زبان/شاہد محمود

مرد ہو یا عورت ، زبان کو سنبھالیں تو ولی ٹھہریں ورنہ زبان کا سب سے زیادہ زہریلا استعمال انسان ہی کرتا ہے اور اس بات میں مرد و عورت دونوں ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں ۔ کیسا المیہ ہے کہ انسان ایک پرندے یا جانور کو تو بے لوث پیار کرتا ہے چاہے طوطا ہزار بار انگلی پہ چکی کاٹ کھائے  ، پر انسان ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے  ، وہ کہاوت ہے ناں کہ ایک آدمی کی کشتی سے اک دوسری کشتی آ ٹکرائی   وہ بہت غصہ ہوا ، بہت اناپ شناپ بولا ۔ پر آگے سے کوئی جواب نہیں ۔۔۔ اس نے دوسری کشتی میں جا کر دیکھا تو کشتی کا ملاح زخموں سے چور بیہوش پڑا تھا ، تب اسے شرمندگی ہوئی کہ وہ خواہ مخواہ غصے ہو رہا تھا دوسری کشتی کا ملاح تو تھا ہی بیچارہ زخمی و بیہوش  ۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس طرح ہر انسان جانے کس وقت کس ذہنی کیفیت، دکھ، رنج و الم ، کرب و تکلیف سے گزر رہا ہوتا ہے جب ہم انسانیت کا لبادہ اتار بلکہ بھیڑئے کا لبادہ بھی اتار لگڑ بھگڑ بن کر اگلے کی روح تک اپنی زبان سے نوچ لیتے ہیں ۔ گدھ تو ویسے ہی بدنام بیچارہ، اصل مردار خور  انسان ہی ہے ، بلکہ آدم خور ۔  ایک ایسا آدم خور جو لوگوں کی روحیں اپنی زبان سے چھلنی کر دیتا ہے ۔

Facebook Comments

شاہد محمود
میرج اینڈ لیگل کنسلٹنٹ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply