’’غالب کی تمنا کا زخم‘‘ (غالب کی سالگرہ کی مناسبت سے)-ناصر عباس نیّر

جس طرح آزادگی کی خواہش جس قدر ہوگی ، پابستگی کا امکان بھی اسی قدر ہوگا۔ یا خوشی کی آرز وکرنا ہی،غم کو دعوت دینا ہے۔

شادی سے گزر کہ غم نہ ہووے
اردی جو نہ ہو تو دے بھی نہیں ہے
اسی طرح تمنا جس قدر بڑی ہوگی، تشنگی اور آزار بھی اتناہی بڑا ہوگا۔ غالب کے یہاں سوزِ نہاں ، تپش دل ،لذت ِ آزار، حسرت بھی اسی قدر ہے۔

غالب اس سے بے خبر نہیں تھے کہ آدمی کی تمنائیں ،خواہ کتنی ہی عظیم ہوں،ان کی مسرت و آزادی عارضی ہوتی اور ان سے پیدا ہونے والا دل میں خلا بسیط ہوتا ہے
یا صبح دم جو دیکھیے آکرتو بزم میں
نے وہ سرور وسوزنہ جوش وخروش ہے

مسرت کے شدید تجربے کے بعد یاسیت کا حملہ بھی اتنا ہی شدید ہوتا ہے ۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ انسانی زندگی میں کسی شے کو قرار وثبات نہیں ۔ آدمی کو موت جیسی دہشت ناک حقیقت کا ہر لمحے سامنا ہے۔ آدمی ہی کی نہیں ، آدمی سے وابستہ ہر شے کی موت یقینی ہے۔یہی وجہ ہے کہ زندگی میں مرگ کا کھٹکا ہر وقت لگا رہتاہے
تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر ہی مرا رنگ زرد تھا
دوسرا سبب یہ ہے کہ بلند ترین تمنا کے ذریعے آدمی اپنی مادی حدوں سے باہر جانے کا وقتی تجربہ کرتا ہے ؛ وہ آسمانوں کو اپنے قدموں کی دھول سمجھتا ہے۔ بعض صوفی شعرا اس تجربے کو دائمی تصور کرتے ہیں اور انسانی امکانات کے لامحدود ہونے کی کہانی دہراتے رہتے ہیں،لیکن غالب کہتے ہیں کہ آدمی اپنی حد سے باہر نہیں جاسکتا۔

یہ سچ ہے کہ آدمی اپنے مادی وجود کی حدوں سے ورا جانے کی تمنارکھتا ہے اور اس تمنا کے ذریعے وہ اپنے مخفی امکانات کی شناخت بھی کرتا ہے ، مگر یہ عارضی تجربہ ہے ۔ تاریخ کا دھارا تبدیل کرنے والے عظیم ترین اشخاص کو بھی معمولی جذبات کا سامنا ہوتا ہے،ان کا جسم کاضعف وزوال کا شکار ہوتا ہے۔

خود غالب اپنے آخری دنوں میں کس قابل رحم حالت کا شکار ہوئے ،اس کا حالی نے” یاد گار غالب” میں لکھا ہے ۔ بلندی و پستی کی یہ دو انتہائیں ہیں،ان کی آگہی ہی سے غم پیدا ہوتا ہے۔ یہ انسانی غم ہے ، انسانی صورتِ حال اور انسانی تقدیر کا پیدا کردہ غم ہے۔ مذہب ومابعد الطبیعیات کے عظیم الشان نظریات ،اس غم سے انسان کی توجہ ہٹا کر ،اخروی ابدی مسرتوں کی نوید دیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن غالب المعری کی مانند انسانی غم کو کبھی شکایت اور کبھی بغیر شکایت کے قبول کرتے ہیں۔غالب کے یہاں سو ز غم ہاے نہانی کا مفہوم یہی ہے ۔
آتش ِ دوزخ میں یہ گرمی کہاں
سوزِ غم ہا ے نہانی اور ہے
غالب کی نیم رخی جمالیات آتش ِ دوزخ کو سوزِ نہاں سے ملا کر آئرنی پیدا کرتی ہے۔ آتش ِ دوزخ کی گرمی ،سنی ہوئی بات ہے لیکن سوزِ نہاں آدمی کا حقیقی تجربہ ہے ۔پھر جو آدمی اپنے غم کو سہہ گیا ہے،اسے دوزخ کی گرمی سہنے میں دقت نہیں ہوگی۔نیز غالب یہ بھی کہتے محسوس ہوتے ہیں کہ آدمی کو سوزِ نہاں دینے کے بعد دوزخ اضافی ہے۔ غالب اسی سوزش ِ دل کوسب سے بڑا سچ کہتے ہیں
لکھتاہوں اسدسوزش ِ دل سے سخن گرم اسد
تارکھ نہ سکے کوئی مرے حرف پر انگشت
غالب پورے انسانی وقار کے ساتھ تمنا کے زخم کو اس کی پوری شدت کےساتھ محسوس کرتے ہیں۔نیز دائمی ناامیدی ، لذت آزار سہتے ہیں۔
(راقم کی کتاب ’’جدیدیت اور نو آبادیات، مطبوعہ اوکسفرڈ،۲۰۲۱ء سے مقتبس )

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply