• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مسئلہ ء کشمیر کی گھمبیر صورتحال اور بہتری کے آثار۔۔۔نصیر اللہ خان

مسئلہ ء کشمیر کی گھمبیر صورتحال اور بہتری کے آثار۔۔۔نصیر اللہ خان

کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی خارجہ حکمت عملی اور دفاعی صورتحال حال کافی حد تک کامیابی کی طرف رواں دواں ہے۔تاہم اس مد میں پالیسی ترجیحات صرف پولیٹیکل ، لیگل اور ڈپلومیٹک سپورٹ کی حد تک ہے۔ اگرایک وجہ مملکت کی ڈپلومیٹک خارجہ پالیسی ہے تو دوسری طرف اپوزیشن بھی حکومت کے ساتھ اس مسئلے پر کچھ حد تک اکٹھے دکھائی دے رہی ہیں۔ حکومت کی اپوزیشن کے ساتھ رویے میں نرمی نہیں آئی ہے۔مریم نواز کو عین اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ آزاد کشمیر میں جلسے کی  تیاری کررہی تھی۔ کشمیر ایشو پرحکومت کی  کوششوں سے دوسرے ممالک کے سربراہان سے رابطے کیے گئے ۔ اس نازک مسئلے پراقوام متحدہ کی  قراردادوں کے بارے دوسرے ممالک کے سربراہان اور اقوام متحدہ کے ممبر ممالک کو آگاہ کیا گیا۔ وزیر اعظم نے دو مرتبہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ٹیلیفونک گفتگو کی اور صدر ٹرمپ نے کشمیر کو متنازعہ خطہ مانا ہے ۔ یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ دوسرے ممالک خصوصا ً امریکہ اور چین پاکستان کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں ۔ البتہ ڈپلومیٹک تعلقات کو بروئے کار لاکر کئی  غیر وابستہ ممالک کو اپنا ہمنوا بنایا جاسکتا ہے۔ا دھر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے پاکستان پر مانٹیرنگ کو مزید وسعت دی ہے۔لیکن شکر خدا کا کہ پاکستان بلیک لسٹنگ سے بچ گیا ۔

ملکی حالات کا تقاضا ہے کہ اتفاق و اتحاد کو فروغ دیا جائے ۔ سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے فی الحال کنارہ کشی میں بہتری ہوگی ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں بشمول حکومتی پارٹی بطور اسٹیک ہولڈر اپنے فرائض نبھاتے ہیں۔ دوسرے ممالک کے سامنےحکومتی بیانیہ اپوزیشن کے منفی کردار کو مزید خراب کرکے  پیش کیا جاتا ہے تواس  صورت ایک حکومت موقف میں کمزوری آئے گی تودوسری طرف معاشی فرنٹ پر انویسٹر اپنا پیسہ لگانے سےگریز کرینگے ۔جوکہ میرے خیال سے پاکستان کے  معاشی صورتحال کے لئے کچھ اچھی بات نہیں ہے۔اس وقت اپوزیشن کے اعلی پائےکے ارکان سیاسی اثر رسوخ کی  بنیاد پر گرفتار ہوکر جیلوں میں بند ہے ۔دلچسپ صورتحال مگر یہ ہے کہ اس وقت ا س سنگین صورتحال میں حکومت اور دوسری سیاسی اپوزیشن پارٹیاں باجود قید وبند کے ایک پیج پر ہے ۔اس مسئلے پر کبھی کبھار حکومت کو طعنے بھی سننے کو ملتے ہیں۔ بہر حال مجموعی طور پر قومی اور بین الاقوامی سطح پر   ایک ہی بیانیہ کو فروغ دیا جا رہا ہے ۔جو کہ ایک خوش آئند امر ہے۔

یاد رہے چین کی  مداخلت پر اقوام متحدہ کے  ممبر ممالک کی ان کیمرہ بریفنگ میٹنگ بلائی گئی ۔ مسئلے پر سیر حاصل بحث کی گئی اور ممبر ممالک نے اس امر کی نشاندہی کی کہ موجودہ صورتحال اس بات کی  متقاضی ہے کہ مذکورہ مسئلے پر ممبر ممالک کی  مزید میٹنگز ہونی  چاہئیں  ۔تاہم ممبر ممالک نے میٹنگ کے ختم ہونے پر کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا ۔جبکہ چین بشمول پاکستان کے مندوبین، خصوصی نمائندوں نے اپنا ذاتی بیان میڈیا کو ریکارڈ کرایا۔ کشمیر کے مسئلے کو عالمی فورم اقوام متحدہ میں پانچ عشروں کے بعد اٹھانے پر حکومت کی سفارتی سطح پر یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ تاہم عالمی طور پر ہمارے موقف کی تائید ابھی سننا باقی ہے۔ کسی خوش فہمی میں نہ رہا جائے کیونکہ وزیر اعظم نریندر مودی امریکا اور یورپ کے دورے پر ہے اور  وہ  پُر امید ہے کہ وہ  عالمی برادری کا موقف پاکستان کے بارے میں بدل دے گا۔اس مد میں ہمارے موقف کی  تائید کے لئے دوسرے  ملکو ں میں ہمارے ملکی سفیروں کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔پہلے سے تیار ہوکر حکومت کو ڈکٹیشن لینے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہنی چاہیے۔ تاہم اگر حکومت محسوس کرےتو اپوزیشن رہنماؤں سے بھی مشورے لئے جا سکتے ہیں۔اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بالا ئےطاق رکھ کر انڈیا کی ساری دنیا میں بدنامی ہوئی ہے۔میں سمجھتا ہوں اس وقت بال پاکستان کی کورٹ میں ہے۔ تاہم بال کو گول کےاندر داخل کرنے کیلئے   دانشمندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ خاکم بدہن کہیں ایسا نہ ہوکہ ہم جیتا ہوا میچ ہار جائیں ۔ انڈیا کی بدنیتی اس طرح محسوس ہو سکتی ہے ہے  کہ جس وقت ترمیم کی گئی اس وقت سے لے کر کر تاحال کشمیر میں تاریخ کا بدترین کرفیو نافذ ہے۔ اگر وہ اپنے عمل میں سچے ہیں  تو ہونا چاہیے تھا کہ آزادی اظہا ررائے، نقل و حرکت ،اور استصواب رائےوغیرہ پر کوئی پابندی نہیں لگاتے لیکن غیر اعلانیہ کرفیو کے نتیجے پر کشمیر میں اشیائے خوردونوش کی قلت پیدا ہوئی ، مریضوںکو دوائیاں اور علاج کرنے کی اجازت نہیں اور اس طرح میڈیا بلیک آؤٹ جاری و ساری ہے ۔ تاکہ کوئی خبر دیگردنیا کو نہ پہنچ سکے۔خلق خدا کی زمین لوگوں پر تنگ کر دی گئی ہے۔ دنیا کے  دوسرےممالک نے بھی خاموشی کا روزہ رکھا ہوا اوراس انسانی المیہ پر چپ سادھ لی ہے جوکہ انتہائی غیر مہذب ہونے اور غیر انسانی رویہ کی داستان سناتی ہے۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ پاکستان پر مقبوضہ کشمیر میں افغانستان سے جہادی لائے جانے کا بے بنیاد الزام لگایا جا رہا ہے ۔حالانکہ افغانستان میں انڈیا بطور اسٹیک ہولڈر بیٹھا ہوا ہے ۔کئی قونصل خانے بنائے اور ترقیاتی کاموں میں افغانستان کی مدد کر رہا ہے۔ تاحال پاکستانی تارکین وطن کے دوسرے ممالک میں ایمبیسیوں کے سامنے دھرنے اور مظاہرے جاری ہیں ،برطانیہ کے وزیر اعظم نے انڈیا کو مذکورہ دھرنوں کی  بابت متوجہ کیا ہے ۔

یاد رہے کشمیر کا مسئلہ ایٹامک فلیش پوائنٹ ہے جنگ کا خطرہ ہر وقت سر پرمنڈلا رہا ہے ۔ اس جنگ کے نتیجے پرنہ صرف دو ممالک میں تباہی آسکتی ہے بلکہ پوری دنیا کو خطرہ موجود ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ جنگ کسی بھی مسئلے کاپائیدار حل نہیں فراہم کرسکتی  ہے ۔ مذاکرات ہی اس کا بہترین حل ہے ۔ جو کہ انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کو بار بار وزیر اعظم عمران خان نے مذاکرات کی پیشکش کی ہے لیکن انڈین وزیر اعظم نےہر بار ہٹ دھرمی کرتے ہوئے پاکستانی پیشکش رد کردی  ہے ۔اب پاکستان بھی اس ڈگر پر چلنے کا ارادہ رکھتا ہے۔یہ معاملات آگے جاتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ تاہم عالمی طاقتوں کی  مداخلت سے اس مسئلے کا حل بہترین راستہ موجود ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان کی پالیسی جیسے اس کا تذکرہ کیا گیا واضح ہے اس لئے میرا خیال ہے کہ آئی سی جے میں کشمیر کے مسئلے پر مقدمہ دائر کرنا چاہیے ۔ڈپلومیٹک فرنٹ پر تمام ممالک میں سفارت کاروں کو مستعد کیا جانا چاہیے اور لوبنگ کے لئے قابل لوگوں کو غیر ملکی میڈیا کو بیانات اورمقدمہ پیش کرنے کےلئے ہائر کرنا چاہیے دوسرا و ائی سی کا فوری اجلاس بلانا چاہیے ۔میرا ذاتی خیال ہے کہ کشمیریوں  کو چاہیےوہ آزاد کشمیر ہو، مقبوضہ وادی ہو کہ  شہریوں کو پاکستان میں دوہری شہری حق دئیے جانے کے لئے قانون سازی کی جانی  چاہیے ۔ قانون سازی کرکے ان مذکورہ علاقوں کو خصوصی حیثیت سے پاکستانی آئین میں جگہ دینی  چاہیے ۔اس ایشو پر وزیر اعظم عمران  خان کی طرف سے سات افراد کی کمیٹی بنانابھی خوش آئند اقدام ہے ۔ اس سے کچھ ہوم ورک میں مدد ملے گی ۔ تاہم اس کے فنڈ و دیگرضروریات کے لئے مکمل تعاون کی ضرورت درکار ہوگی ۔پارلیمینٹ میں اس مسئلے پر بحثوں کو مزید بڑھاوا دینا چاہیے ۔

Facebook Comments

نصیر اللہ خان
وکالت کے شعبے سے منسلک ہوکرقانون کی پریکٹس کرتا ہوں۔ قانونی،سماجی اور معاشرتی مضامین پر اخباروں اور ویب سائٹس پر لکھنا پڑھنامیرا مشغلہ ہے ۔ شعوراورآگاہی کا پرچار اپنا عین فریضہ سمجھتا ہوں۔ پولیٹکل سائنس میں ایم اے کیا ہےاس لئے پولیٹکل موضوعات اورمروجہ سیاست پر تعمیری ،تنقیدی جائزے لکھ کرسیاست دانوں ، حکام اعلی اور قارئین کرام کیساتھ اپنا نقطۂ نظر،فہم اور فکر شریک کرتا ہو۔ قانون،تاریخ، سائنس اور جنرل نالج کی کتابوں سے دلی طور پر لگاؤ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply