابق دنیا کے دس غریب ترین ممالک یہ ہیں
1 ۔کانگو : کانگو میں آج کی تاریخ تک کل مریضوں کی تعداد “236”ہے اور ابھی تک وہاں کرونا سے “10” اموات ہوئی ہیں
2۔ موزمبیق : موزمبیق میں مریضوں کی کل تعداد “80” ہے اور اب تک وہاں ایک بھی شخص کی موت کرونا کے باعث نہیں ہوئی.
3۔ یوگنڈا : یہاں اب تک “97” افراد کرونا کا شکار ہوئے اور ابھی تک کسی بھی ہلاکت کی اطلاع موصول نہیں ہوئی
4۔ تاجکستان : اب تک “227” مریض رپورٹ ہوئے اور تین افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔
5۔ یمن : “بارہ” مریض اور “دو” اموات
6۔ ہیٹی : “100” مریض اور اب تک “11” افراد کی موت کی ہوچکی ہے۔۔
7۔ ایتھوپیا : ایتھوپیا میں اب تک “145” افراد میں اور چار افراد  میں کرونا کی تصدیق ہوئی اور چار افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔۔
8۔ تنزانیہ : کل مریض “480” اور مرنے والوں کی تعداد “16” ہے۔
9۔ کرغزستان : کرغزستان میں “232” افراد میں کرونا وائرس پوزیٹو پایا گیا اور اب تک گیارہ لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
10۔ ازبکستان : یہاں اب تک “2189” لوگ کرونا سے متاثر ہوئے اور دس لوگ اس سے ہلاک ہوئے۔
ان دس ملکوں میں موجود مریضوں کی کل تعداد “3،798” ہے جو کہ دنیا میں موجود کرونا کے کل مریضوں کا “0.10” فیصد بنتا ہے اسی طرح دنیا کے ان دس غریب ترین ملکوں میں کرونا سے ہونے والی کل اموات کی بات کریں تو یہ تعداد “67” ہے جو کہ کرونا سے ہونے والی اموات کی کل تعداد کا “0.02” فیصد ہے۔

آئیں اب ایک نظر دنیا کے دس امیر ترین ممالک پر ڈالتے ہیں۔
1۔ امریکہ : ہمارے استادِ محترم جناب ڈاکٹر خواجہ علقمہ ایک بار ہمیں دنیا کی دس بڑی فوجی طاقتوں کے بارے میں پڑھا رہے تھے تو انہوں نے بتایا تھا کہ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی ملٹری  مائٹ ہے، وہ اتنا طاقتور ہے کہ اگر نیچے کے نو ملک مل بھی جائیں، تو بھی امریکی طاقت  ان سے زیادہ رہے گی، یہی نسبت تناسب کرونا کے معاملے میں بھی امریکہ کو حاصل ہے دنیا میں اس وقت امریکہ میں سب سے زیادہ کرونا پازیٹو مریض ہیں جن کی تعداد “1,212,955 “بارہ لاکھ بارہ ہزار نو سو پچپن” جوکہ دنیا میں موجود کل مریضوں کا “33.1” فیصد بنتا ہے اور اب  تک امریکہ میں کرونا کے باعث ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد “69,925” بھی دنیا میں سب سے زیادہ ہے جو کہ اب تک کی کل ہلاکتوں کا “27.6” فیصد ہے.. اور یاد رہے کہ امریکہ دنیا کی دولت کے “23.6” فیصد کا مالک ہے۔
2۔ چائنہ : کرونا وائرس پہلی بار نومبر 2019 کے مہینے میں چائنہ کے شہر ووہان میں پھوٹا اور اُس نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا اس وقت چائنہ بحال ہو رہا ہے، یہاں پر اب تک “82،881” لوگ کرونا سے متاثر اور “4633” افراد کرونا کے باعث ہلاک ہو چکے چائنہ دنیا کی پندرہ فیصد دولت کا مالک ہے اور دنیا کے “190” ملکوں کے ساتھ اسکے تجارتی تعلقات ہیں کہتے ہیں کہ اگر دنیا میں سو چیزیں استعمال ہوتی ہیں تو ان میں سے 57 چیزیں چائنہ بناتا ہے.۔
3۔ جاپان : دنیا کی تیسری بڑی اکانومی جاپان میں اس وقت “15،078” پازیٹو کرونا پیشنٹس ہیں جن میں سے “536” کی موت ہو چکی۔
4۔ جرمنی : یورپ کے اہم ترین ملک میں بھی کرونا نے خوب تباہی پھیلائی لیکن اب صورتحال بہتر ہو رہی ہے جرمنی میں کل “166،152” مریض کرونا سے متاثر ہوئے اور “6،993” افراد لقمہ اجل بنے۔
5۔ انڈیا : ہمارے ہمسائے ہندوستان کی اکانومی اس وقت متحرک ترین معیشت ہے یہاں کرونا نے زیادہ تباہی نہیں پھیلائی ڈیرھ ارب آبادی کے ملک میں “46،476” مریض اور “1،571” اموات سامنے آئی ہیں۔
6۔ انگلینڈ : “190،584” مریضوں اور “28،734” اموات کیساتھ انگلینڈ وہ یورپی ملک ہے جہاں اٹلی کے بعد سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے
7۔فرانس : فرانس کے دارالحکومت پیرس کو خوشبوؤں کا شہر اور فیشن کا مرکز سمجھا جاتا ہے فرانس میں اب تک “169،462” لوگ کرونا کا شکار ہوئے جن میں سے “25،201” افراد زندگی کی بازی ہار گئے۔
8۔ اٹلی : “211،938” پازیٹو مریضوں اور “29،079” اموات کے ساتھ اٹلی یورپ میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے اور دنیا کی آٹھویں بڑی اکانومی مانا جاتا ہے۔
9۔ برازیل : ساوتھ امریکہ کا ایک خوبصورت ترین ملک برازیل جو کہ نویں بڑی اکانومی ہے اس میں کرونا نے اب تک “108،620” کو متاثر اور “7367” لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔
10۔ کینیڈا : یہاں پازیٹو پیشنٹس کی تعداد “60،772” اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد “3,854” ہے۔

دنیا کے دس امیر ترین ملکوں میں کل مریضوں کی تعداد “2،264،918” ہے جو کہ کرونا کے پوری دنیا کے کل مریضوں کا “61.8” فیصد اور اسی طرح ان دس ملکوں میں کرونا کے باعث ہلاکتوں کی کل تعداد “177,893” ہے جو کہ کل ہلاکتوں کا “70.3” فیصد ہے
عام الفاظ میں اگر بات سمجھائی جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر پوری دنیا میں کرونا کے سو مریض ہیں تو ان میں سے 61 مریض صرف ان دس ملکوں میں اور باقی 39 مریض باقی کے دو سو ممالک میں ہیں اسی طرح اگر کرونا سے سو لوگ ہلاک ہوئے ہیں تو ان میں سے 70 ان دس ملکوں میں جبکہ 30 باقی دنیا میں مرے۔

یہ اعداد شمار آپ کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں کہ وہ ملک کہ جن کی دنیا تقلید کرتی ہے، جو دنیا کی سمت کا تعین کرتے ہیں، یہ ماڈرن دنیا جن کی مرہوں منت ہے، جو ہر روز ہمیں سائنس کے حیرت انگیز کرشمے دکھاتے ہیں، وہاں ایسا کیا ہوگیا کہ ایک وائرس نے اتنی تباہی مچائی اور وہ ملک کہ جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں بھوک، افلاس، قحط، جنگ کیا ایسی آفت نہیں ان ممالک پر نہ ٹوٹتی ہو جن کا ذکر آرٹیکل کے شروع میں کیا گیا لیکن وہ اس بیماری سے محفوظ رہے، اس بات کو سمجھنا اور سمجھانا میرے جیسے کم پڑھے لکھے آدمی کے لئے نا ممکن ہے یہ بات تو ایکسپرٹس ہی بتائیں اور سمجھائیں گے لیکن مجھ جیسے سیاسیات کے طالبعلم کے لیے یہ سب نہایت دلچسپ ہے کہ ان دس ملکوں کا ٹوٹل GDP دیکھیں تو وہ 692 بلین ڈالرز بنتا ہے جبکہ اکیلے نیویارک کا GDP اگر دیکھیں تو وہ 1.5 ٹریلین ڈالر ہے یعنی اکیلا نیویارک جو کہ امریکہ کا ایک شہر ہے اس دس ملکوں کی کل دولت سے دو گنا زیادہ دولت رکھتا ہے، امریکہ نے جو بجٹ کرونا سے لڑنے کو مختص کیا ہے وہ ان دس ملکوں کی مشترکہ اکانومی کے تین گنا سے بھی زیادہ ہے یعنی 2000 ارب ڈالر اس کرونا نے جو جو مسائل امیر ملکوں کے لیے کھڑے کیے ہیں اس کا عشر عشیر بھی غریب ملکوں کے حصے میں نہیں آیا اس وقت صورتحال یہ ہے کہ امریکہ میں تیل کی قیمت تاریخ میں پہلی بار نیگٹو ہو گئی ہے امریکہ کے پاس تیل کو سٹور کرنے کی جگہ ختم ہو چکی ہے اور اب وہ اپنے بحری بیڑوں میں تیل بھر بھر کر سمندر میں کھڑا کرنے ہر مجبور ہے جو ایک بڑے اکانومی کرائسس کے ساتھ ساتھ بہرحال سکیورٹی رسک ہے ان میں ابھی تک کا سب سے چھوٹا بحری بیڑہ وہ ہے جو سولہ لاکھ بیرل تیل لے کر سمندر میں کھڑے ہونے پر مجبور ہے باقی اس سے بڑے ہیں اگر صرف تیل سے پیدا ہونے والے کرائسس پر ہی نظر ڈالیں تو ماہرین کے مطابق اکتوبر کی قیمت پر واپس آتے آتے امریکہ کو دو سال لگ سکتے ہیں بشرطیکہ کرونا آج ختم ہو جائے اور زندگی اپنی پوری رفتار سے دوڑنے لگے جبکہ امریکی طبی ماہرین کے مطابق امریکہ کو واپس نارمل ہوتے ہوتے ابھی کم از کم ایک سال کا عرصہ درکار ہے بشرطیکہ دوسری کرونا لہر جو کہ ستمبر میں متوقع ہے نہ آئے یا اس سے پہلے موثر ویکسین تیار کر لی جائے اور امریکہ کا ہر شخص اپنی ویکسینیشن کرالے جو کہ مشکل نظر آ رہا ہے اس سال کے آخر تک ایک کروڑ امریکیوں کے بے روزگار اور چار ہزار کمپنیوں کے دیوالیہ ہو جانے کا اندیشہ ہے، اور اس کے اوپر یہ کہ صدارتی الیکشن ان کے سر پر منڈلا رہا ہے۔

تقریباً اسی قسم کے حالات سے انگلینڈ، اٹلی، جرمنی اور سپین دوچار ہیں تھوڑا بہت ان ممالک نے کھلنا شروع تو کیا ہے لیکن اس سال کے آخر تک ان کا پوری طرح سے کھلنا بہرحال ایک سوال ہے، فرانس میں اس وقت لاک ڈاؤن کھولنے یا نہ کھولنے ہر شدید بحث و تکرار ہے یورپ پوری طرح کب کھلے گا اس کا حتمی جواب شاید کسی کے پاس نہیں ہے

آئیں ذرا سعودی عرب کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں اس وقت کل مریضوں کی تعداد “30،251” ہے اور اب تک “200” افراد ہلاک ہو چکے ہیں کہا جا رہا ہے کہ مکہ جو کہ تمام مسلمانوں کے لیے سب سے محترم مقام مانا جاتا ہے کے ستر فیصد آبادی کے کرونا متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، سعودی شہروں میں صورتحال یہ ہے کہ باہر نکلنے پر دس ہزار ریال تک جرمانے کی شنید ہے اور سعودی عرب جو کہ دنیا کے امیر ترین ممالک میں شمار کیا جاتا ہے شدید مالی بحران اور نقصان کے دہانے پر بے یار و مددگار کھڑا دکھائی دے رہا ہے سعودی عرب کے دو بڑے آمدنی کے ذرائع ہیں ایک حج و عمرہ کے لیے آنے والے پوری دنیا کے مسلمان جو کہ اس وقت مکمل بند ہے اور دوسرا تیل سعودی تیل مارکیٹ کو بھی اسی قسم کے مسائل کا سامنا ہے جو کہ امریکی مارکیٹ کو ہے کہ سعودی تیل پر انحصار کرنے والی دنیا میں بھی تیل کی کھپت نہ ہونے برابر ہے ائیر لائنز بند ہیں، کاروں اور ٹرکوں کی اس وقت بیس فیصد تعداد سڑکوں پر ہے جبکہ باقی بند ہیں اس وقت سعودی تیل کی فی بیرل قیمت “13.30” ڈالر ہے جو 2019 میں “64” ڈالر فی بیرل اور 2018 میں “71” ڈالر فی بیرل تھی جہاں ایک طرف یہ گراوٹ بند دنیا کے سبب ہے وہیں دوسری طرف حالیہ جاری سعودی اور روسی رسا کشی نے اس کو مزید گھمبیر کر دیا ہے۔

الغرض ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کے جتنے بھی متمول ممالک ہیں ان کی اکثریت بحرانی اور غیر یقینی کیفیت کا شکار ہیں کیونکہ ایک طرف جہاں کرونا نے دنیا بند کر دی ہے وہیں دوسری طرف یہ اندازہ لگانا مشکل ہوگیا ہے کہ دنیا کب کھل پائے گی اور جب بھی کھلے گی تو اسکی کیا شکل ہوگی ماہرین یہی کہہ رہے ہیں کہ لاک ڈاؤنڈ دنیا جب بھی کھلے گی وہ ایک مختلف دنیا ہو گی.۔

ہم جیسے سوشلسٹ انقلاب کے حامی کیا یہ امید کر سکتے ہیں کہ جب دنیا کھلے تو بیشک غریب امیر نہ ہوا ہو لیکن کیا یہ امید کی جا سکتی ہے امیر امیر نہ رہے اور دنیا کے کھلنے کے بعد امیر امیر سے لڑ پڑے، شاید کرونا چھٹنے کے بعد امیر کی کل توجہ اپنی باقی ماندہ دولت کو بچانے اور کھوئی ہوئی دولت و طاقت کو دوبارہ حاصل کرنے پر مرکوز ہوجائے نہ کہ غریب ملکوں کی کھال اتارنے اور ٹھکائی کرنے پر، شاید اس بیماری کے بعد کہ جس نے بورس جانسن کو بھی نہیں چھوڑا امیر ممالک میزائل بنانے کے بجائے وینٹی لیٹر بنائیں، ہسپتال بنائیں، دوائیں بنائیں اگر ہم پاکستانی ہونے کی حیثیت سے دیکھیں جو کہ ایک غریب اور مقروض ملک ہے تو کرونا لگتا تو سوشلسٹ ہے، کیونکہ عمران خان جیسے بدترین حکمران کے ہوتے ہوئے بھی کرونا کے دنوں میں ریلیف تو مل رہا ہے گو کہ حکومت کو ساٹھ روپے فی لیٹر کی بچت ہو رہی ہے لیکن پھر بھی تیل سستا ہوا ہے، جس کی وجہ سے باقی ضروریاتِ زندگی کی چیزوں کی قیمتوں میں بھی کمی آئی ہے، ریاست کو ریلیف ملا امداد اور قرضوں کے قسطوں کی تاخیر کی صورت میں، جہاں ایک طرف نا اہل حکمرانوں کو انکی نا اہلی چھپانے کے لیے بھی اچھی چھت میسر آئی وہیں زمین نے بھی سانس لیا۔

کرونا نے جہاں یمن، شام، لیبیا، عراق، افغانستان، کشمیر، برما، ایتھوپیا، کانگو، لائبرئیا، ایوری کوسٹ، سینٹرل افریقن ریپبلک، سوڈان جیسے کئی ممالک کے لوگوں کو کچھ دیر مزید جینے کی مہلت لے کر دی وہیں دنیا کے مغرور ترین حکمرانوں کو یہ بھی بتایا کہ سب کچھ کسی کے ہاتھ میں نہیں ہے، دو ہفتے میں افغانستان کو ٹھکانے لگانے والے ٹرمپ کو اس وقت جس ناگہانی آفت کا سامنا ہے اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی، شاید یہ بحران محمد بن سلمان کی نظر یمن سے ہٹا کر کسی اور طرف لگا دے، شاید انڈیا میں لگنے والا شدید لاک ڈاؤن مودی کو کسی شام یہ سوچنے پر مجبور کرے کہ کشمیری عوام پر گذشہ سات مہینے سے کیا بیت رہی تھی، جب بھی کبھی یہ بات کی جاتی تھی کہ امریکی راج کب تک رہے گا تو پُر امید لوگ بھی تیس سے پینتیس سال کا کم از کم تخمینہ لگایا کرتے تھے لیکن یہ کیا ہوا کہ پانچ مہینے میں وہی امریکہ جہاں کھڑا تھا وہاں سے دہائیاں پیچھے چلا گیا، وہ مغرور ٹرمپ جو کل تک یہ کہہ رہا تھا کہ ہمارے پاس کُل گیارہ مریض ہیں اور وہ سب ٹھیک ہیں اور آج وہی امریکہ بارہ لاکھ مریضوں اور ستر ہزار اموات کے ساتھ بے بس کھڑا ہے کیا آج ایک عام امریکی کو ریاستِ امریکہ سے یہ سوال پوچھنے کا حق نہیں ہے کہ آپ نے دنیا پر تسلط کے دعویدار ہیں اور یہ ہے آپکی کارکردگی، یہ ہیں آپ دنیا کی واحد سپر پاور اس یونی پولر دنیا کا یہ حال ہے کہ وہ ایک وائرس کے آگے اتنی بے بس ہے کہ جتنا ایک معزور آدمی ہوتا ہے؟؟ کیا سیکنڈ اور کیا فرسٹ ورلڈ کیا آپکے ہیلتھ سٹینڈرڈز اور کیا آپکی سائنسی ترقی سب کچھ زمین پر آ پڑا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

کیا ہی اچھا ہو کہ کرونا جب جائے تو وہ دنیا میں موجود بیہودہ سرمائے کی تقسم کو کچھ نہ کچھ بیلنس کر جائے اس طاقت اور دولت کے واہیات توازن میں شاید کچھ بہتری آ جائے تو ہم کامریڈ کرونا کے نہایت شکر گزار ہوں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply