فلم ریویو:ڈیمیج۔۔۔۔ذوالفقارعلی ذلفی

اردو کے استاد شاعر اسد اللہ خاں غالب فرماتے ہیں:

عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے

1992 کی برطانوی فلم “ڈیمیج” اسی شعر کی ایک طرح سے فلمی تشریح ہے ـ یہ برطانیہ کے ایک ادھیڑ عمر اعلیٰ سیاسی رہنما ڈاکٹر اسٹیفن فلمینگ اور فرانس کی ایک خوب صورت لڑکی آنا بارٹن کے درمیان عشق کی ایک چونکا دینے والی داستان ہے ـ سوال اٹھ سکتا ہے عشق جیسے عام انسانی جذبے میں بھلا چونکا دینے والی بات کیا ہو سکتی ہے؟ ـ سوال درست ہے ـ ممکنہ جواب یہ ہے کہ ایک پختہ عمر کے سرد و گرم چشیدہ تجربہ کار مرد اور ایک الھڑ خاتون کے درمیان جو ہے، وہ صرف عشق نہیں بلکہ ایک جنون ہے جو سب کچھ تباہ کرنے پر تُلا ہے ـ

ڈاکٹر اسٹیفن برطانوی اشرافیہ سے متعلق ہے ـ انگریزی روایات پر کاربند ایک اشراف خاندان کا سربراہ ـ ایک تقریب کے دوران اس کی ملاقات نوجوان آنا سے ہوتی ہے ـ دونوں کی نگاہیں ملتی ہیں، نگاہیں دل سے جگر تک اتر جاتی ہیں، دونوں جسم ایک دوسرے کو پانے کی چاہ میں سلگ اٹھتے ہیں ـ آنا اسے بتاتی ہے وہ اس کے بیٹے کی محبوبہ / منگیتر ہے ـ یہ اطلاع بظاہر رکاوٹ ہے، مگر جسم کی مجنونانہ پکار کے سامنے یہ رکاوٹ خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتی ہے ـ

ڈاکٹر اسٹیفن اپنی ہونے والی بہو کے ساتھ جنسی تعلق قائم کر لیتا ہے ـ برطانوی اشرافیہ کی روایات اور سماجی اخلاقیات اسے ستاتی ہیں، روکتی ہیں، ٹوکتی ہیں مگر وہ رک نہیں پاتا ـ وہ جنسی خواہشات کے جنون انگیز طوفان کے سامنے چاہ کر بھی اپنی مدد کرنے سے قاصر رہتا ہے ـ

آنا بارٹن نوعمری میں اپنی زندگی میں پیش آنے والے ایک واقعے کی وجہ سے نفسیاتی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ـ لڑکی بھی جانتی ہے جو ہو رہا ہے، اسے دنیا کا کوئی بھی سماج درست تسلیم نہیں کر سکتا مگر نوعمری کا دکھ جو اسے بے چین رکھتا ہے، وہ دکھ اور اسٹیفن کا جنون اسے اردگرد سے بیگانہ بنا دیتے ہیں ـ

سسر کا بہو سے جنسی تعلق رکھنا قابلِ نفرت عمل ہے مگر اسکرین پلے کا بہاؤ اتنا شدید ہے کہ فلم بین کہانی کی لہروں پر تیرتا ہوا سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کاش وہ کرداروں کی مدد کر سکے ـ انھیں جان بوجھ کر تباہی کے اندھے گڑھے میں گرنے سے بچا سکے ـ اسکرین پلے فلم بین کی نفسیات سے کھیلتا ہے، جیسے وہ اسٹیفن اور آنا سے آنکھ مچولی کھیلتا ہے ـ کوئی بھی کسی کی بھی مدد نہیں کر پاتا ـ ہدایت کار بے بسی بیچ رہا ہے ـ نہ چاہتے ہوئے بھی سب خرید رہے ہیں ـ

جنس کا یہ طوفان کچھ بھی ہو سکتا ہے، مگر یہ عشق ہرگز نہیں ہے ـ یہ بے بسی ہے، خودکشی ہے، جنون ہے، سماجی بیگانگی ہے یا شاید اعلیٰ طبقے کی اقدار و روایات کے خلاف خودکش احتجاج ـ فلم جہاں ختم ہوتی ہے، وہاں سے دکھ کا ایک اور سلسلہ شروع ہوتا ہے؛ ماں بیٹے کا دکھ ـ شاید ساس اور منگیتر کا ناقابلِ بیان دکھ یا غالباً وفا شعار بیوی کا ٹوٹتا بھرم اور فرماں بردار بیٹے کے شکستہ خواب ـ فلم بین درمیان میں معلق ہو جاتا ہے کہ کیا ہوگیا؛ جنس کا حسین کھیل یا دکھ کا کرب ناک منظر ـ

یہ فلم واقعی “ڈیمیج” کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ـ ایسا کہنا شاید زیادہ درست ہوگا کہ یہ “ڈیمیج” انسانوں کی ایسی کہانی ہے جو ایسے اختتام تک پہنچ کر جو اختتام نہیں ہے، انھیں مکمل طور پر “ڈیمیج” کر دیتی ہے ـ

Advertisements
julia rana solicitors

حرفِ آخر: دیکھ لیں مگر یہ سوال خود سے پوچھ کر دیکھیں کیا آپ شدید نفسیاتی عارضے دیکھنے کی طاقت رکھتے ہیں؟ ـ

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply