چھوٹے شیطان ہم سے یہ فریاد کرتے ہیں۔

ہر طرف نگر نگر کوچہ کوچہ یہ شور مچا ہوا ہے کہ رمضان المبارک کا مہینہ آ گیا ہے۔ اللہ پاک کی رحمتیں اور برکتیں شروع ہو گئی ہیں ۔ یہ سارا فضل تو آپ کے لیے ہو گا ہمیں تو قید میں جکڑ دیا گیا ہے۔ ہم کتنے بے بس اور مجبور ہو گئے ہیں، اپنی مرضی سے کچھ کر بھی نہیں سکتے۔ لوگ اپنی من مانیاں کرتے پھر رہے ہیں۔ کل تک جو منچلے ہمارے اشاروں پہ ناچ رہے تھے آج درس و تدریس کی محفلوں میں متقی اور مبلغ بنے بیٹھے ہیں۔
اے حضرت انساں! کچھ ہوش کے ناخن لو۔ ہم نے سال کے گیارہ مہینے اکٹھے گزارے ہیں۔ تم نے ہمیں پیار محبت سے پالا۔ ہماری تمہاری رفاقت کو دنیا جانتی ہے۔ تم آیتہ الکرسی ، کلمہ پڑھے بغیر بستر پر لیٹے تو ہم تمہارے فرسودہ خیالوں میں گھس گئے۔ باتھ روم میں دعا پڑھے بغیر گئے تو ہم تمہارے ساتھ ہی رہے۔ موسیقی کے سر تال شروع کیے تو ہم نے تم پر وجد کی کیفیت طاری کر دی۔ بسم اللہ پڑھے بغیر کھانا شروع کیا تو ہم بھی ساتھ ہی بیٹھ گئے اور کھانے کی ساری برکت اڑ گئی۔ ہم تمہارے نتھنوں کے ذریعے اور کھلے منہ سے جمائیاں لیتے ہوئے تمہارے اندر داخل ہو گئے۔ تمہارے نفس نے ہمیں پکارا تو ہم فوراً حاضر ہو گئے ۔۔۔۔۔پھر کیا تھا ہماری حکمرانی تھی ۔ تمہارے ضمیر نے بیدار ہونے کی کوشش کی تو ہم نے اس کا گلا گھونٹ دیا ۔شرافت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ،للکارو اپنی اس غیرت کو جو گیارہ مہینے سوئی رہی۔ ہم نے ہر چیز کو حسین اور دلفریب کر کے دکھایا اور تم شراب و کباب کی محفلوں میں مست رہے۔ اے دوستی کا بھرم بھرنے والے ،آج تم نے ہمیں بے بس اور اکیلا چھوڑ دیا ہے۔ یاد کرو اس وقت کو جب تم پھوٹی کوڑی کے بھی مالک نہیں تھے۔ ہم نے تمہیں سنہری خواب دکھائے اور ایسے ایسے دھندوں میں ملوث کیا کہ دولت کے انبار لگ گئے۔ ہم نے تمہیں سکھایا کہ کس طرح اصل مال دکھا کر خام مال کی سپلائی کرتے ہیں اور کس طرح گاہک سے نظر بچا کر گندا فروٹ اور پرانی سبزی شاپر میں بھر دیتے ہیں۔ ہم نے تمہیں بتایا کہ کہ کس طرح لوگوں کو حرام اور مردار کھلاتے ہیں۔
یاد کرو جب تم رشوت کا مال سمیٹ رہے تھے جب تم سود کی رقم سے پلاٹ خرید رہے تھے تو تمہارا دل یکبارگی دھڑکا مگر ہم نے تمہیں حوصلہ دیا کہ جینا ہے تو شان سے جیو۔ اور یاد کرو جب تم نے غریب کی کٹیا جلا دی اور امیر کا گھر لوٹ لیا تو ہم نے تمہاری ہمت بندھائی۔ جب تم نے ماں کا دل جلایا اور بھائی سے دست و گریباں ہو گئے تو اس وقت ہم تمہیں تھپکیاں دے رہے تھے۔ جب تم نے بہن کا حق مارا اور بھائی کے ساتھ فراڈ کیا تو تمہیں شاباش دینے والے بھی ہم ہی تھے۔ پھر ایک دن تمہاری آنکھوں میں خون اتر آیا تو ہم نے میدان میں چھلانگ لگا دی اور تمہاری ہمت بندھا کر خون کی ندیاں بہا دیں۔ تم ملک میں دہشت پھیلانا چاہتے تھے ہم نے بھرپور تعاون کیا اور تم دہشت گرد بن گئے۔
تم نے لوگوں کے بچوں کو اغوا کیا بلکہ کچھ معصوم شیر خوار بچوں کے پیٹوں میں ہیروئن بھر بھر کر سمگل کرتے رہے اس مشکل وقت میں ہم سائے کی طرح تمہارے ساتھ رہے۔ اب ہمارے اور تمہارے اعمال میں کچھ فرق باقی نہیں رہا۔ ہم نے علماء سے تمہیں متنفر کیا تاکہ تم دین سے دور رہو۔ اس میں کوئی شک نہیں تم آج جو کچھ ہو یہ سب ہماری محنت کا نتیجہ ہے۔مگر تم نے ہم سے بےوفائی کی ۔ ہم قید کیا ہوئے تمہاری رسی دراز ہو گئی۔ تم اللہ کی رحمتیں اور برکتیں حاصل کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ جبکہ ہم نے تمہیں اللہ کے فضل سے دور رکھنے کی پوری کوشش کی۔
رات کو تم گھر سے نکلتے ہو تو ہم خوش ہو جاتے ہیں کہ شاید تم کسی کالے دھندے کے لیے جا رہے ہو مگر تم ٹوپیاں پہن کر مسجد میں داخل ہو جاتے ہو۔ پھر بھی یہ گمان ہوتا ہے کہ شاید اپنی اصلیت کو یاد کر کے تم مسجد سے باہر نکل آؤ گے مگر اشکبار آنکھوں سے جب تم توبہ تائب کرتے نظر آتے ہو تو ہمارے سینوں پر سانپ لوٹ جاتے ہیں۔ جب تم قرآن کو خشوع و خضوع سے پڑھنے لگتے ہو تو ہم غم و غصہ سے بے قابو ہو جاتے ہیں۔ یہ کیا ہو رہا ہے ، ہر طرف درود و قرآن کی محفلیں دیکھ کر ہمیں اپنی ساری محنت رائیگاں جاتی نظر آتی ہے۔ ان ساری باتوں سے تم یہ مت سمجھ لینا کہ اب ہم اکیلے ہیں۔ ابھی بھی ہمارے بہت سے ساتھی ہیں جو پرانی دوستی کا بھرم رکھے ہوئے ہیں ۔ جن کے لچھنوں میں رتی برابر فرق نہیں آیا۔ نجانے تم نے کیوں نظریں پھیر لی ہیں۔ تم چاہو تو عبادت کی آڑ میں بہت کچھ کر سکتے ہو۔ رمضان آیا ہے لوگوں کی افطاریاں کراؤ۔ غریبوں پر دولت مٹ لٹانا وہ تمہیں کچھ فیض نہیں دے سکتے انھیں ضرور اگر کچھ دینا ہے تو چوک میں دو سیٹیں رکھ کر تقسیم کر دو۔ افطاریاں ان لوگوں کی کراؤ جن سے تم کچھ مفاد حاصل کر سکتے ہو۔ ان کے لیے دسترخوان بھر دو اور خوب ٹھونس ٹھونس کر کھلاؤ۔ نئے نئے کپڑے بنواؤ اور اکڑ اکڑ کر افطاریوں پہ جایا کرو۔
عید کے جوڑے تیار کراؤ ، نئی گاڑیاں خریدو کیونکہ سیر و تفریح بھی کرنی ہے اور لوگوں سے ملنا بھی ہے اور عید ملن پارٹیاں بھی منعقد کرنی ہیں۔ ابھی سے سوچ لو کس کس سے ملنا ہے اور کس کس سے بائیکاٹ کرنا ہے۔آپ ہمیں چھوٹا سمجھتے ہیں۔ ارے ہم ابلیس کی اولاد ہیں۔ چیلے ہیں اس کے ، ہمارے ہتھکنڈے بہت بڑے ہیں۔ ابھی رمضان ختم ہونے دو، تمہاری بہو بیٹیوں کو پوسٹروں پہ نہ چڑھا دیا تو کہنا۔ چاند رات کو ہی تمہاری غیرت کا امتحان ہو جائے گا جب تمہارے گھر کی خواتین بغیر دوپٹوں بے پردہ گھروں سے نکل آئیں گی۔ ساری نیک پروینیں غیر مردوں کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر چوڑیاں پہن رہی ہوں گی۔ مرد و زن کے ہجوم میں کندھے سے کندھا چھل رہا ہو گا اور تم بڑی خوشی سے یہ مناظر دیکھ رہے ہو گے۔ہم تو دھتکارے ہوئے ہیں جہنم ہمارا ٹھکانہ ہے۔ خوف اس بات کا ہے کہ اگر تمہارے ایمان جاگ گئے اور تم نے سچے دل سے توبہ کر لی تو وہ تمہیں معاف کر دے گا اور ہم تمہیں جہنم میں اپنے ساتھ نہ لے جا پائیں گے۔

Facebook Comments

نسرین چیمہ
سوچیں بہت ہیں مگر قلم سے آشتی اتنی بھی نہیں، میں کیا ہوں کیا پہچان ہے میری، آگہی اتنی بھی نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply