ہم کہاں جارہے ہیں۔۔۔ناصر خان ناصر

مودی صاحب مسلمان عرب ممالک سے اعلی اعزازات اور انعام و اکرام کے ساتھ ساتھ بھاری امداد وصول کرنے کے باوجود ان کے دشمن اسرائیل سے بھی اتنی عزت و احترام   پاتے ہیں۔ یہ بھارت کی کامیاب خارجہ پالیسیوں کا سب سے بڑا ثبوت ہے اور ہماری وزارت خارجہ کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ۔۔۔

ہمارے اپنے سابق چور اعظم نے سفارت کا قلمدان خود رکھ کر ہماری لٹیا ڈبو دی۔ نئی سرکار نے بھی وہی چور گماشتے بھرتی کر کے حکومت حاصل تو کر لی مگر ٹکے کی تبدیلی بھی نہیں آئی۔ وہی چال بے ڈھنگی ہے سو ہے۔
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے۔۔۔ اور ستر سال سے زائد عرصے سے بیٹھا ہے۔ وہ لڑھکتا ہے تو اسی کا بیٹا یا بھائی بند براجمان ہو جاتا ہے۔
غریب مشقت کی چکی میں دن رات پس پس کر آدھ موئے ہو چلے ہیں۔ درمیانہ طبقہ مٹ رہا ہے۔ امیروں کی عیاشیاں اور خزانے دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں۔ افق پر جنگ کے بادل لہرا رہے ہیں۔ کشمیری عوام پر مظالم کی انتہا توڑ دی گئی ہے۔ ہم سب بے بس خاموش بیٹھے ہیں۔ مسلمان دوستوں نے مکھ پھیر کر ہری جھنڈی دکھا دی ہے۔ صرف یہی ہوتا تو بھی کوئی غم نہ تھا۔ ہمارے دشمن، غاصب اور قاتل کو گھر بلا کر اعلی ترین اعزازات، تحائف اور انعامات سے نوازنا مرے پر سو درّے کے مصداق ہے۔
اب پاکستان کو اپنا قبلہ درست کر کے اسرائیل اور ایران سے بھی دوستی کر لینے کی سخت ضرورت ہے۔ ایران ہمارا بے حد اچھا دوست تھا جس سے ہم نے عربوں کے لیے بگاڑ پیدا کر لیا۔
ایران کو ہم نے خود بھارت کے قریب ہونے پر مجبور کیا۔ شاہ ایران سب سے پہلے پاکستان آنے والے غیر ملکی سربراہ تھے۔ ان کے دور میں پاکستان کی بے پناہ امداد کی گئی۔ خمینی دور سے ہی عربوں کی بنا پر ہم نے ایران سے سرد مہری اختیار کرنا شروع کی۔ سعودی عرب کی بھجوائی  کٹر پن کی تعلیم اور ہدایات کے مطابق اپنے اقلیتی شیعہ اور ہزارہ بھائیوں پر دائرہ حیات تنگ کرنا شروع کیا اور اب نتیجہ بھگت رہے ہیں۔
ہمیں ایک سے زیادہ حج اور عمرہ کرنے پر بھی پابندی لگا دینے کی ضرورت ہے۔ اس کی بجائے  زرمبادلہ کو قرضے اتارنے پر خرچ کیا جائے۔
ملک میں سب سے بڑی اور اہم ضرورت انصاف کی ہے۔ مکمل فوری دیرپا سستا اور سب شہریوں کے لیے برابر انصاف مہیا کر کے ہی ہم اپنے معاشرے کا بگاڑ درست کر سکتے ہیں۔
دوسری ترجیح سادگی اختیار کرنے اور وی آئی  پی کلچر کا مکمل خاتمہ کرنے سے ہو گی۔ وفاقی اور صوبائی  وزرا اور مشیروں کی فوج ظفر موج کم کی جائے۔ تمام سرکاری بڑے افسران کی ناجائز مراعات مکمل طور پر ختم کر دی جائیں۔ افسران کی تنخواہوں کو کم کیا جائے۔ ملک بھر میں افتتاح کرنے، تختیاں نصب کرنے، ربن کاٹنے اور اس قبیل کے کاموں میں پیسہ فالتو ضائع کرنے پر پابندی لگا دی جائے۔ افسران کو دیے گئے ڈاک بنگلے، کوٹھیاں حویلیاں اور قوم کے سرمائے سے دی گئی ناجائز مراعات ختم کر دی جائے۔ بڑے بنگلوں اور محل نما گھر بنانے پر پابندی لگائی  جائے۔ سرکاری اخراجات اور فوج کے بجٹ میں مناسب کمی کی جائے۔ ان تمام اخراجات کو کم کرنے سے ہی اتنی بچت ہو سکتی ہے کہ ہم اپنا قرضہ اتارنا شروع کر سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ملک میں ادبا، شعرا، پڑھے لکھے انٹلکچولز، مزدوروں، کسانوں، طلبا اور معاشرے کے ہر طبقے سے نمائندے چن کر تھنک ٹینک بنائے جائیں ،جو معاشرے کو سدھارنے اور ترقی پر لانے کے لیے اپنی موثر تجویزیں  پیش کریں۔ وزرات خارجہ کو نئے سرے سے تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ مذہبی جماعتوں کو لگام ڈالنے اور نفرت آمیز فرقہ وارانہ تعلیم دینے والے مدرسوں کو ریگولیٹ کرنے یا بند کرنے کی ضرورت ہے۔
ہر شہر گاؤں قصبے میں کاٹج انڈسٹری کو فروغ دیا جائے۔ طالب علموں سے والنٹیر ورک کروایا جائے۔ سیاحت کو زیادہ فروغ دینے اور ہمسائیوں سے تجارت کرنے سے ہمیں بے حد فائدہ ہو گا۔
حکومت اپنے حساس اداروں کو بھی پابند بنائے کہ اپنے ہی شہریوں کو اٹھانا اور غائب کرنا چھوڑ دیں۔ قانون شکنی اور ظلم کرنے والوں کو خواہ وہ کوئی  بھی ہو سخت سزائیں دی جائیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply