ہمارا سستا پن۔۔۔ امجد خلیل

کیپٹن(ر) صفدر نے جو کچھ جس سستے جذباتی انداز میں اور جس طر ح کے گراوٹ کا شکارالفاظ استعمال کرکے پر امن پاکستانی قادیانی کمیونٹی کے بارے میں قومی اسمبلی جیسے انتہائی اہم فورم پہ کہا وہ نفرت عوام کی رگوں میں بھرنے کی ایک سادہ سی مثال ہے- مذہب کے معاملے خصوصا نبیِ رحمت ؐ سے جڑی کسی بھی بات کو ہمارے ہاں ہمیشہ سستی جذباتیت کا رنگ دیا جاتا ہے- اور یہی اصل گستاخی ہے-ہم سستی جذباتیت سمجھتے کس کو ہیں ؟اس کی وضاحت اول ضروری ہے-

یہ سمجھنے اور جانچنے کے لیےکیپٹن(ر) صفدر اس سستی جذباتیت کا بہترین نمونہ ہے- نبیؐ کے اسوۃِ حسنہ پہ خود عمل نہ کرنا ، دوسروں کے ایمان کی جانچ پڑتال کرتے پھرنا ،نبیؐ سے محبت کے دعوے دہراتے رہنا، یہ سب سستی جذباتیت اور سستے مذہبی پن کے زمرے میں آتا ہے- پھر کسی بھی پاکستانی کمیونٹی کو غدار کہنا پرلے درجے کی جہالت ہے- غدار قرار دینے اور فتویٰ لگا دینے کا اختیار ہر کس و ناکس کے پاس ہونا ہی نہیں چاہیے – ہمیں کسی کو بھی غدار کہنے پہ یقین رکھنا ہی نہیں چاہیے-
2004 میں جب مغربی ممالک میں گستاخانہ خاکے چھاپے گئے اور ہم نے گورنمنٹ پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ سرگودھا سے احتجاجی ریلی نکالی تو یہ دیکھ کر حیرت کی انتہائی نہ رہی جو لوگ جتنے زیادہ بداخلاق ہیں وہ اتنے ہی زیادہ بڑھ چڑھ کر اور جوش و جذبے سے نعرہ بازی کررہے ہیں-یہ سستے جوش، سستی مذہبی جذباتیت کی ایک اور مثال ہے- یہ سستا پن ہمیں باقاعدہ آہستہ آہستہ قظرہ قطرہ سکھایا جاتا ہے- اکثر سننے اور کہنے میں آتا ہے کہ گناہ گار سے گناہ گار مسلمان بھی نبیؐ  کی ذات اور ناموس پہ کمپرومائز نہیں کرسکتا- یہ بیانیہ ہی دراصل سستی مذہبی جذباتیت اور منافقت کو پروان چڑھاتا ہے- نبیؐ کی سنت پہ عمل کرنے کی توفیق نہ ہونا ، قرآن کبھی کھول کر نہ دیکھنا اور گستاخ و کافر کہہ کر لوگوں کو واجب القتل قرار دیتے چلے جانا-
یہی سستا پن جب ہمارے رگ و ریشے میں لاوہ بن کردوڑنے لگتا ہے تو بادامی باغ کی ہنستی بستی آبادیوں کو جلا کر راکھ کردیتا ہے- جواں سال مزدور جوڑے کو دہکتے اینٹوں کے بھٹے میں پھینک دیتا ہے- گورنر کو گولیوں سے چھلنی کردیتا ہے- اپنے ہی کلاس فیلو کی برہنہ سوختہ لاش پہ ٹھڈے برساتا ہے- کہنہ سال مخالف مسلک کے تبلیغی کو کلہاڑی کے وار سے زندگی کی سرحد سے پار کردیتا ہے-
انتہائی قریبی عزیز، ایک معروف دینی مدرسہ سے فارغ التحصیل، سے جب گورنر صاحب کے قتل اور ممتاز قادری کی پھانسی کے حوالے سے بات ہوتی ہے تو جواب انتہائی الجھا ہوا ہوتا ہے- کھوجنا مشکل ہوجاتا ہے کہ قتل کی حمایت ہورہی یا پھانسی کی-

فرماتے ہیں: علماء نے تو قادری کو کسی کے قتل پہ نہیں اکسایا، یہ اس کا ذاتی فعل ہے- استفسار پہ کہ گورنر کا قتل جائز تھا یا ناجائز ،جواب ملتا ہے کہ: وہ جانورسے بدتر تھا اس کے مرنے پہ اتنا شور ڈالنے کی ضرورت ہی کیا ہے-یہ ہے وہ نفرت کا زہر جو ہمارے رگ و ریشے میں اتارا جاتا ہے- کتنے ہیں دین کے عالم جو ببانگِ دہل گورنر صاحب کے قتل کو ناحق قرار دےسکیں؟- میرا ایک سے بھی سابقہ نہیں پڑا- یہی لوگ ہیں ،بے شمار ہیں اور ہمارے اطراف و اکناف میں بستے ہیں جو دین کے نام پہ قتل و غارت گری اور نفرت کو فروغ دے رہے ہیں-

ہماری اکثریت کو جنت چاہیے، اس جنت کے حصول کے لیے ہم مذہب کے قریب ہونا چاہتے ہیں- ہمارے مذہب میں جو اہم اعمال شامل ہیں وہ کسی خاص زمان و مکان کے پابند نہیں-جنہیں ہر حال میں اور ہروقت سرانجام دینا ہی پڑتا ہے- جیسے سچ بولنا، جس کام کے پیسے لیتے ہیں اس کام کی انجام دہی کو فوقیت دینا، گالی نہ دینا اور عورتوں کی عزت کرنا وغیرہ وغیرہ- یہ سارے کام قدرے مشکل ہیں اور جنت کا حصول کٹھن بنادیتے ہیں- اس مشکل کو اپنے تئیں سہل ہم نے سستی مذہبی جذباتیت سے بنایا، کھوکھلے نعروں کو وطیرہ بنایا، خاص حلیے اور لباس کو عین اور مکمل دین جان لیا جبکہ دین ہمارے کردار و عمل کانام ہے- کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ ہماراقرآن کھول کر دیکھے کہ کتنی اچھی باتیں وارد ہوئی ہیں-

Advertisements
julia rana solicitors

ہماراکردار و عمل دنیاکے سامنے ہوتا ہے، انہیں ہمیں جھیلنا پڑتا ہے-ہم اپنے اچھے کردار سے ہی دنیا کو باور کراسکتے ہیں کہ ہم کتنے اچھے دین کے پیروکار ہیں-ہمارے بادشاہوں کا سونے کی سیڑھیوں سے جہاز سے اترنا، ملازمین کی فوج لیکر چلنا یہ سب ہمارے چہرے کے بدنما داغ ہیں-دنیا بھر میں یہی داغ ہمارا آئیڈنٹیٹی فیکیشن مارک سمجھے جاتے ہیں- یہ دیوانے کا خواب ہے کہ دنیا کوکہا جائے کہ اگر وہ ہمارے دین کو جاننا چاہتی ہے تو ہماری کتابوں کا ہی مطالعہ کرے، کیوں کرے!!!!

 

Facebook Comments

امجد خلیل عابد
ایک نالائق آدمی اپنا تعارف کیا لکھ سکتا ہے-

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply