• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کشمیر کے معاملے پرپاکستان کی حکمت علمی کیا ہوگی؟عمیر فاروق

کشمیر کے معاملے پرپاکستان کی حکمت علمی کیا ہوگی؟عمیر فاروق

کشمیر پہ مودی کے اقدامات کے بعد جو عالمی ردعمل سامنے آیا اور اس سے قبل امریکہ پاکستان اور خطے کے بارے میں جس طرح اپنی پالیسی بدلتا نظر آیا اس نے ہمارے ہاں حیرت کے علاوہ بہت سے سوالات کو بھی جنم دیا۔
عام طور پہ یہ خیال کیا جارہا ہے کہ شاید امریکہ افغانستان سے نکلنے کے لئے پاکستان کو کچھ رعایت دے رہا ہے۔ معذرت کے ساتھ اس تھیوری سے کبھی اتفاق نہ ہوسکا کیونکہ افغانستان سے امریکی فوج کا جانا پاکستان کے نقصان میں نہیں تھا جس پہ پاکستان کو راضی کرنے کے لئے امریکہ کو اپنی پالیسی میں اتنی بڑی تبدیلی لانا پڑتی۔
پھر کشمیر کے مسئلہ پہ یکایک بھارت کی گھبراہٹ اور بدلتا ہوا عالمی رویہ ، یہ سب سوالات پیدا کرتے ہیں افغانستان کا کشمیر سے  اس حد تک تعلق ہوسکتا ہے کہ امریکہ کے بعد کشمیری مزاحمت کو افغان طالبان سے بھی مدد مل سکے لیکن کیا یہ اتنا ہی بڑا خوف ہے کہ انڈیا ان غیرمعمولی اقدامات پہ مجبور ہوگیا حالانکہ ماضی میں بھی افغانستان پہ طالبان حکمران رہے اور یقیناً موجودہ طالبان کی نسبت زیادہ سخت پالیسیوں کے حامل تھے۔
افغانستان کی گیم کا اینڈ ہوچکا ہے فریقین ابھی بتانے کو اس لئے تیار نہیں کہ اگلی کھیل کی بساط بچھائی جارہی ہے۔ یقیناً عالمی اور خطے کی سیاست میں بڑی تبدیلی متوقع ہے اور کشمیر یا افغانستان اس تبدیلی کا محور نہیں بلکہ اسکے ذیلی نتائج کا حصہ ہیں اور یہی انڈیا کی غیرمعمولی پریشانی کی وجہ ہے۔
تمام اشارے یہ بتاتے ہیں کہ امریکہ کی پالیسی میں جوہری تبدیلی آنے والی ہے چاہے وہ طالبان سے معاہدہ صلح ہو یا پاکستان سے تعلقات کی تجدید یا کشمیر پہ مغرب اور مغربی میڈیا کا رویہ لیکن افغانستان یا کشمیر بذات خود اس تبدیلی کی وجہ نہیں ہے وجہ امریکہ کی عالمی سیاست ہے ہمیں یہ سمجھ جانا چاہیے کہ امریکی اپنی ری تھنک کررہے ہیں البتہ اس امر پہ اختلاف ممکن ہے کہ نتیجتاً وہ اپنی پالیسی کو ری بیلنس کرتے ہیں یا ری ڈیزائن!
وہ اندر سے یہ سمجھ چکے ہیں کہ اٹھارہ سال قبل انہوں نے جو پالیسی اپنائی تھی وہ ناکام ہوچکی وہ نہ تو چین کے اندر کوئی جنگ داخل کرسکے اور نہ چین کو کسی جنگ پہ اکسا سکے جہاں وہ افغان جنگ کے مسلسل خرچہ میں پھنسے رہے چین انکی توقع سے زیادہ تیز ترقی کرگیا۔ چینیوں کا یہ اندازہ درست نکلا کہ اگر وہ ۲۰۳۵ تک کسی جنگ کا حصہ نہیں بنتے تو عالمی طاقت ہونے کی دوڑ میں امریکہ کو بہت پیچھے چھوڑ جائیں گے۔ اب انکے پاس ضائع کرنے کو وقت نہیں رہا ۔
لگ یہ رہا ہے کہ وہ اپنی پرانی پالیسی ترک کرکے نئے  کھیل کا آغاز کرنے والے ہیں یا سادہ ریشنیلیٹی بتاتی ہے کہ انہیں آخر کار کرنا پڑے گی۔ چین کو روکنے کا واحد حل انکے پاس سنکیانگ کی صورت میں ہے جہاں پراکسی جنگ برپا کرکے وہ نہ صرف جنگ کو چین کے اندر لے جا کر چین کو اپنی توانائی وہاں صرف کرنے پہ مجبور کرسکتے ہیں بلکہ بیلٹ اینڈ روڈ کے منصوبہ کو بھی روک سکتے ہیں کیونکہ بیلٹ اینڈ روڈ کی ہر راہداری بشمول سی پیک سنکیانگ سے ہوکر گزرتی ہے۔ چین نے یہ خبریں کبھی باہر نہ آنے دیں اور ہمیشہ چھپائیں لیکن اس وقت بھی سنکیانگ میں چار سے چھ دھماکے ماہانہ کا اوسط ہے۔
لیکن اس سب میں کچھ عملی رکاوٹیں بھی ہیں جو اتفاق سے آج سے اٹھارہ سال قبل خود امریکہ کی ہی پیدا کردہ تھیں۔
نائن الیون کے بعد امریکہ نے بطور واحد سپرپاور جو عالمی ماحول ترتیب دیا اس میں آزادی کی تحریکوں اور دہشت گردی کے درمیان فرق کی مہین لائن ختم ہوچکی تھی یوں اس عالمی ماحول میں سنکیانگ کی تحریک کی حمایت پہ دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگے گا۔ دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ بیک وقت سنکیانگ کی تحریک کی حمایت کرکے کشمیر کی تحریک پہ آنکھیں بند رکھنا دہری پالیسی کہلائے گا۔ جن اصولوں یا مطالبات پہ عالمی رائے عامہ اور عالمی اداروں کو متحرک کرنے کی کوشش کی جائے گی ان اصولوں سے کشمیر کو کس طرح متثنیٰ کیا جاسکے گا؟
ایک عملی خطرہ یہ بھی موجود ہے کہ سنکیانگ کی سرحدیں کشمیر سے ملتی ہیں وہاں کے جہاد کو کشمیر منتقل ہونے سے کس طرح روکا جاسکے گا جبکہ کشمیری ان سے مدد ضرور مانگیں گے۔ اسی طرح اگر انکل سام سنکیانگ کی تحریک کی عملی حمایت کرتے ہیں تو پاکستان کو اخلاقی طور پہ کشمیر کی تحریک کی حمایت سے کس طرح روک سکتے ہیں؟ اسی طرح چین بھی سنکیانگ کا جواب کشمیر میں دینا پسند کرے گا جبکہ چین سلامتی کونسل کا مستقل ممبر ہونے کے ساتھ اب معاشی سپرپاور بھی ہے اور فوجی لحاظ سے بھی بہت طاقتور ، امریکہ واحد سپرپاور بھی تو نہیں رہا تو چین کی آواز کو دبانا ناممکن کے قریب۔
مشکلات یقیناً کافی ہیں لیکن چین کو روکنے اور اپنی برتری براقرار رکھنے کے لئے انکل سام کے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی تو نہیں نیز ایسے اسلامی جہاد کی حمایت وسطی ایشیا میں روس کا راستہ روکنے کے لئے بھی بہت ضروری ہے۔
دیکھا جائے تو مجموعی امریکی مفادات اسی پالیسی کا تقاضا کرتے ہیں واحد قربانی انڈیا کے کشمیر میں مفاد کی ہوگی لیکن اس پہ پاکستان سے کچھ معاملہ سازی کی جاسکتی ہے کہ وہ ایسے حل پہ راضی ہو جو انڈیا کے لئے زیادہ مشکل نہ ہو اس طرح پاکستان کو نیوٹرل کرکے اس کھیل سے باہر رکھنا امریکی مفاد میں ہے کشمیر کا مسئلہ یقیناً پاکستان کے لئے بہت بڑا مسئلہ ہے اور اگر یہ کسی قابل قبول حل کی طرف جاتا ہے تو بدلے میں پاکستان سے بھی کچھ تقاضا کیا جاسکتا ہے۔
یوں ایک نئے  کھیل کی بساط بچھانا نظریاتی طور پہ تو ممکن ہے ایسی بساط جس میں انکل سام کو سب سے زیادہ فائدہ ہو۔ دستیاب حالات میں امریکہ کے لئے یہ بہترین شطرنج کی  چال ہوگی لیکن معاملہ صرف جنوبی اور وسطی ایشیا تک محدود نہ رہے گا اس کے براہ راست اثرات مشرق وسطی پہ بھی مرتب ہوں گے۔
کیونکہ پھر اس نئے بدلے عالمی ماحول میں مسئلہ فلسطین کیا رخ اختیار کرے گا؟
اسرائیل اس سب کھیل کا خاموش ترین کھلاڑی ہے لیکن بہت اہم کھلاڑی ہے اور اس کا اثرورسوخ بے پناہ ہے۔ یہ درست ہے کہ اسرائیل فلسطین کے مسئلہ پہ عرب ممالک کو اپنا ہمنوا بنا چکا ہے صرف شام باقی تھا لیکن چند ماہ قبل ہونے والی امریکہ ، روس اور اسرائیل کانفرنس میں یقیناً وہ روس کے ساتھ اس معاملہ میں ریڈ لائنز طے کرچکے ہیں لگتا یہ ہے کہ بشار اپنی جگہ موجود رہے گا اور شام میں روس کا بحری فوجی اڈا بھی لیکن شام فلسطین کے معاملہ پہ خاموش رہے گا۔ البتہ ایران کا مسئلہ درمیان میں ہے۔ ایران یقیناً اس بدلی ہوئی فضا کا بھرپور فائدہ اٹھائے گا اور اسرائیل کو فلسطین کے معاملہ پہ زچ کرے گا لیکن ایران سے معاملہ سازی پہ اسرائیل اور عرب ممالک بھی تیار نہیں تو مشرق وسطی میں نئی پراکسی جنگ کا خطرہ بہرحال رہے گا جسے طاقت سے ہی نمٹا جائے گا۔
فی الحال یہ ایک ذہنی مشق ہی ہے لیکن قرائن یہ بتاتے ہیں کہ ایسا ہوتا لگ رہا ہے۔ کشمیر کے مسئلہ پہ ٹرمپ کا بیان بہت دلچسپ ہے جس میں وہ کہتا ہے
کہ ہندو اور مسلمان اکٹھے نہیں رہ سکتے
کیا بیانیہ کے بدلنے کے موسم کی خبر دے رہا ہے؟ یا جینو سائڈ واچ نامی عالمی تنظیم کا یکایک کشمیر پہ جینو سائڈ الرٹ جاری کرنا ؟ یا مغربی پریس کو یکایک کشمیر پہ ہمدردی لاحق ہونا وغیرہ ڈھیر علامات ہیں جو ہوا کا رخ بدلنے کی خبر دے رہی ہیں۔
اگر پالیسی یہ رخ اختیار کرتی ہے تو اسرائیل اور بھارت خود کو ایک کشتی کے سوار محسوس کریں گے اگرچہ اسرائیل بھارت کی نسبت بہت زیادہ ترقی یافتہ ہوشیار منظم اور تیار ہے یوں اسرائیل خودبخود لیڈنگ پوزیشن میں ہوگا اور عرب ممالک ظاہر ہے کہ اسرائیل کا ساتھ ہی دیں گے اس طرح عرب ممالک کا مسئلہ کشمیر سے ہاتھ کھینچنا سمجھ آتا ہے اور ایران کا کشمیر سے ہمدردی کرنا۔
یقیناً نئی علاقائی گروہ بندیاں جنم لیں گی پلیئرز اپنی اپنی پوزیشن بھی سمجھ چکے ہیں لیکن ابھی انہوں نے کارڈز سختی سے اپنے سینے سے لگا رکھے ہیں اور کوئی بھی اپنے کارڈز شو کرنے پہ تیار نہیں ماسوائے انڈیا کے کہ جس نے کشمیر پہ اپنے کارڈز شو کرانا شروع کردیے لیکن اسکی پوزیشن بھی یکایک بہت طاقتور سے کمزور ہوتی نظر آرہی ہے تو اسکی گھبراہٹ کی وجہ سمجھنا بھی دشوار نہیں۔
پاکستان کے لئے ضبط restraint کی پالیسی سب سے بہتر ہے اپنے کارڈز بچا کے رکھنے والا اور سب سے آخر میں شو کرنے والا کھلاڑی ہی بہترین کھلاڑی ہوتا ہے۔ پاکستان کی طرف سے انڈیا سے مذاکرات سے انکار عمدہ فیصلہ ہے جلدبازی میں پاکستان کا نقصان ہے کیونکہ فی الوقت پاکستان کی پوزیشن کمزور ہی ہے جو وقت کے ساتھ تیزی سے بہتر ہوتی جائے گی کمزور پوزیشن میں کوئی تصفیہ کرلینا عقلمندی نہیں ،مناسب ہے کہ دوسروں کو اپنے کارڈز گرانے کا موقع دیا جائے اور تب کوئی فیصلہ کیا جائے جب کھیل پوری طرح کھل چکا ہو۔

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply