• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جموں کشمیر لبریشن سیل میں نئے سربراہ کی تعیناتی۔۔قمررحیم خان

جموں کشمیر لبریشن سیل میں نئے سربراہ کی تعیناتی۔۔قمررحیم خان

جموں کشمیر لبریشن سیل میں نئے سربراہ کی تعیناتی۔۔قمررحیم خان/چھوٹی سی الماری میں رکھی ’بے پڑھی‘ کتابوں کوشب و روز حسرت بھری نظروں سے دیکھتے وہ وقت یاد آتا ہے جب برفانی،چمکیلی دھوپ میں آستین سے ناک صاف کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوتا تھا۔ایک تہائی زندگی صرف کتابوں میں گزرنی چاہیے۔انہی خواب و خیال میں تین سال پہلے کی خریدی ہوئی”Pakistan Adrift“لے کر بیٹھا ہی تھاکہ حکومت ِ آزاد کشمیر کے ایک نئے نوٹیفکیشن کی گھنٹی بجی اور میں بھی Adriftہو گیا۔اس نوٹیفکیشن کی ڈیلیوری میں بہت تاخیر ہوئی۔ یقیناً  حکومت کو بہت تکلیف سے گزرنا پڑا ہوگا۔ ”دائیوں“ کا زمانہ گیا، اب گائنی کا دور ہے اور تمام شادی شدہ نوجوانوں کو پتہ ہے کہ گائناکالوجسٹ کس بلا کا نام ہے۔اور جہاں یہ بلا بھی نہ میسر ہو وہاں ویسی ہی چیر پھاڑ ہو تی ہے جیسی ہم نے بچپن میں زنگ آلودہ بلیڈ کے ساتھ ایک مینڈک کی کی تھی۔

فیس بک کے مطابق وزیر اعظم آزاد کشمیر نے تاج پوشی کے فوری بعداس مسئلہ سے نمٹنے کے لیے اپنے حلقہ انتخاب سے آغاز کیا۔ انہوں نے مذکورہ حلقہ کے پچیس نوجوانوں کو کشمیر لبریش سیل میں تعینات کیا۔جسے لمبی لِٹ والی سر کار نے ڈسٹ بِن میں ڈال دیا۔اس کے بعد لبریشن سیل کی سربراہی بارے ایک اور اعلان ہوا جس پر مبارک بادیں بھی جاری کی گئیں لیکن ہم خاموش رہے کہ ”کٹّی کٹّے“ کا صحیح پتہ چلنے کے بعد ہی مبارکباد دی جائے اور ساتھ ہی ”بوہلی“ کا انتظار نہیں بلکہ باقاعدہ مطالبہ بھی کیا جائے۔

سو آج ہم اسی مبارک بادی کو لے کر حاضر ہیں۔ ”بوہلی“ نصیب میں ہوئی تو مل جائے گی، نہ ملی تو نہ سہی۔ ہم اسد درانی کو واپس طاق میں رکھ کرلبریشن سیل کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ ایک عدد ویب سائٹ ملی،جسے دیکھنے کے بعد سر میں دردشروع ہوگیا۔لبریشن سیل کے اغراض مقاصد کے باب میں لکھاہے:
1:مسئلہ کشمیر کو قومی و بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنا۔
2:ریاست جموں کشمیر کی پاکستان کے ساتھ الحاق کے لیے عملی اقدامات کرنا۔
3:کشمیر کی تاریخ اور تحریک کی اشاعت۔
4: بھارتی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو اجاگر کرنا۔
5:بھارتی مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے ایک تھینک ٹینک کے طور کام کرنا اور اس ضمن میں پالیسیاں بنانا۔
6:اس کے علاوہ ان ذمہ داریوں کی ادائیگی جو حکومت آزاد کشمیر کی طرف سے تفویض کی جائیں۔

یہ اغراض و مقاصد ایسے بیک گراؤنڈ پرلکھے گئے ہیں کہ بالکل غیر واضح ہیں اور مشکل سے پڑھے جاتے ہیں۔ شاید اسی لیے سابقین کو اپنی ذمہ داریوں کا پتہ ہی نہیں چلا۔سوائے نمبر 6کے۔لائبریری میں تقریباً 45کتابوں کے فقط نام دیے گئے ہیں۔ان میں سے نصف ہی پڑھنے لائق ہیں۔مگر کسی کی بھی نقل موجود نہیں ہے۔تاریخ کے خانہ میں بھی خانہ پری کی گئی ہے۔ کشمیر ٹوڈے کے باب میں البتہ 2015سے اب تک کے ماہوار آرکائیوز ہیں جن میں کشمیر اور خطے کی سیاست پر لکھے گئے مضامین کو محفوظ کیا گیا ہے۔ لیکن یہ پی ڈی ایف لنک اتنے سلو ہیں ، کہ فاسٹ نیٹ ورک میں بھی بہت دیر سے کھلتے ہیں۔پبلی کیشنز میں شتر مرغ کا انڈا ہے۔ ویب سائٹ کو دیکھ کرپہلے تو مایوسی ہوئی پھر سوچا بچوں کے کھیل کود کی جگہ پر مایوسی کا کیا جواز۔ ورنہ ہمیں ویب سائٹ پر تبصرہ کے لیے کسی تبرّہ باز کی خدمات حاصل کر نا پڑتیں۔دل کرتا ہے یہ لنک’حسب حال‘ والے سہیل صاحب کے لیے بھیج دوں۔

جموں کشمیر لبریشن سیل دراصل پیٹ بھرو سیل ہے۔ کشمیر کے خون پہ ہونے والی تجارت اور عیاشی میں اس ادارے کا بھی قابل ذکر مارکیٹ شیئرہے۔حکومت اور ادارے کے سابق سربراہان نے اس ضمن میں ادارے کی ترقی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔پتہ نہیں کیوں مو جودہ وزیر اعظم نے خلاف روایت ایک ایسے آدمی کو ادارے کا سربراہ بنا دیا ہے جس کا نہ پیٹ ہے نہ وہ سابقون کے نقش قدم پر چلنے کا اہل ہے۔ یہ شخص نہ صرف ادارے کو ان کے کام کا نہیں چھوڑے گابلکہ خود کو بھی پریشان کر دے گا۔

ہمارے ایک چچا مرحوم کہا کرتے تھے ”ولی نہیں ہیں تو خالی بھی نہیں ہیں“۔ ہمیں بھی کچھ لوگوں کے دلوں کا حال جاننے پر قدرت حاصل ہے۔نئے ڈائرکٹر جنرل مسئلہ کشمیر بارے دنیا بھر کے سفارتکاروں سے رابطے کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ بین الاقوامی میڈیا میں بیٹھے کشمیری نوجوانوں سے مل کر کشمیرکے حالات پر دنیا کو زیادہ بہتر طریقے سے آگاہی فراہم کی جا سکتی ہے۔وہ چاہتے ہیں کہ ادارے کے غیر ضروری اخراجات کو کم کر کہ فنڈز کو صحیح جگہ پر صرف کیا جائے۔ مظفرآباد اور اسلام آباد کے علاوہ تمام دفاتر ختم کر دیے جائیں۔ادارے میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تاریخ ومسئلہ کشمیر سے آگاہی رکھنے والے نوجوانوں کی ٹیم بناکر کام کیا جائے۔وہ ادارے کی ویب پر ایک ڈیجیٹل لائبریری کے قیام کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ادارے کے زیر اہتمام پبلی کیشنز پر بھی کام کے خواہش مند ہیں۔بھارتی جموں کشمیر کے بڑے اخبارات کے لنک تو کل ہی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کر نے والے ہیں۔ اس کے علاوہ کشمیراور خطے کی سیاست پربین الاقوامی پریس میں لکھے جانے والے منتخب مضامین وغیرہ کو بھی ویب پر محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔ کشمیر کی سیاسی، ثقافتی، ادبی اور مذاہب کی تاریخ کا خلاصہ بھی مہیا کریں گے۔ دونوں اطراف کے لکھاریوں، صحافیوں، دانشوروں کو جوڑنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی کوشش ہو گی کہ ادارے میں بھارتی مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں کی بھی نمائندگی ہو۔

یہ خواہشات ایسی نہیں ہیں کہ انہیں عملی جامہ نہ پہنایا جا سکے۔ مگر اس جامے کو سلوانے کے لیے جیسے درزیوں کی ضرورت ہے وہ حکومتی ٹیم میں نظر نہیں آتے۔ جن لوگوں کی نظر اب تک پیٹ سے اوپر نہیں اٹھی انہیں فرشتے بھی پیٹ سے اوپر نہیں اٹھا سکتے۔ یہ سولائزڈ لوگ ہوتے ہیں جو جامے نہیں جانگیے پہنتے ہیں۔جبکہ نئے سربراہ بالکل سولائزڈ نہیں ہیں۔ڈی جی صاحب پر دوسرا اعتراض یہ ہو گا کہ ان کا پیٹ ہی نہیں ہے ……تو امید کاہے کی۔ سو ایسے مایوس کن حالات میں ڈی جی صاحب جامے کا خیال رکھیں گے یا جانگیے کا؟

Advertisements
julia rana solicitors london

ارشاد محمود صاحب چونکہ ایک فطری ڈپلومیٹ ہیں اس لیے وہ جانگیے کو اپنے ساتھ چلنے پر تیار یا مجبور کر لیں گے۔ لیکن اہلیت اور مشنری جذبے کے باب میں وہ بے دست و پا رہیں گے۔
اس کے باجود ہمارا گمان ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر بہت کچھ کر لیں گے کہ کرنے کی گنجائش بہت زیادہ ہے۔لیکن مجموعی طور پر ریاست کے مستقبل کے حوالے سے جو رول انہیں دیا گیا ہے، تاریخ اس پر سوال اٹھاتی رہے گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply